ایران میں ایک شخص کو سرکاری عمارت کو آگ لگانے، امن عامہ میں خلل ڈالنے، قومی سلامتی کو نقصان پہنچانے اور ’خدا کا دشمن‘ ہونے اور زمین پر بدعنوانی کا سبب بننے کے جرم میں ایرانی قانون کے تحت اتوار کے روز سزائے موت سنائی گئی
ایران میں ایک کرد خاتون مہسا امینی کی اخلاقی پولیس کے ہاتھوں گرفتاری اور حراست میں موت کے بعد گزشتہ تقریباً دو ماہ سے ملک بھر میں مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔ ان مظاہروں نے ایران کی مذہبی قیادت کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ اب تک ہزاروں مظاہرین کو گرفتار کیا جا چکا ہے، جبکہ 326 افراد ہلاک ہو چکے ہیں
ایران میں ان مظاہروں کے خلاف پہلی مرتبہ غیر معمولی قدم اٹھاتے ہوئے اتوار کے روز ایک شخص کو ان مظاہروں میں شامل ہونے کے ’جرم‘ میں موت کی باضابطہ سزا سنائی گئی
ایرانی عدلیہ نے ’فسادات‘ میں ملوث ایرانی شہری کو ملک کی سنگین قانونی دفعات کے تحت سزائے موت سنائی
ایرانی عدلیہ کی ویب سائٹ میزان آن لائن کے مطابق مہسا امینی کی موت کے بعد سے جاری ملک گیر احتجاج کے درمیان ایران نے اتوار کو اس سلسلے میں پہلی موت کی سزا کا باضابطہ اعلان کیا
واضح رہے کہ ایران کی عدلیہ نے مہسا امینی کی موت کے بعد ملک گیر احتجاج کے دوران تین صوبوں میں ساڑھے سات سو سے زائد افراد پر ’حالیہ فسادات‘ میں ملوث ہونے کے الزام میں فرد جرم عائد کی ہے
ایرانی عدلیہ کے اعدادوشمار کے مطابق ستمبر کے وسط میں مظاہرے شروع ہونے کے بعد سے دو ہزار سے زائد افراد پر پہلے ہی الزامات عائد کیے جا چکے ہیں جن میں سے تقریباً نصف کا تعلق دارالحکومت تہران سے تھا
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ایران میں اس طویل احتجاج کے دوران مظاہرین اور سکیورٹی اہلکاروں سمیت درجنوں افراد مارے گئے۔ ایرانی حکام ان مظاہروں کو ’فسادات‘ کہتے ہیں
ایرانی عدلیہ کی ویب سائٹ ’میزان آن لائن‘ کی اتوار کے روز دی جانے والی خبر کے مطابق جنوبی صوبے ہرمزگان کے عدالتی سربراہ مجتبیٰ گریمانی نے کہا ”حالیہ فسادات کے بعد 164 افراد پر فرد جرم عائد کی گئی ہے“
ویب سائٹ کے مطابق انہیں ’قتل کے لیے اکسانے‘، ’سکیورٹی فورسز کو نقصان پہنچانے، ’حکومت کے خلاف پروپیگنڈہ کرنے‘ اور ’عوامی املاک کو نقصان پہنچانے‘ سمیت کئی الزامات کا سامنا ہے
‘فسادات میں ملوث افراد‘ کے مقدمے کی سماعت وکلا کی موجودگی میں آئندہ جمعرات سے شروع ہو گی
سرکاری خبر رساں ادارے ارنا کے مطابق مرکزی صوبے مرقزی کی عدلیہ کے سربراہ عبدالمہدی موسوی نے صوبے میں مزید 276 افراد پر فرد جرم عائد کی ہے۔ تاہم 100 نوجوانوں کو مستقبل میں کسی بھی ’فساد‘ میں شرکت نہ کرنے کے عہد ناموں پر دستخط کرنے کے بعد رہا کر دیا گیا ہے
وسطی صوبہ اصفہان میں عدالتی سربراہ اسد اللہ جعفری نے کہا کہ حالیہ واقعات میں 316 مقدمات درج کیے گئے ہیں
خبر رساں ادارے تسنیم کے مطابق 12 افراد کے خلاف پہلے ہی مقدمات کی سماعت کی جا چکی ہے
دوسری جانب ایرانی حکام نے بیرون ملک قائم انسانی حقوق کی تنظیموں کے ان دعوؤں کی تردید کی ہے کہ مظاہروں کے نتیجے میں ہونے والی ’بدامنی‘ کے دوران تقریباً 15 ہزار افراد کو حراست میں لیا گیا ہے
حالیہ فیصلے کے متعلق انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ یہ ‘جلد بازی میں لیا گیا فیصلہ ہے اور متعدد افراد پر ایسے الزامات عائد کیے گئے ہیں، جن میں انہیں موت کی سزا سنائی جا سکتی ہے
تہران کی دیگر عدالتوں نے ’غیر قانونی طور پر اکٹھا ہونے اور قومی سلامتی کے خلاف سازش کرنے نیز امن عامہ میں خلل ڈالنے‘ کے الزامات کے تحت ہزاروں افراد کو پانچ سے دس برس کے درمیان قید کی سزائیں بھی سنائی ہیں
واضح رہے کہ اس ماہ کے اوائل میں 290 ایرانی اراکین پارلیمان میں سے 272 اراکین نے مطالبہ کیا تھا کہ عوام کے جان و مال کو نقصان پہنچانے والوں کے خلاف ’آنکھ کے بدلے آنکھ کے اصول‘ پر عمل کرتے ہوئے موت کی سزا دی جائے
ناروے سے سرگرم انسانی حقوق کی تنظیم ایران ہیومن رائٹس کے ڈائریکٹر محمود امیری مقدم کا کہنا ہے کہ سرکاری اطلاعات کے مطابق کم از کم بیس افراد کو ایسے الزامات کا سامنا ہے، جن کے تحت انہیں موت کی سزا دی جا سکتی ہے
انہوں نے خبر رساں ایجنسی اے ایف پی سے بات چیت کرتے ہوئے کہا ”ہمیں اس بات کی شدید فکر لاحق ہے کہ بڑی جلد بازی میں موت کی سزائیں سنائی جا سکتی ہیں“