اُس نے مال روڈ پر زارا کے آؤٹ لیٹ پر کال کی اور برانچ مینجر کو بتایا کہ کل انوائس نمبر چھیاسٹھ بارہ کے ذریعے اُس نے جو خریداری کی ہے، اس میں پرائس کوڈ مشین سے ایک ٹراؤزر کی قیمت مس ہو گئی ہے، یہ سولہ ہزار کا ہے، مجھے بتائیے کہ اس کی ادائیگی کے لئے مجھے کیا کرنا ہوگا
مینجر نے تحمل سے بات سنتے ہوئے پہلے تو کال کرنے والے کا شکریہ ادا کیا اور پھر انتہائی عاجزی سے بتایا کہ ویسے تو اس کام کے لئے ہمارا نمائندہ آپ کے پاس آنا چاہئے لیکن اتفاق سے ہمارے پاس ایسی کوئی سروس دستیاب نہیں ہے۔ اگر وہ خود برانچ پر تشریف لے آئیں تو ادارہ آپ کا بے حد ممنون ہوگا
اگلی صبح مسٹر چھابڑا نے کی نیٹ سے سولہ ہزار کی رقم ادا کی اور اپنی سیاہ ٹو ڈور پورچ میں دفتر روانہ ہوگئے
یوسف چھابڑا اپنے خاندان اور دوستوں کے حلقہ میں بہت احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔ ان کی دیانتداری اور مخلصی کے چرچے ہوتے رہتے تھے۔ چھابڑا صاحب اُون کی فیکٹری کے مالک تھے اور ان کی فیکٹری میں کُل اڑتالیس رنگوں اور چودہ مختلف سائزز میں اُون تیار ہوتی تھی، جس کا تقریباً نوے فیصد حصہ برازیل برآمد کیا جاتا تھا۔ یوں دو ایک ماہ بعد وہ کاروباری سلسلہ میں برازیل آتے جاتے تھے وہاں بھی اُن کی نیک نامی کا ڈنکا بجتا تھا. وہ ہفتے میں ایک بار غریبوں کے لئے عام لنگر کا اہتمام کرتے خاندانی بیاہ شادیوں میں اُن کا برتاؤ مثالی ہوتا تھا اور وہ خاموشی کے ساتھ ناداروں کی مدد بھی کر دیا کرتے تھے
چھابڑا صاحب کی کوئی اولاد نہ تھی۔ اُن کی بیگم ایک خاموش طبع گھروں خاتون تھیں، جسے چھابڑا صاحب کے کاروبار میں کوئی دلچسپی نہ تھی
چھابڑا صاحب کے ساتھ قدرتی حسن اتفاق کا ایک انوکھا معاملہ تھا اور وہ یہ کہ آئے روز انہیں کہیں نہ کہیں سے اضافی پیسے یا اشیا ملتی رہتی تھیں، جنہیں وہ پوری ذمہ داری کے ساتھ مالک کو لوٹا دیا کرتے تھے۔ جس روز وہ زارا کے آؤٹ لیٹ پر سولہ ہزار روپے ادا کر کے آفس جارہے تھے اسی روز ملازمین کی تنخواہوں کے لئے بینک سے ساڑھے تیرہ لاکھ روپے کیش لیتے ہوئے انہیں پچاس ہزار روپے اضافی آگئے تھے۔ یہ پچاس ہزار الٹا چھابڑا صاحب نے شکریے کے ساتھ کیشئر کو واپس کئے تھے۔ اسی طرح پچھلے ہفتے بیگم کے لئے نیلم جیولری سے بریسلٹ لیتے ہوئے انہیں پانچ پانچ ہزار کے دو نوٹ زیادہ آ گئے تھے، چھابڑا صاحب نے پروپرائٹر، جو اُن کا دوست تھا، کو دس ہزار واپس لوٹاتے ہوئے ازراہ مذاق تنبیہ کی کہ اگر اسی طرح تم اپنا مال لٹاتے رہے تو ایک روز ریت بجری کا کاروبار کرتے نظر آؤ گے
ایک بار چھابڑا صاحب بذریعہ موٹر وے گوجرہ سے لاہور آرہے تھے کہ شاہدرہ موڑ پر انہیں سڑک کے کنارے ایک زنانہ ہینڈ بیگ پڑا نظر آیا۔ انہوں نے گاڑی روک کر بیگ اُٹھا کر کھولا تو اندر طلائی زیورات کے علاوہ ہزاروں روپے نقدی موجود تھے۔ انہوں نے فوراً بیگ بند کیا اور کچھ آگے ٹول پلازہ پر گاڑی روکی اور موٹر وے پولیس سے رابطہ کر کے کسی مسافر کی گمشدہ اشیا کی شکایت کے بارے میں استفسار کیا۔ انہیں بتایا گیا کہ ایک خاتون کے ہینڈ بیگ گم ہونے کی اطلاع ہے۔ چھابڑا صاحب نے پولیس کو اپنا سیل نمبر لکھواتے ہوئے کہا کہ وہ خاتون اس نمبر پر ان سے رابطہ کر لے۔ آدھ گھنٹے بعد لاہور کی اندرون سڑک پر چھابڑا صاحب کے بتائے ہوئے اڈریس پر وہ خاتون اپنے شوہر کے ساتھ چھابڑا صاحب سے اپنا بیگ لے گئی۔
پیٹرول پمپس، سپر مارکیٹس اور ریسٹورنٹس پر آئے روز انہیں اضافی رقم ملنے کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ وہ اِس حسنِ اتفاق سے اس قدر مانوس ہو چکے تھے کہ اپنی ہر خریداری پر بقایاجات گن لیا کرتے تھے تاکہ مبادا اضافی رقم لوٹانے کے لئے انہیں دوبارہ گھر سے نہ آنا پڑے
صرف یہی نہیں، چھابڑا صاحب پر ایک بار مقامی کمپنی کے مینجر کی سیکرٹری بھی عاشق ہو گئی تھی۔ چھابڑا صاحب نے بڑی مشکلوں اور حیلوں سے اُس خاتون کو راضی کر کے اُسے اس کے شوہر کو لوٹا دیا تھا
چھابڑا صاحب کا یہ حسن اتفاق ملکی حدود کا پابند نہیں تھا، سنگاپور کے تفریحی دورے پر تو اُن کے ساتھ ایک عجیب واقع پیش آیا۔۔ وہ پاکستان واپسی کے لئے اپنے ہوٹل سے چیک آؤٹ ہوئے تو پورٹر نے اُن کا سامان لوموزین میں رکھ دیا۔ وہ ایئر پورٹ پہنچے تو اُن کے سامان میں ایک ہینڈ بیگ اضافی تھا۔ انہوں نے بیگ کی زپ کھولی تو اندر سے چند دستاویز کے علاوہ ستائیس ہزار سنگاپوری ڈالر برآمد ہوئے۔ انہوں نے ہوٹل فون کر کے استقبالیہ میں اس کی اطلاع دی تو وہ چھابڑا صاحب ہی کو تلاش کر رہے تھے۔ اصل میں ایک ترکی تاجر اُن سے پہلے اسی کمرے میں ٹھہرا ہوا تھا اور اپنا ہینڈ بیگ، جس میں کچھ دستاویز کے ساتھ کرنسی نوٹ بھی موجود تھے، اپنے روم میں بھول گیا تھا۔ اس نے جب ہوٹل سے رجوع کیا تو پورٹر نے استقبالیہ کو بتایا کہ اُس نے ایسا ایک بیگ چھابڑا صاحب کی گاڑی میں رکھا تھا۔ استقبالیہ نے چھابڑا صاحب کو فون پر بتایا کہ ہمارا نمائندہ ایئرپورٹ پہنچ رہا ہے، وہ اُس کا انتظار کر لیں، دراصل اس بیگ میں موجود دستاویزات بہت اہم ہیں
قدرت کچھ لیتے اور دیتے ہوئے بتاتی نہیں ہے کہ یہ لین دین کیوں ہو رہا ہے۔ بس وہ کسی بھی وقت کچھ دے دیتی ہے اور کسی وقت بغیر کچھ بتائے آہنی تجوریوں اور مسلح سیکیورٹی گارڈز کے ہوتے بینک لاکرز سے سب کچھ لے جاتی ہے۔۔
پھر ایک روز قسمت کا پہیہ اُلٹا چل پڑا۔۔ برازیل میں ان کی اُون خریدنے والی فرم انٹرنیشنل مارکیٹ سے سات ملین ڈالر کا فراڈ کر کے منظر سے غائب ہوگئی! چھابڑا صاحب کی چودہ کروڑ کی تین کنسائنمنٹ اس فراڈ کی نظر ہو گئیں۔۔ چھابڑا صاحب کے کاروبار کا تمام تر دارومدار اسی فرم پر تھا۔ بینک کی پہلی ادائیگی کے لئے جمع شدہ رقم اور گاڑی کے ساتھ انہیں بیوی کا زیور بیچنا پڑا، برآمد رک گئی تو فیکڑی میں کام بند ہو گیا۔ چھابڑا صاحب وضعدار آدمی تھے، کانوں کان کسی کو خبر ہونے دی نہ کسی سے مالی مدد مانگی۔ بینک کی دوسری قسط دو کروڑ پینسٹھ لاکھ کی تھی۔ سمن آباد میں اُن کی ایک کنال کی کوٹھی کی قیمت دو کروڑ پچاس لاکھ لگی۔ انہوں نے بینک سے بقیہ پندرہ لاکھ کی رقم تیسری قسط میں ادا کرنے کا لیٹر جاری کروا لیا۔ اُن کا خیال تھا کہ وہ اندرون ملک اپنے کاروبار کو منظم کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے لیکن قسمت کا پہیہ جب اُلٹا چلنا شروع ہو جائے تو قدرتی حسنِ اتفاق کا معاملہ بھی رک جاتا ہے۔ بینک کی تیسری قسط کے لئے انہیں فیکٹری کی قربانی دینا پڑی!
چھابڑا صاحب سے خود کو سنبھالنا مشکل ہو رہا تھا کہ ایک رات وہ خاموش طبع خاتون چُپ چاپ ہمیشہ ہی کے لئے خاموش ہو گئی۔ اس روز مضبوط اعصاب والے چھابڑا صاحب ٹوٹ گئے۔۔ اُن کے دائیں بازو پر فالج کا حملہ ہوا، وہ چلنے پھرنے سے عاجز ہوئے، انہیں سنبھالنے والا کوئی نہیں تھا۔۔ اور پھر ایک روز چھابڑا صاحب چُپ چاپ اس شہر سے چلے گئے۔ جس شہر نے ان کی انکساری، عاجزی اور شاہانہ ٹھاٹھ دیکھے تھے، اُس شہر نے انہیں ایک بار بھی نہ روکا۔ وہ کیسے اور کہاں گئے، کسی کو علم نہیں تھا۔ انہیں شہر کے چھوٹے بڑے اسپتالوں، ہوٹلوں اور مسافر خانوں میں تلاش کیا جاتا رہا لیکن اُن کا کہیں پتا نہ چلا۔ جن دوستوں کو ان کے دیوالیہ ہونے کا کچھ علم تھا، وہ پہلے ہی کنارہ کشی اختیار کر چکے تھے اور اس کے بعد قریبی احباب دور ہوئے۔ چھابڑا صاحب کی تلاش میں البتہ بینک کا لیگل ڈپارٹمنٹ تندہی سے سرگرم عمل تھا اور جب پانچ سال کی جدوجہد کے بعد بھی ان کا سراغ نہ ملا تو بینک نے ان کے سر واجب الادا رقم ڈیڈ اکاؤنٹ میں ڈال دی۔
لاہور شہر کے ایک خوشحال اور وضع دار کردار، چھابڑا صاحب کی کہانی ختم ہو گئی۔۔
سردیوں کی ایک یخ بستہ رات، مال روڈ پر زارا کے آؤٹ لیٹ کے سامنے ایک خستہ حال لاغر باریش سیاہ چادر کی بُکل مارے بند دکان کے شیشوں کے شو کیس میں جھانک رہا تھا، اُس کے کپڑے گرد آلود تھے اور اُس نے اپنا وحشت زدہ چہرہ ایک بوسیدہ مفلر سے ڈھانپ رکھا تھا، جس سے صرف اُس کی آنکھیں نظر آتی تھیں۔۔ اُس کے بال الجھے ہوئے تھے، داڑھی بے ترتیب اور اُس کے کپڑوں سے ڈیزل کی بو آتی تھی۔ اُس نے انگوٹھے اور شہادت کی انگلی میں پکڑی ہوئی سگریٹ کا آخری کش لیا، جلتی ہوئی سگریٹ فٹ پاتھ پر پھینکی اور عجائب گھر کی طرف چل پڑا۔ مال روڈ کی ساری دکانیں بند ہو چکی تھیں۔ پرانی کتابوں کی دکان کے ساتھ پان سگریٹ کا ایک کھوکا کھلا تھا، جہاں دو نوجوان نیم تاریکی میں باہر کھڑے باہم گفتگو کر رہے تھے۔ شہر کو ہلکی دھند نے آن لیا تھا اور سردی کی شدت بھی بڑھ رہی تھی۔ مال روڈ کی اسٹریٹ لائٹس دھند میں چھپتی جا رہی تھیں، ٹریفک نہ ہونے کے برابر تھی۔ صرف جھینگروں کی آوازیں اس خاموشی کو توڑ رہی تھیں۔
الجھے بالوں والے باریش نے آگے بڑھ کر پان فروش سے سونف ڈبل تمباکو پان کی قیمت پوچھی، دوکاندار نے پینتیس روپے کہا اور سامنے رکھے تخت پر گِرا ہوا کتھا صاف کرنے لگا۔ باریش نے آخری بچا ہوا پچاس کا مڑا تڑا نوٹ اسے دے کر ایک پان طلب کیا۔ پان فروش، پان کی پڑیا بنانے لگا تو اُس نے ہاتھ کے اشارے سے اسے منع کر دیا اور پان کی گلوری منہ میں رکھ کر بقیہ پیسے گننے لگا۔ ریزگاری میں ایک اٹھنی اضافی تھی، اُس نے ایک نظر پان فروش پر ڈالی، وہ بدستور اپنے تخت کی صفائی میں مصروف تھا، باریش نے دس کا نوٹ اور اضافی اٹھنی کے ساتھ ریزگاری جیب میں ڈال لی اور سیاہ چادر کی بُکل درست کر کے مال روڈ کی دھند آمیز روشنی میں زارا آؤٹ لیٹ کی طرف مڑ گیا۔۔
اُس کا دایاں کاندھا ڈھلکا ہوا تھا اور وہ ایک پاؤں کھینچ کر چل رہا تھا۔