قطر میں پاکستان سمیت مختلف ملکوں سے آنے والے مزدوروں سے کیسا سلوک کیا جاتا ہے؟

ویب ڈیسک

قطر نے ورلڈ کپ کے لیے سات سٹیڈیم تیار کرنے کے ساتھ ساتھ ایک نیا ہوائی اڈہ، میٹرو سسٹم، نئی سڑکیں اور تقریباً 100 نئے ہوٹل بنائے ہیں۔

اس سٹیڈیم کے ارد گرد ایک پورا شہر بنایا گیا ہے جہاں ورلڈ کپ فائنل کھیلا جائے گا

فٹ بال کے شائقین جو جلد ہی ورلڈ کپ کے فائنل کے لیے قطر پہنچیں گے وہ ہوٹلوں میں ٹھہریں گے اور ان سٹیڈیمز میں میچ دیکھیں گے جنھیں دسیوں ہزار تارکین وطن مزدوروں نے تعمیر کیا ہے۔

قطر نے ان مزدوروں کے ساتھ جس طرح کا سلوک روا رکھا ہے اس پر اسے سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے

فروری 2021 میں گارڈین اخبار کے مطابق پاکستان، نیپال، بنگلہ دیش اور سری لنکا سے تعلق رکھنے والے 6,500 مزدور اس وقت سے ہلاک ہو چکے ہیں جب قطر کو ورلڈ کپ کی ذمہ داری دی گئی تھی اس نے اس حوالے سے تعمیرات کا سلسلہ شروع کیا تھا۔

یہ تعداد قطر میں موجود مختلف ممالک کے سفارت خانوں کے فراہم کردہ اعداد و شمار پر مبنی ہے۔

تاہم قطر کی حکومت نے کہا ہے کہ یہ اعداد و شمار درست نہیں ہیں کیونکہ اس دوران ہونے والی تمام اموات ورلڈ کپ سے متعلق منصوبوں پر کام کرنے والے افراد یا مزدوروں کی نہیں تھیں۔

قطری حکومت کے مطابق مرنے والوں میں سے بہت سے افراد ایسے تھے جو گذشتہ کئی برسوں سے قطر میں کام کر رہے تھے اور ان کی اموات بڑھاپے اور دیگر قدرتی وجوہات سے ہوئی ہوں گی

حکومت نے کہا کہ اس کے حادثات سے متعلق ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ سنہ 2014 اور 2020 کے درمیان ورلڈ کپ سٹیڈیم کی تعمیراتی جگہوں پر صرف 37 مزدور ہلاک ہوئے، جن میں سے صرف تین مزدوروں کی ہلاکت کام کرتے ہوئے ہوئی ہے۔

مزدوروں کی عالمی تنظیم یعنی انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (آئی ایل او) کا کہنا ہے کہ قطر کی حکومت کا اموات کے حوالے سے اندازہ کم ہے۔ قطر میں دل کے دورے اور سانس رکنے یا اکھڑنے کی وجہ سے ہونے والی اموات کو کام سے متعلق شمار کرتا ہی نہیں ہے۔ حالانکہ یہ ہیٹ سٹروک کی عام علامات ہیں، جو بہت زیادہ درجہ حرارت میں بھاری مشقت کرنے سے ہوتی ہیں۔

آئی ایل او نے ورلڈ کپ سے متعلق واقعات کے لیے اپنے اعداد و شمار مرتب کیے ہیں، جو قطر میں سرکاری ہسپتالوں اور ایمبولینس سروسز سے جمع کیے گئے ہیں۔

تنظیم کا کہنا ہے کہ صرف سنہ 2021 میں 50 غیر ملکی مزدور ہلاک اور 500 سے زیادہ شدید زخمی ہوئے ہیں جبکہ دیگر 37,600 کو ہلکے سے درمیانے درجے کے زخم آئے۔

بی بی سی عربی نے بھی ایسے شواہد اکٹھے کیے ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ قطر کی حکومت نے غیر ملکی مزدوروں کی ہلاکتوں پر مکمل معلومات فراہم نہیں کی ہیں

قطر میں غیرملکی مزدوروں کے ساتھ کیسا سلوک روا رکھا جاتا ہے؟

جب سے قطر نے سنہ 2010 میں ورلڈ کپ کی میزبانی کا حق حاصل کیا ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے غیر ملکی کارکنوں کے ساتھ روا رکھنے والے سلوک پر تنقید کی ہے۔

سنہ 2016 میں ایمنیسٹی انٹرنیشنل نے قطری کمپنیوں پر جبری مشقت کا الزام عائد کیا تھا۔

اس میں کہا گیا ہے کہ بہت سے کارکن ناقص رہائش گاہوں میں رہتے تھے، انھیں بھرتی کرنے کی عوض بھاری فیس ادا کرنے پر مجبور کیا گیا تھا اور ان کی اجرت روک دی جاتی ہے اور اُن کے پاسپورٹ ضبط کر لیے گئے تھے

سنہ 2017 سے حکومت نے غیر ملکی مزدوروں کو انتہائی گرم موسم میں کام کرنے سے بچانے، ان کے کام کے اوقات کو محدود کرنے اور ان مزدوروں کے کیمپوں میں حالات کو بہتر بنانے کے لیے اقدامات متعارف کرائے ہیں۔

تاہم سنہ 2021 کی ایک رپورٹ میں، انسانی حقوق پر کام رنے والے گروپ ہیومن رائٹس واچ نے کہا کہ غیر ملکی کارکنان اب بھی ’تعزیتی اور غیر قانونی اجرتوں میں کٹوتیوں‘ کا شکار ہیں اور انھیں ’طویل وقت سخت مزدوری‘ کرنے کے باوجود پوری اجرت نہیں دی جا رہی ہے

قطری کمپنیاں ’کفالہ‘ کے نام سے ایک نظام چلاتی تھیں، جس کے تحت وہ غیر ملکی کارکنوں کو ملک میں آنے کے لیے سپانسر کرتی تھیں لیکن پھر مزدوروں کو اپنی مرضی سے ملازمت چھوڑنے سے روکتی تھی۔

آئی ایل او جیسے گروپوں کے دباؤ میں، قطر کی حکومت نے اس پریکٹس کو ختم کر دیا، لیکن ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ کمپنیاں اب بھی مزدوروں پر دباؤ ڈالتی ہیں کہ وہ آجر کو کمپنی بدلنے سے روکیں۔

اس نے متنبہ کیا کہ لیبر اصلاحات پر پیشرفت کو ’ایک بار جب [ورلڈ کپ] روڈ شو دوحہ سے ختم ہو جائے تو رک نہیں جانی چاہییں

قطر کی حکومت کا ان غیرملکی مزدوروں کے حقوق کے بارے میں کیا مؤقف ہے؟

آئی ایل او کے ساتھ مل کر کام کرتے ہوئے قطری حکومت نے متعدد اصلاحات متعارف کرائی ہیں۔

ان میں اجرت کے تحفظ کی سکیم بھی شامل ہے، جو اس بات کو یقینی بنانے کے لیے بنائی گئی ہے کہ آجر اپنے عملے کو وقت پر ادائیگی کریں۔ ایک حکومتی ترجمان نے بی بی سی کو بتایا کہ حکومت کی اصلاحات سے قطر میں زیادہ تر غیر ملکی مزدوروں کے کام کے حالات بہتر ہو رہے ہیں۔

ترجمان نے کہا ہے کہ ’اصلاحات کو مؤثر طریقے سے نافذ کرنے کو یقینی بنانے کے لیے اہم پیش رفت ہوئی ہے۔‘

ان کے مطابق اب قواعد کو توڑنے والی کمپنیوں کی تعداد میں کمی ہوتی رہے گی کیونکہ اب قوانین کے اطلاق میں سختی برتی جا رہی ہے

اس بارے میں ورلڈ کپ میں حصہ لینے والی ٹیموں کا کیا کہنا ہے؟

فائنل کے دوران یہ مسئلہ سپاٹ لائٹ میں رہنے کا امکان ہے۔

فیفا نے مقابلہ کرنے والی 32 ٹیموں کو خط لکھا ہے کہ وہ ’اب فٹ بال پر توجہ دیں۔‘

اس میں کہا گیا ہے کہ کھیل کو نظریاتی یا سیاسی ’لڑائیوں‘ میں ’گھسیٹا‘ نہیں چاہیے یا ’اخلاقی سبق نہیں دینا چاہیے۔‘

لیکن اس کے جواب میں، دس یورپی فٹ بال ایسوسی ایشنز، بشمول انگلینڈ اور ویلز، نے کہا ہے کہ ’انسانی حقوق عالمگیر نوعیت کے حامل ہوتے ہیں اور ہر جگہ لاگو ہوتے ہیں۔‘

آسٹریلوی فٹ بال سکواڈ نے تارکین وطن کارکنوں کے ساتھ ناروا سلوک کرنے پر قطر پر تنقید کرتے ہوئے ایک ویڈیو جاری کی ہے۔

ڈنمارک کے کھلاڑی قطر کے انسانی حقوق کی پامالی کے خلاف احتجاج ریکارڈ کرانے کے لیے مکمل سیاہ کِٹ پہنیں گے

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close