گزشتہ اتوار کو خاران سے تعلق رکھنے والے لطف اللہ یلانزئی اور ان کی بیوی امیرزادی کی یکے بعد دیگرے مبینہ خودکشی کا ذمہ دار محکمہ انسداد دہشتگردی کو قرار دیا جا رہا ہے
ان کے کزن محمد یعقوب یلانزئی کے مطابق ”میرے کزن کی بیوی گھر میں سی ٹی ڈی کے چھاپوں سے اتنی تنگ آ چکی تھیں کہ اُنہیں اپنی زندگی کا خاتمہ کرتے ہوئے چوبیس دن کی بچی سمیت چار چھوٹے بچوں کا بھی خیال نہیں آیا۔ بیوی کی موت کے بعد ان کے شوہر اس صدمے کو برداشت نہیں کر سکے اور اپنے آپ کو گولی مار دی“
محمد یعقوب یلانزئی نے بتایا کہ لطف اللہ یلانزئی کے بھائی عجاب الرحمان یلانزئی کو پہلے مبینہ طور پر حراست میں لیا گیا تھا اور پھر سی ٹی ڈی نے بلوچستان ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس محمد نور مسکانزئی کے قتل کے حوالے سے ان کی گرفتاری ظاہر کی
اُنہوں نے الزام عائد کیا کہ عجاب الرحمان کی گرفتاری کے بعد ان کے گھر پر سی ٹی ڈی کے اہلکاروں نے پانچ سے چھ مرتبہ چھاپہ مارا اور اُنہوں نے گھر والوں کو مبینہ طور پر ہراساں کیا
تاہم بلوچستان کے مشیر برائے داخلہ میر ضیاءاللہ لانگو نے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے ”پولیس کی تحقیقات کے مطابق لطف اللہ نے پہلے اپنی بیوی کو قتل کیا، پھر اس کے بعد خودکشی کی“
محمد یعقوب یلانزئی کے مطابق: 23 اکتوبر کو اُن کے ایک اور رشتے دار شفقت اللہ یلانزئی کو مبینہ طور پر جبری طور پر لاپتہ کیا گیا۔ اس کے بعد 30 اکتوبر کو جسٹس محمد نور مسکانزئی کے قتل کے حوالے سے ان کی گرفتاری ظاہر کی گئی
اُنہوں نے بتایا کہ شفقت اللہ کی گرفتاری کے علاوہ ان کے کزن عجاب الرحمان کے گھر پر چھاپہ مارا گیا لیکن وہ گھر پر نہیں تھے
یعقوب بتاتے ہیں ’جب عجاب الرحمان کو پتہ چلا کہ ان کی گرفتاری کے لیے چھاپہ مارا گیا ہے تو وہ خود متعلقہ حکام کے پاس چلے گئے۔ وہ اس لیے خود چلے گئے کہ وہ بے گناہ تھے لیکن ان کو بھی حراست میں لیا گیا اور بعد میں ان کی بھی گرفتاری جسٹس محمد نور مسکانزئی کے قتل کے حوالے سے ظاہر کی گئی۔‘
یعقوب یلانزئی کے مطابق ’ہمارا یہ خیال تھا کہ عجاب الرحمان کو چھوڑ دیں گے لیکن ان کو نہیں چھوڑا گیا اور بعد میں ان پر بے بنیاد الزام لگا کر ان کی بھی گرفتاری ظاہر کی گئی۔‘
ان کا کہنا تھا ’ہمارے دو رشتے داروں کی گرفتاری پر بس نہیں کیا گیا بلکہ خاندان کو ایسے ہراساں کیا گیا جو ہمارے لیے ایک اور المناک سانحے کا باعث بنا۔‘
محمد یعقوب یلانزئی نے کہا کہ عجاب الرحمان کی گرفتاری کے بعد سی ٹی ڈی کے اہلکاروں نے ان کے گھر پر پانچ سے چھ مرتبہ چھاپے مارے
اُنہوں نے الزام عائد کیا کہ ’ان چھاپوں کے دوران گھر والوں کو ہراساں کیا جاتا تھا۔ خواتین کے کپڑے اور گھر کا سامان پھینکا جاتا تھا‘
اُنھوں نے دعویٰ کیا کہ بعض اوقات یہ چھاپے ایسے مواقع پر مارے گئے جب گھر پر مرد نہیں ہوتے تھے جس سے خواتین کو بہت زیادہ پریشانی اور خوف کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ل
ان کا کہنا تھا ’لطف اللہ کی بیوی اتنی تنگ آ گئی تھیں کہ وہ ہر وقت یہ کہتی تھیں کہ اس زندگی سے بہتر ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں موت دے۔‘
محمد یعقوب نے بتایا کہ چونکہ امیرزادی گھر پر چھاپوں کی وجہ سے بہت زیادہ پریشان ہو گئی تھیں، جس کے باعث ’خودکشی سے چند روز قبل وہ اپنے بھائی کے گھر گئی تھیں۔ امیرزادی کے بھائی رشتے میں محمد یعقوب اور لطف اللہ دونوں کے کزن ہیں۔‘
یعقوب یلانزئی نے بتایا کہ لطف اللہ بیوی اور بچوں کو واپس گھر لانے کے لیے امیرزادی کے بھائی کے گھر گئے تھے
’بچوں کو تیار ہونے کے لیے کہنے کے بعد وہ اپنے سالے کے گھر سے کسی کام سے باہر نکل گئے تھے۔ ان کے نکلنے کے بعد ان کی بیوی امیرزادی نے اپنے آپ کو گولی مار کر خود کشی کی۔‘
ان کا کہنا تھا ’تھوڑی دیر بعد جب لطف اللہ اُنہیں لینے کے لیے گھر پہنچے تو وہاں امیرزادی کی خودکشی کے باعث ایک کہرام برپا تھا۔ لطف اللہ نے اس حالت کو دیکھ کر کہا کہ اب اس غم کے ساتھ وہ مزید زندہ نہیں رہ سکتے۔ بیوی کی موت کے تھوڑی دیر بعد اُنھوں نے بھی اپنے آپ کو گولی مار کر زندگی کا خاتمہ کر لیا۔‘
یعقوب یلانزئی نے کہا ’دونوں کے چار بچے ہیں جن میں سب سے چھوٹی بیٹی ہے جن کی عمر والدہ کی خود کشی کے وقت صرف چوبیس دن تھی۔‘
’میاں بیوی دونوں نوجوان تھے اور ان کی عمریں بائیس سے پچیس سال کے درمیان تھیں۔ ان کی ایک بیٹی سمیت باقی تین بچوں کی عمریں ایک سال سے چار سال کی ہیں۔‘
دوسری جانب بلوچستان کے مشیر برائے داخلہ میر ضیاء اللہ لانگو کے اس موقف کہ ’پولیس کی تحقیقات کے مطابق لطف اللہ نے اپنی بیوی کو قتل کرنے کے بعد خودکشی کی‘ کے بارے میں ایس پی خاران کا کہنا ہے ’مشیر صاحب نے درست کہا ہو گا تاہم اس سلسلے میں تحقیقات جاری ہیں۔‘
یاد رہے کہ کوئٹہ میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بلوچستان کے مشیر برائے داخلہ میر ضیا اللہ لانگو نے کہا تھا کہ خاران میں پیش آنے والے واقعے کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ ’میاں بیوی نے پولیس کے بار بار چھاپوں کے باعث خودکشی کی۔‘
ان کا کہنا تھا ’ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ پولیس کی تحقیقات اور رپورٹ کے مطابق لطف اللہ نامی شخص نے اپنی بیوی کو قتل کیا اور اس کے بعد اُنہوں نے خودکشی کی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ لطف اللہ یلانزئی کے بڑے بھائی عجاب یلانزئی کو سی ٹی ڈی نے جسٹس محمد نور مسکانزئی کے قتل کے حوالے سے گرفتار کیا تھا جبکہ ان کے خالہ زاد بھائی شفقت اللہ کو بھی اس شبے میں گرفتار کیا تھا
انہوں نے دعویٰ کیا کہ ایسے ’پروپیگنڈے‘ سی ٹی ڈی اور ریاستی اداروں کو بدنام کرنے کے لیے کیے جا رہے ہیں۔