پاکستان میں کئی تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی اسٹیبلشمنٹ اور وفاقی حکومت کے ساتھ لڑائی میں پیپلز پارٹی کا ’غیر معمولی محتاط طرز عمل‘ بہت نمایاں ہے
واضح رہے کہ پاکستان میں کثیرالجماعتی اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کو بنانے اور اسے وفاقی حکومت تک پہنچانے میں سابق صدر آصف علی زرداری کی سرتوڑ کوششوں کا کلیدی کردار تھا۔ لیکن ملک میں جاری بحران میں آصف علی زرداری اور ان کے کئی ساتھیوں کی طرف سے اس طرح کی سرگرمی اب دیکھنے میں نہیں آ رہی
اس تناظر میں سینئر تجزیہ کار امتیاز عالم کا کہنا ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم پر تو سرگرم نہیں ہے لیکن وہ وفاق میں قائم پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت کا حصہ ضرور ہے۔ چونکہ پاکستان مسلم لیگ نون بطور بڑی پارٹی فرنٹ پر نظر آ رہی ہے، اس لیے حکومتی ناکامیاں اب مسلم لیگ نون کے پلڑے میں آئیں گی جبکہ اس دوران بلاول بھٹو پوری تندہی کے ساتھ عالمی سطح پر اپنے سفارتی تعلقات بنانے میں مصروف ہیں
امتیاز عالم سمجھتے ہیں کہ پیپلز پارٹی میں کئی لوگوں کو اس بات کا احساس ہے کہ پی ڈی ایم بنا کر عدم اعتماد کے ذریعے اقتدار میں نہیں آنا چاہیے تھا اور یہ فیصلہ ایک ’مس کیلکولیشن‘ کا نتیجہ تھا۔ اس لیے وہ اپنے آپ کو ایک ایسی پوزیشن میں رکھنا چاہتے ہیں، جہاں سے ضرورت پڑنے پر ان کو ’سیف ایگزٹ‘ مل سکے لیکن ان کے بقول، ’اب تو سارے ہی ایک پلڑے میں ہیں، ایسا ممکن نہیں ہو سکے گا‘
پیپلز پارٹی کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے ایک اور تجزیہ کار جاوید فاروقی کا کہنا ہے کہ انہیں لگتا ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی اسٹیبلشمنٹ اور پی ٹی آئی کی لڑائی کو غور سے دیکھ رہی ہے۔ ان کے مطابق وہ اس جنگ میں شاید غیر جانب دار تو نہیں لیکن سرگرم بھی نہیں ہے۔ ان کے بقول، پیپلز پارٹی کسی حد تک خاموش تماشائی رہتے ہوئے یہ سمجھتی ہے کہ وہ اس لڑائی میں فریق نہیں ہے
بعض سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ پیپلز پارٹی اپنی مرضی کا آرمی چیف تو نہیں لگوانا چاہتی لیکن وہ یہ ضرور چاہتی ہے کہ کسی بھی طرف سے آنے والے نئے آرمی چیف کے ساتھ ان کا ورکنگ ریلیشن شپ ضرور رہے اور وہ آرمی چیف کے معاملے پر ’سموتھ ٹرانزکشن‘ چاہتی ہے
ان کے خیال میں پاکستان پیپلز پارٹی اسٹیبلشمنٹ کے ادارے کے ساتھ محاذ آرائی نہیں چاہتی اور وہ سسٹم کے اندر رہتے ہوئے اپنے ایجنڈے کو حاصل کرنا چاہتی ہے۔ وہ اٹھارویں ترمیم جیسے اقدامات تو کر سکتی ہے لیکن میدان سے باہر نکل کر مکہ مارنے کی قائل نہیں ہے
جاوید فارووقی کہتے ہیں کہ پیپلز پارٹی کا زیادہ تر فوکس سندھ پر ہے اور وہ اگلی ٹرم میں اپنے مفادات کا تحفظ چاہتی ہے، اس لیے اسٹیبلشمنٹ سے ٹکراؤ اس کے مفاد میں نہیں۔ وہ جس مجبوری میں، جہاں چل رہی ہے، وہی اس کے لیے واحد آپشن ہے
بعض سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ پیپلز پارٹی کی محتاط پالیسی نے اس کی ماضی کی حریف جماعت پاکستان مسلم لیگ نون کی پنجاب میں سیاست کو بہت نقصان پہنچایا ہے اور اب نواز شریف کے روایتی بیانات پیچھے چلے گئے ہیں جبکہ آصف زرداری اور شہباز شریف ایک صفحے پر دکھائی دے رہے ہیں
دوسری جانب پاکستان پیپلز پارٹی کے کارکنوں کے مطابق اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مفاہمت اور نون لیگ کے ساتھ تعاون ان کے لیے اطمینان بخش بات نہیں ہے، لیکن بعض کارکنوں کا خیال تھا کہ بعض اوقات فتح کے حصول کے لیے اپنی پوزیشن سے پیچھے بھی ہٹنا پڑتا ہے۔ ان کے بقول اب پیپلز پارٹی کی پالیسی وہی ہے، جس کے بارے میں بلاول بھٹو زرداری نے چند روز پہلے عاصمہ جہانگیر کے حوالے سے لاہور میں منعقدہ ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے اشارہ کیا تھا۔
بلاول بھٹو نے اس تقریب میں کہا تھا کہ اگر آج عاصمہ جہانگیر زندہ ہوتیں تو میں انہیں بتاتا کہ میں ڈیل کر کے حکومت میں نہیں آیا۔ یاد رہے اس موقع پر اسٹیبلشمنٹ کے حوالے سے دیے جانے والے بیان پر بعدازاں انہوں نے ندامت کا اظہار بھی کیا تھا
پیپلز پارٹی ملک میں جاری بحران میں کہاں کھڑی ہے؟ اس حوالے سے پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما چوہدری منظور احمد کا کہنا ہے ”پیپلز پارٹی اپنے ’نظریات‘ کے ساتھ کھڑی ہے اور پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت کا حصہ ہے۔ ہم آج بھی اپنے ’سویلین بالادستی‘ کے نظریے پر قائم ہیں اور عمران کے اس موقف کی مخالفت کر رہے ہیں کہ فوج کو جانب دار ہونا چاہیے۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ سیاست سے دور رہنے کی آرمی کی پالیسی ٹھیک ہے اور سیاست فوج کا کام نہیں ہے‘‘
چوہدری منظور احمد کہتے ہیں ”اقتدار پیپلز پارٹی کی مجبوری نہیں لیکن ڈیفالٹ کرتے ہوئے ملک کو بچانا بھی ضروری تھا، آپ دیکھ رہے ہیں کہ سیاست، میڈیا اور عدالت سمیت ملک میں تقسیم کتنی گہری ہو چکی ہے۔ موجودہ بحران حکومت کا نہیں ریاست کا بحران ہے۔ ہماری پہلی ترجیح ملک بچانا ہے، ملک بچے گا تو سیاست بھی کر لیں گے‘‘
ان کے مطابق ”یہ بات درست نہیں کہ بلاول بھٹو موجودہ بحران میں ملک سے باہر اپنے تعلقات بنانے میں مصروف ہیں، حالیہ سیلاب میں بلاول اپنے دورے منسوخ کر کے سیلاب زدگان کی مدد میں مصروف رہے۔ عمران حکومت نے، جس طرح پاکستان کے تعلقات امریکہ، چین اور متحدہ عرب امارات سے خراب کیے، وہ تعلقات بلاول کی کوششوں سے بتدریج معمول کی طرف آ رہے ہیں‘‘