کورنگی کی مختصر ترین تاریخ

سید علی عمران

سب سے پہلے کچھ ذکر کورنگی کے نام کا۔۔ کورنگی کے معنی ہندی زبان میں الائچی کے ہیں۔ اس نام کی مناسبت سے دو مفروضے قائم کیے جاسکتے ہیں. ایک تو یہ کہ کورنگی کی بندرگاہ سے کسی زمانے میں الائچی کا کاروبار ہوتا ہوگا یا پھر یہاں الائچی کی کاشت ہوتی ہوگی۔ مگر یہ دونوں باتیں یہاں کے طبعی حالات کے پیش نظر ناممکن ہیں

تیسری بات یہ ہو سکتی ہے کہ یہ کسی لفظ کی بگڑی ہوئی شکل ہے۔ ’کارنجا‘ یا ’کرنجا‘ نام کی برصغیر میں 9 بستیوں کا ذکر ملتا ہے ’کارنجا‘ کے معنی تالاب یا پانی کی نالی یا کھاڑی کے دہانے کے ہیں۔ اس کے علاوہ کورنگی ’کارنج‘ کی ایک بگڑی ہوئی شکل بھی ہو سکتی ہے. ’کارنج‘ کے نام سے برصغیر میں 6 بستیاں آباد ہیں۔ جبکہ ’کارنگ‘ کے نام سے برصغیر میں 5 بستیوں کا ذکر ملتا ہے۔ اسی طرح سے ’کارنگا‘ کے نام سے بھی برصغیر میں 3 بستیوں کا ذکر ملتا ہے. جبکہ ’کورنگ‘ کے نام سے بھی 2 بستیاں موجود ہیں۔

’کورنگ‘ فارسی زبان کا لفظ ہے، جس سے مراد لال رنگ کا گھوڑا اور افواج کی مشق کا میدان ہے۔ اسی طرح سے ’کورنگا‘ بھی فارسی زبان کا لفظ ہے، جس کے معنی گھوڑوں کی خلیج یا گھوڑوں کا میدان ہے۔

کورنگی ’رنگھوں‘ کی بگڑی ہوئی شکل بھی ہوسکتی ہے، جس کے معنی زمینی راستہ یا خرگوش کے رہنے کی جگہ کے ہیں۔ ان سب کے علاوہ کورنگی "کورگی” سے بھی بہت قریب ترین معلوم ہوتا ہے جبکہ ’کورگی‘ نام کی ایک قوم پرانے زمانے میں کراچی اور اس کے گرد و نواح میں آباد تھی اور اس قوم کا پیشہ سمندری قزاقی تھا۔ یہ حقیقت ہے کہ سندھ میں گھوڑوں کو پال کر ان کا کاروبار کیا جاتا تھا۔ کراچی کے ساحل سمندر سے گزرنے والے جہازوں کو لوٹا جاتا تھا، یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے۔

ملیر گڈاپ سے تعلق رکھنے والے شاعر اور ادیب پروفیسر امر گل کے نزدیک بلوچی میں ندی کو ’کور‘ کہتے ہیں اور ’ونگی‘ کا مطلب ہے ندی کے پانی کے بہاؤ کے ایک حصے کو زمین کی طرف موڑنا، تاکہ وہ آسپاس کی زمینوں کو سیراب کر سکے۔ چونکہ ندی کا پانی زرخیزی کے لیے بہترین ہے، اس لیے ماضی میں ایسی ’ونگیاں‘ بنائی جاتی تھیں۔ کور ونگی، ندی کا وہ حصہ تھا، جہاں یہ ونگی بنائی گئی تھی، اس لیے یہ علاقہ کور ونگی کہلاتا تھا، جو اختصاراً کورنگی بن گیا۔

ریوینیو ریکارڈ اور نقشہ جات میں یہ ونگی دیکھایا گیا ہے ریوینیو ریکارڈ میں بھی ” کور ونگی” لکھا ہوا ہے

کورنگی ملیر ندی کے دوسرے کنارے پر آباد ہے اس لحاظ سے خلیج کورنگی فوجی لحاظ سے بھی بہت اہمیت کی حامل ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے دوران یہاں ایک ہوائی اڈہ بھی تعمیر کیا گیا تھا، جو برطانوی افواج کے لیے نہایت موزوں ثابت ہوا تھا۔ یہ ہوائی اڈا اب کورنگی کریک کا ہوائی اڈا کہلاتا ہے۔ قیامِ پاکستان سے قبل کورنگی کا علاقہ کئی گوٹھوں پر مشتمل تھا، مگر یہ ایک دوسرے سے بہت دور دور تھے اور آبادی انتہائی کم تھی۔

موجودہ کورنگی کی تعمیر

قیامِ پاکستان کے بعد 1956ع میں مہاجرین کو کورنگی K ایریا میں سب سے پہلے لا کر آباد کیا گیا۔ یوں کورنگی میں مہاجرین کی سب سے پہلی آبادی K ایریا میں قائم ہوئی۔
1958 میں مارشل لاء کے نفاذ کے بعد فوجی حکومت نے تقسیم کے وقت ہندوستان سے آنے والے مہاجرین پر خصوصی توجہ دی۔ اس مقصد کے لئے لیفٹیننٹ جنرل اعظم خان کو آباد کاری کے مرکزی وزیر کی ذمہ داریاں سونپی گئیں، جو پہلے ہی سے مہاجرین کی آبادکاری پر کام کر رہے تھے. انہیں ہنگامی بنیادوں پر مہاجرین کی مزید آباد کاری کی ذمہ داریاں دی گئیں۔ اعظم خان صاحب نے اس چیلنج کو قبول کیا اور اس سلسلے میں ایک بڑا کارنامہ انجام دیا، جو تاریخ ہمیشہ یاد رکھے گی۔ آپ نے کورنگی کے مقام پر آٹھ ماہ کے اندر 15 ہزار مکانات تعمیر کرائے۔ 5 دسمبر 1958ء کو صدر پاکستان ایوب خان نے اس کا سنگِ بنیاد رکھا تھا اور یکم اگست 1959ء کو ٹھیک 8 مہینے بعد اس بستی کا افتتاح کیا۔ آپ نے افتتاح کے وقت کورنگی کی اس نئی آبادی کے پہلے مکین جناب حاجی عظمت اللہ کو ان کے مکان کا الاٹمنٹ آرڈر اور راشن کارڈ عطا کیا۔

کورنگی کا علاقہ 3000 ایکڑ رقبے پر پھیلا ہوا تھا۔ اس کی تعمیر میں اُس وقت بارہ کروڑ روپے خرچ ہوئے جبکہ اس کا نقشہ یونان کے مشہور ماہرِ تعمیر نے تیار کیا تھا. یہ وہی ماہرِ تعمیر تھا، جس نے نارتھ ناظم آباد کا نقشہ بنایا تھا۔ اس ماہرِ تعمیر نے اپنے تمام تر تجربے کو بروئے کار لا کر کورنگی کا نقشہ بنایا تھا اور بڑی پلاننگ سے آبادکاری کی گئی تھی۔ ہر سیکٹر میں مارکیٹ، اسکول، پارک، کھیلوں کے میدان، لائبریریز اور کمیونٹی سینٹر کے لیے باقاعدہ جگہ مختص کی گئی تھی. اس کے علاوہ کشادہ ڈبل روڈز اور ان کے ساتھ ساتھ سروس روڈز بھی موجود تھیں۔

کورنگی میں 80، 120 اور 128 گز کے کوارٹرز بنائے گئے تھے۔ 128 گز کے کوارٹرز کی لین میں گندی گلیاں نہیں تھیں، جب کہ کواٹرز بھی دو طرح سے بنائے گئے تھے۔ ایک 1/2 روم جس میں ایک کمرہ اور ایک برآمدہ شامل تھا، جبکہ دوسرا ڈبل روم کا تھا جس میں 2 کمرے اور ایک برآمدہ شامل تھا۔ 120 گز کے کوارٹر کی لائن میں گندی گلیاں دی گئی تھیں۔ ہر مکان میں ایک کمرہ اور ایک برآمدہ دیا گیا تھا. 80 گز میں سنگل کمرہ ہوا کرتا تھا یعنی برآمدہ بھی نہیں ہوتا تھا.

تینوں قسم کے کوارٹرز میں ایک باورچی خانہ، ایک غسل خانہ اور ایک واش روم شامل تھا۔ باورچی خانے میں ایک چمنی بھی دی گئی تھی تاکہ دھواں اوپر کی جانب نکل جائے جو کہ چھت پر باقاعدہ اونچا کر کے بنائی گئی تھی جیسے ٹھنڈے علاقوں میں گھروں پر بنتی ہے۔

کورنگی کہ رہائشی علاقے کو 6 بڑے حصوں میں بانٹا گیا جسے 1 نمبر سے 6 نمبر تک کا نام دیا گیا۔ پھر اس کو مزید بلاکس میں تقسیم کیا گیا، جو A ایریا سے شروع ہو کر Y ایریا تک ہیں۔ اس میں کچھ جگہ پر ایکسٹینشن بھی ہوا، جیسے J ایریا کا ایکسٹینشن ہوا تو اسے جے ون ایریا کا نام دیا۔

کراچی شہر کا سب سے بڑا صنعتی علاقہ کورنگی میں ہی ہے، جہاں سیکڑوں کی تعداد میں چھوٹی اور بڑی فیکٹریاں موجود ہیں، مگر صنعتی علاقے کی وجہ سے مختص کیے گئے رفاعی پلاٹس پر کچی آبادیاں وجود میں آنا شروع ہو گئیں، جن میں وقت کے ساتھ ساتھ اب پکے مکانات بن گئے ہیں۔

کورنگی بہ حیثیت ایک ضلع

کورنگی ہمیشہ سے ضلع شرقی کا حصہ تھا مگر اگست 2000ء میں بلدیاتی نظام کے تحت جب کراچی کے اضلاع کا خاتمہ کر کے کراچی کو 18 ٹاؤن میں تقسیم کر دیا گیا تو کورنگی کو بھی ایک ٹاؤن بنا دیا گیا۔ بعد میں جب سندھ حکومت نے دوبارہ ضلعی نظام کو بحال کیا تو نومبر 2013ء میں کورنگی کو کراچی کا چھٹا ضلع بنانے کا نوٹیفیکیشن جاری کر دیا. یوں اب کورنگی ایک باقاعدہ ضلع ہے اور اس کی چار تحصیلوں میں کورنگی، لانڈھی، شاہ فیصل اور ماڈل کالونی (اربن ملیر) شامل ہیں۔

ضلع کورنگی میں موجود خود کورنگی کا علاقہ جو کہ کورنگی ٹاؤن کہلاتا ہے، اس کی آبادی اتنی زیادہ ہے کہ یہ خود اپنے آپ میں ایک شہر کے برابر ہے۔ ہمارے ملک کے بہت سے شہروں سے زیادہ اس کورنگی ٹاؤن کی آبادی ہے۔

کورنگی میں مہاجرین کی آباد کاری

قیامِ پاکستان کے بعد ہندوستان سے آنے والے مہاجرین زیادہ تر تین راستوں سے پاکستان میں داخل ہوتے تھے۔ ایک راستہ لاہور کا تھا، دوسرا راستہ کھوکھراپار، میرپور خاص کا تھا اور تیسرا راستہ بہ ذریعہ سمندر بحری جہاز کا تھا۔ کیونکہ سب بغیر کسی آسرے کے پاکستان آگئے تھے تو جو لوگ لاہور اور میر پور خاص کی سرحد سے ٹرین کے ذریعے آتے تھے، ہفتوں اسٹیشن پر ہی بیٹھے رہتے کیونکہ اسٹیشن کے سوا ان کے پاس کوئی رہائش کی جگہ نہیں تھی۔ اسی طرح سے جو لوگ بحری جہاز سے کراچی کی بندرگاہ کیماڑی پر آتے وہ بھی رہائش نہ ہونے کی وجہ سے کیماڑی کے آس پاس ہی نہایت تکلیف دہ حالت میں رہنے پر مجبور تھے۔ بس ان حالات میں حکومت کی طرف سے روزانہ پاؤ بھر ڈبہ چاول اور دال کا ملتا۔ مسئلہ یہاں ختم نہیں ہوتا کیونکہ نہ تو پکانے کے لیے آگ میسر تھی اور نہ ہی برتن۔ آگ جلانے کے لیے پورٹ کے قریبی علاقے سے لکڑیوں کو چن چن کر جمع کیا جاتا اور پھر آگ لگا کر کھانا بنایا جاتا۔

جیسے جیسے سرکار کو جگہ ملتی جاتی ان لوگوں کو خیمہ بستیوں میں منتقل کر دیا جاتا۔ کراچی میں موجود بڑی خیمہ بستیوں میں سے ایک قائدہ آباد کی خیمہ بستی بھی تھی، جہاں اب قائد اعظم کا مزار ہے۔

1959ء میں جب کورنگی آباد ہونے لگا تو جھونپڑیوں میں قیام پذیر مہاجرین کو محض صرف راشن کارڈ اور جاری کردہ رسید، جس کی قیمت 47 روپے ہوتی تھی دیکھ کر کوارٹرز کی الاٹمنٹ شروع ہو گئی، جبکہ بقیہ رقم ماہانہ 27 روپے کے حساب سے ادا کرنی تھی۔ روز قائدہ آباد اور دیگر خیمہ بستیوں میں ٹرک آتے اور ایک ٹرک میں چار خاندانوں کو ان کے سامان سمیت سوار کیا جاتا اور ان کی جھونپڑیوں کو مسمار کر دیا جاتا اور ان لوگوں کو کورنگی کے مختلف علاقوں میں بنائے گئے کوارٹرز میں منتقل کر دیا جاتا۔ چونکہ یہ لوگ کافی عرصے سے مختلف خیمہ بستیوں میں رہائش پذیر تھے اس لئے خاص شہر اور برادری کے لوگ ایک ساتھ پوری پوری گلیوں میں آباد ہو گئے۔ جن میں خاص طور پر الہ آباد، آگرہ، جونپور، امروہہ، سہارن پور، مظفر نگر، دہلی اور لکھنو وغیرہ کے لوگ شامل تھے۔

1958ء میں جنرل اعظم خان کے کورنگی میں بڑے پیمانے پر کواٹرز تعمیر کرانے سے پہلے ہی پورے کورنگی میں K ایریا ہی واحد علاقہ تھا، جس میں پہلے ہی مہاجرین کو چھوٹے پیمانے پر لا کر بسایا جا چکا تھا۔ K ایریا کے کچھ کوارٹرز، پارک اور مارکیٹ کی تعمیر لانڈھی کے ساتھ ہی شروع ہوئی تھی اور 57 -1956 میں رہائش بھی ہو گئی تھی، تاہم 1960ء کے لگ بھگ K ایریا میں مزید بڑے پیمانے پر کوارٹرز بنے جو 120 اور 128 گز کے تھے اور ان میں مہاجرین کو لا کر آباد کیا جانے لگا۔ زیادہ تر لوگ لیاقت بستی اور فارور لائن کی خیمہ بستیوں سے تھے. جبکہ شروع کے لوگوں کا تعلق مزارِ قائد پر موجود خیمہ بستیوں سے تھا۔

کے K ایریا میں ہی پاکستان کا نابینا بچوں کا پہلا اسکول قائم کیا گیا تھا۔ اسی طرح جب پاکستان ٹیلی ویژن نے اپنی نشریات کو شروع کیا تھا تو کورنگی میں K ایریا کے پارک میں پہلی مرتبہ ٹی وی لگا کر نشریات دکھائی گئی تھی اور بہت بڑی تعداد میں لوگ اسے دیکھنے آئے تھے۔ اس کے علاوہ K ایریا کی ایک عظمت یہ بھی ہے کے صہبا اختر جیسے عظیم شاعر کا تعلق بھی K ایریا سے تھا۔

حوالہ: اس مضمون کی تیاری میں درج ذیل کتابوں اور شخصیات سے معلومات حاصل کی گئیں:

01. کراچی تاریخ کے آئینے میں (محمد عثمان دموہی)
02. وادی ملیر (حمید ناضر)
03. پاکستان کرونیکل (ڈاکٹر عقیل عباس جعفری)
04. شہروں میں شہر کراچی (نسرین اسلم)
05. وکیپیڈیا
06. کورنگی کی دیگر بزرگ شخصیات سے حاصل کردہ معلومات۔

(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close