قبول اسلام سے متعلق متنازع فلم کی ریلیز روکنے کا مطالبہ

ویب ڈیسک

بھارت کی وفاقی وزارت اطلاعات و نشریات میں بالی ووڈ کی ایک متنازع فلم کے خلاف شکایت درج کرائی گئی ہے۔ جس میں ریاست کیرالہ کو مبینہ طور پر ’دہشت گرد ریاست‘ کے طور پر پیش کیا گیا ہے

رواں ماہ کے اوائل میں جاری ہونے والے ’دی کیرالہ اسٹوری‘ کے ٹیزر میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ جنوبی ریاست کیرالہ، جس کو اب کمیونسٹ پارٹی چلا رہی ہے، سے تعلق رکھنے والی تقریباً بتیس ہزار خواتین نے گذشتہ ایک دہائی میں اسلام قبول کیا اور عسکریت پسند کالعدم تنظیم دولت اسلامیہ میں شمولیت اختیار کی

تامل ناڈو سے تعلق رکھنے والے صحافی اروند کشن بی آر نے وفاقی وزارت اور بھارت کے فلم سرٹیفیکیشن بورڈ کے چیئرپرسن پرسون جوشی کو خط لکھ کر فلم پر اس وقت تک پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کیا ہے، جب تک کہ فلم ساز اپنے دعوے کے حق میں ثبوت نہ دیں

اس فلم کی ہدایت کاری سدیپتوسین نے کی اور پروڈیوسروپل امرتل شا ہیں

ٹیزر میں اداکارہ ادا شرما کو نقاب پہنے دیکھا جا سکتا ہے، جن کے عقب میں خاردار تاریں اور برف پوش پہاڑ ہیں

اداکارہ اپنا تعارف فاطمہ با کے نام سے کرواتی ہیں، جن کا پہلا نام شالنی اننی کرشنن تھا، وہ نرس بن کر انسانیت کی خدمت کرنا چاہتی تھیں، لیکن انہوں نے اسلام قبول کرلیا اور ’اب افغانستان جیل میں قید آئی ایس ایس کی ایک دہشت گرد ہیں‘

اس کردار کا کہنا ہے کہ بالآخر وہ افغانستان کی جیل میں پہنچ گئیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ کیرالہ میں کھلے عام مذہب کی تبدیلی کا ایک ’خطرناک کھیل‘ کھیلا جا رہا ہے

بغیر کوئی ثبوت فراہم کیے فلم سازوں کا دعویٰ ہے کہ یہ فلم زندگی کے سچے واقعات پر مبنی ہے اور اس میں بتیس ہزار لوگوں نے مذہب تبدیل کیا، جن میں سب وہ خواتین ہیں، جو شام اور یمن کے صحراؤں میں دفن ہوئیں

ثبوت فراہم کیے بغیر دعویٰ کرنے کی وجہ سے ٹیزر ریلیز ہونے کے بعد اس پر تنقید کی جا رہی ہے

اروند کشن نے کیرالہ کے وزیر اعلیٰ پنا رائی وجین کو بھی درخواستیں بھجوائیں، جنہوں نے ریاستی پولیس کے سربراہ کو مناسب کارروائی کرنے کی ہدایت کی ہے

صحافی نے وزیراعلیٰ کو لکھے جانے والے اپنے خط میں کہا ”اگر فلم ’دی کیرلا اسٹوری‘ کو غلط معلومات کے ساتھ سینما گھروں یا او ٹی ٹی پلیٹ فارم پر ریلیز کیا گیا تو سماج میں اس کے برے نتائج ہوں گے“

انہوں نے کہا ”یہ فلم بھارت کے اتحاد اور خودمختاری کے خلاف اور بھارت کی تمام خفیہ ایجنسیوں کی ساکھ پر داغ ہے“

ان کا کہنا تھا ”کیرلا پولیس کو چاہیے کہ سدیپتو سین کو بلائے اور تحقیقات کریں کہ یہ فلم کس بھارتی خفیہ ایجنسی کے رپورٹ پر مبنی تھی“

ایسا لگتا ہے کہ یہ فلم کیرالہ کی ان چار خواتین پر مبنی ہے، جو اپنے شوہروں کے ساتھ خراسان صوبے (داعش-کے) میں دولت اسلامیہ میں شامل ہونے کے لیے گئی تھیں، لیکن اب وہ افغانستان کی ایک جیل میں قید ہیں

اطلاعات کے مطابق یہ خواتین 18-2016 میں افغانستان کے شہر ننگرہار گئی تھیں

تاہم ایسی کوئی سرکاری یا مصدقہ رپورٹ سامنے نہیں آئی جس سے یہ ظاہر ہو کہ بھارتی ریاست سے تعلق رکھنے والی بتیس ہزار خواتین نے اسلام قبول کیا اور دہشت گرد تنظیم میں شمولیت اختیار کی

واضح رہے کہ جب سے بھارت میں ہندو قوم پرستوں کو سیاسی عروج حاصل ہوا ہے، زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں ہے، جو اس کی زد سے محفوظ رہا ہو۔ حالیہ برسوں میں بالی وڈ میں ایسی فلموں کا ایک ریلا آیا ہوا ہے، جس کے ذریعہ نہ صرف تاریخ کو مسخ کیا جا رہا ہے بلکہ ملک کے دو بڑے مذہبی فرقوں کے درمیان غلط فہمیوں اور نفرت کی دیوارکھڑی کرنے کی دانستہ کوشش کی جا رہی ہے

تفریح کے اس سب سے سستے مگر انتہائی طاقتور و موثر ذریعے کو معصوم اور سادہ لوح عوام کو نفرت اور تعصب سے مسموم کرنے کا ایک ہتھیار بنا دیا گیا ہے

تاریخ کی کتابوں اور نصابی کتب کو مسخ کرنے کے بعد اب فلموں کا بڑے پیمانے پر فرقہ پرستی کے فروغ اور تاریخ کو مسخ کرنے کے لیے منظم طور پر استعمال کیا جارہا ہے

بھارت میں فلم سازی کے سب سے بڑے مرکز ممبئی میں تاریخ کے نام پر جو فلمیں بن رہی ہیں، ان میں مسلمانوں سے نفرت، اور ان کی غلط شبیہ پیش کرنے اور تاریخ کو توڑ مروڑنے کا خاصا مواد ہوتا ہے۔ مذکورہ فلم کیرالا بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close