آٹھ برس کی بچی کو گھر کے اندر سات برس تک قید رکھنے کا معاملہ، ماں اور نانا نانی سے تفتیش

ویب ڈیسک

جرمن استغاثہ نے ایک آٹھ سالہ لڑکی کو اس کی زندگی کے بیشتر حصے میں خفیہ طور پر بند رکھے جانے کے معاملے کی چھان بین شروع کر دی ہے۔ تحقیقات میں اس بارے میں بھی غور کیا جارہا ہے کہ بچوں کی بہبود کے ادارے کو کیسے دھوکہ دیا گیا؟

مغربی جرمنی کے حکام نے ایک آٹھ سالہ بچی کے کیس کی تحقیقات شروع کر دی ہیں، جسے اُس کی زندگی کے سات سال سے زیادہ عرصے تک ایک کمرے میں بند رکھا گیا۔ یہ واقعہ ایک چھوٹے سے جرمن شہر آٹن ڈورن کا ہے جہاں ایک بچی کی ماں اور ”گرینڈ پیرنٹس‘‘ نے اُسے سات سال سے زائد عرصے تک ایک کمرے میں چھپا کر رکھا تھا

جرمن پروسیکیوٹرز اب اس معمے کا سراغ لگانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ آخر اس بچی کا معاملہ چائیلڈ ویلفیئر کے ادارے کے اہلکاروں کی نظروں سے کس طرح نہیں گزرا یا اس ادارے نے اس کیس کو کیسے نظر انداز کیا؟

حکام نے بتایا کہ انہیں ماریا نامی اس بچی میں غذائی قلت یا اس کے ساتھ بدسلوکی کی کوئی علامت نہیں دکھائی دی۔ تاہم، اطلاعات کے مطابق اس کی نشوونما نارمل بچے کی طرح نہ ہونے کے سبب وہ سیڑھیاں چڑھنے یا ناہموار زمین پر اپنا راستہ تک بنانے کے قابل نہیں ہے۔ حکام نے بتایا کہ بچی کہتی ہے کہ وہ کبھی گاڑی میں نہیں بیٹھی نہ ہی اُس نے کبھی کوئی گھاس کا میدان یا جنگل دیکھا ہے

اس بچی کی والدہ نے حکام کو جھوٹ پر مبنی اطلاعات دیں کہ وہ اٹلی چلی گئی ہیں

مغربی جرمنی کے علاقے سرے لینڈ میں اٹینڈورن میں واقع گھر ناقابل ذکر ہے، جہاں چند قدم پر ایک بھورے رنگ کا دروازہ ہے

لیکن ان سفید پینٹ دیواروں کے پیچھے استغاثہ کا کہنا ہے کہ ایک ماں اور اس کے والدین نے لڑکی کو سات سال تک دنیا سے دور رکھا۔ اس دوران ان کا ماننا ہے کہ اس بچی کا کسی دوسرے شخص سے کوئی رابطہ نہیں تھا۔ وہ کبھی اسکول نہیں گئی اور اس نے کبھی باہر وقت نہیں گزارا

تاہم ان حکام کا کہنا ہے کہ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ وہ جسمانی طور پر بدسلوکی یا غذائیت کا شکار تھی۔ مقامی چائلڈ ویلفیئر ڈپارٹمنٹ کی سربراہ مائیکل فاربر کا کہنا ہے کہ یہ بچی پڑھ سکتی ہے اور ریاضی سے واقفیت رکھتی ہے لیکن روزمرہ کے دیگر کاموں کے لیے اسے جدوجہد کرنا پڑ رہی ہے

حکام کے مطابق ’ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ اب اسے کیسے آگے لے کر بڑھنا ہے‘

وہ بچی اب بچوں کے ماہر نفسیات کی نگرانی میں ہے۔ نیشنل چائلڈ پروٹیکشن ایسوسی ایشن کے ایک ماہر نے جرمن میڈیا کو بتایا ”اس بچی کے لیے اب دنیا کا تصور بدل کر رہ گیا ہے۔ یہ کسی دوسرے سیارے پر ہونے کی طرح محسوس کرے گی“

دریں اثناء ماریا کی ماں اور ‘گرینڈ پیرنٹس‘ نے اب تک پولیس کے اس سوال کا کوئی جواب نہیں دیا کہ ”بچی کو اتنے عرصے تک کیوں چھپا کر رکھا گیا؟‘‘ یہ لوگ جواب دینے سے انکار کر رہے ہیں۔ ماریا کی ماں کا نام روزمری جی ہے اور اس کی عمر کے بارے میں اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ غالباً یہ سینتالیس برس کی ہیں۔ اس خاتون نے 2015ء میں حکام کو بتایا تھا کہ وہ اطالوی علاقے کالابریا منتقل ہو گئی ہے

بڑے پیمانے پر فرض کیا جاتا ہے کہ ماں بچے کو اپنے والد سے دور رکھنے کی کوشش کر رہی ہوگی، جس سے وہ لڑکی کی پیدائش سے کچھ دیر پہلے ہی الگ ہو گئی تھیں

مبینہ طور پر انہوں نے اپنے سابقہ خاوند کو اس بچی کے ساتھ رابطے سے منع کیا تھا اور جب انہوں نے فیملی کورٹس کا رخ کیا تو انہوں نے سنہ 2016ع میں مشترکہ تحویل میں دے دیا۔ تب تک جرمن حکام اور اس بچی کے والد کا خیال تھا کہ ماں اپنی بیٹی کے ساتھ ملک چھوڑ چکی ہیں

ماریا کے والد نے مقامی چائیلڈ کیئر سروسز کو بتایا کہ انہوں نے ماریا اور اُس کی والدہ کو 2015 ء ستمبر کے مہینے میں متعدد بار جرمن شہر آٹن ڈورن میں دیکھا تھا

تاہم چائیلڈ ویلفیئر سروسز کے حکام کا کہنا ہے کہ، جب انہوں نے 2015ء میں ماریا کے گرینڈ پیرنٹس سے بات کی تو انہیں یہی بتایا گیا کہ ماریا اٹلی میں ہے

چائیلڈ پروٹیکشن حکام نے کہا کہ گرینڈ پیرنٹس کی طرف سے اُنہیں بار بار کوشش کے باوجود ماریا کا اتا پتا نہیں بتایا گیا اور انہیں اس معاملے سے دور رکھنے کی کوشش کی گئی اور پولیس کو بھی گھر تک رسائی نہیں دی گئی ، نہ ہی کبھی کوئی سرکاری وارنٹ جاری کیا گیا

رواں سال جولائی میں دوبارہ سے اس بچی کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لیے تفتیش کا سلسلہ اُس وقت شروع کیا گیا، جب پولیس کو یہ خبر ملی کہ اس بچی کو بند رکھا گیا ہے۔ اس کی ماں کے رشتے داروں نے پولیس کو بتایا کہ یہ بچی اور اس کی ماں کبھی بھی اٹلی میں مقیم نہیں رہے تھے

اُدھر اطالوی حکام نے یوتھ ویلفیئر افسران کو بتایا کہ یہ بچی کبھی بھی اُس پتے پر نہیں رہی، جو اُس کی ماں نے جرمن حکام کو دیا تھا۔ دریں اثناء ایک عدالتی حکم پر بچی اپنے گرینڈ پیرنٹس کے گھر سے برآمد ہوئی

چوبیس ہزار نفوس پر مشتمل ایک چھوٹے سے قصبے میں ایک بچی اتنے عرصے تک چھپی ہوئی ہو، بظاہر کسی کا دھیان نہیں دے سکتا۔ اس بارے میں بڑے پیمانے پر کوئی اس پر یقین کرنے کو تیار نظر نہیں آتا ہے

یہ بات سامنے آئی ہے کہ حکام کو حالیہ برسوں میں لڑکی کے بارے میں دو اطلاعات موصول ہوئیں، لیکن ان کا کہنا ہے کہ جب انہوں نے تحقیقات کیں تو اس بات کا کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ملا کہ کسی بچے کو یہاں قید رکھا جا رہا ہے

رواں برس جون میں ایک میاں بیوی نے چھوٹی بچی کو دیکھے جانے کی اطلاع دی تھی، جس سے ایک تحقیقات کا آغاز ہوا جس سے معلوم ہوا کہ وہ اور اس کی ماں کبھی بھی اٹلی میں نہیں رہے تھے، اور وہ بچی کے نانا نانی کے گھر پر قیام کیے ہوئے تھے

نانا نانی اور والدہ سے غیر قانونی قید اور بدسلوکی کے شبہ میں تفتیش کی جا رہی ہے۔ استغاثہ کا کہنا ہے کہ والدہ کو دس برس تک قید کی سزا ہو سکتی ہے، لیکن آج تک اس پر کوئی الزام عائد نہیں کیا گیا

ایک سینیئر پراسیکیوٹر نے کہا، ” اس حقیقت کو دیکھتے ہوئے کہ یہ بچی ڈیڑھ سال کی عمر سے گھر سے باہر نہیں گئی یہ بات تعجب کا باعث نہیں کہ باہر کی دنیا کے بارے میں اُسے شعوری طور پر کچھ معلوم نہیں۔‘‘

یہ بچی اب قریب نو برس کی ہو گئی ہے اور اسے ایک رضائی گھر میں رکھا گیا ہے۔ اس کی ماں اور گرینڈ پیرنٹس کے خلاف ‘بچی کو آزادانہ نقل و حرکت کرنے سے محروم رکھنے‘‘ کے جرم میں تفتیشی کارروائی کا سامنا ہے۔ اس جرم کی سزا زیادہ سے زیادہ پندرہ برس قید ہے

ایک علیحدہ تحقیقاتی کارروائی میں اس بات کی جانچ کی جائے گی کہ بچوں کے تحفظ کی خدمات پر مامور ادارے کیسے اس کا سراغ لگانے میں ناکام رہے

سینیئر پبلک پراسیکیوٹر پیٹرک بیرن فون گروتھس نے نیوز ایجنسی ڈی پی اے کو بتایا، ”ہمیں اس بات پر روشنی ڈالنا ہوگی کہ آیا یوتھ ویلفیئر آفس نے اس کیس کو بے نقاب کرنے کے لیے ہر ضروری اقدامات کیے؟ اگر یہ سمجھا جائے کہ ایک آٹھ سالہ بچی کو تقریباً سات سال سے کسی گھر میں چھپا کر رکھا گیا تھا تو یہ سوال لامحالہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ بچی پہلے نہیں مل سکتی تھی۔‘‘

چائیلڈ ویلفیئر حکام کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ انہیں ایک دو سال پہلے ایسی رپورٹس موصول ہوئی تھیں کہ بچی کو مذکورہ مقام پر بند رکھا گیا تھا تاہم، ان کا کہنا تھا کہ ان کے پاس کوئی ٹھوس شواہد نہیں تھے، جس کی بنا پر وہ کیس کی مزید تحقیقات کرتے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close