گھر آیا میرا پردیسی

امر گل

عرصہ ہوا، ایک داستان گو دوست سے ایک کہانی نما لطیفہ سنا تھا۔۔ جو بھلائے نہیں بھولتا۔ اس کی ایک وجہ شاید یہ بھی ہے کہ اس کا اطلاق ہمارے معاشرے کے اکثر معاملات پر ہوتا ہے۔

اکثر لطائف کی طرح اس میں بھی ایک مضحکہ خیز پہلو ہے۔۔ کہ یہ نہ ہو تو پھر وہ لطیفہ ہی کیا۔۔ لیکن کچھ یوں بھی ہے، کہ سوچو تو بہت کچھ ہے اس میں سمجھنے کے لیے

داستان گو نے کیا ہی دلپذیر انداز میں سنایا تھا، مجھے تو بس اِس کا سنانا مقصود ہے، سو دلپذیری تو رہنے ہی دیتے ہیں

کہا تھا:
کہیں ایک بڑا شیخی خور شخص رہتا تھا۔۔ اپنی طاقت، اپنی کامیابیوں، اپنی بہادری کی شیخیاں یوں چاٹ مصالحے لگا کر بیاں کرتا کہ سننے والے عش عش کر اٹھتے

کہتے ہیں کہ بیوی تو شوہر کی ہر کمی کمزوری سے واقف ہوتی ہے، لیکن وہ شخص کچھ ایسا ڈھیٹ واقع ہوا تھا کہ بیوی کے سامنے بھی ان قصوں کو سنانے سے باز نہ آتا

ایک دن ہوا کچھ یوں، کہ وہ حسبِ معمول بیوی کو اپنی بہادری کے قصے سنا رہا تھا۔۔ وہ فرطِ جذبات سے مغلوب جوش و ولولہ کی رو میں بہتا اور حاملہ بیوی کو بھی اپنے ساتھ بہائے چلا جا رہا تھا کہ اسی اثناء میں بدقسمتی سے صبح کے ڈٹ کر کھائے ہوئے پائے کے ناشتے نے کام خراب کر دیا اور شکم شریف میں بھری ریح، گوز بن کر گونجی۔۔

جذبات میں اٹھا اس کا ہاتھ وہیں ہوا میں معلق ہو کر رہ گیا۔۔ اور مُنھ کھلے کا کھلا۔۔۔ گوز کی گونج تھمی تو ایک وقفے کی گہری خاموشی کے بعد بیوی کی وہ ہنسی چھوٹی کہ الامان۔۔۔ قہقہوں کا ایک طوفان تھا کہ تھمے نہ تھمتا تھا

وہ کپڑے جھاڑ کر غصّے میں اٹھا اور اپنی گونج دار ریح کی طرح یہ جا وہ جا۔۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ وہ پردیس چلا گیا۔۔ اور وہاں خود ساختہ جلا وطنی اختیار کر لی۔۔ بہت عرصہ گزر گیا۔۔ جب بھی لَوٹنے کا ارادہ کرتا تو اسے بیوی کا ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو جانا یاد آ جاتا۔۔ تو لَوٹنے کا ارادہ ترک کر دیتا۔۔

لیکن آخر کب تک وہ اس خود ساختہ جلا وطنی کو جھیل پاتا۔۔ اسے اپنے لوگوں کے سامنے وہ اپنی بہادری کے قصے سنانا شدت سے یاد آتا۔۔ یہ نشہ وہاں کیسے پورا ہوتا۔۔ ایک امید بھی تھی کہ اتنا عرصہ ہوا، اب تو بیوی اس بات کو بھول بھی چکی ہوگی۔۔ سو ایک دن ہمت باندھی اور ساتھ میں رخت سفر بھی، اور خود ساختہ جلا وطنی تج کر وطن کو سدھارا

جس وقت وہ اپنے گاؤں میں گلی کی نکڑ پر پہنچا تو دن ڈھل چکا تھا، ایک بار پھر دل دھک دھک کرنے لگا، لیکن ایک امید تھی کہ اب تو بیوی سب بھول بھال چکی ہوگی

چھپتا چھپاتا گھر کے دروازے تک آ پہنچا، اور ایک طرف دبک کر کھڑا ہو گیا۔۔ کیا دیکھتا ہے کہ وہ جس بیوی کو حاملہ چھوڑ گیا ہے، ایک ننھی سی بچی اس کے سامنے بیٹھی ہے اور وہ اسے کھانا کھلا رہی ہے

بچی کھانا نہیں کھا رہی اور ضد پر اڑی ہوئی ہے کہ ماں تم ہمیشہ کہتی ہو ابا جلدی آ جائے گا۔۔ آخر وہ اب تک کیوں نہیں آیا۔۔ ماں دوپٹہ منھ میں دبائے چپ۔۔۔ خاموش۔۔ معلوم نہیں کہ وہ رونا روک رہی ہے یا اپنا ہاسا۔۔۔

بچی کی ضد بڑھتی رہتی ہے۔۔ ماں کو غصہ چڑھنے لگتا ہے۔۔
بچی ضد کرتے کرتے پوچھتی ہے۔۔ لیکن امی، ابا چلے کیوں گئے تھے۔۔ ماں کے منہ سے بے اختیار غصے کے عالم میں نکل جاتا ہے کہ لے سن! تمہارے ابا ’یہ کارنامہ‘ سر انجام دے کر گھر سے بھاگ گئے تھے۔۔! اور پھر اس کا غصہ ہوا جاتا ہے۔۔ اور اس کا وہی بے قابو ہاسا چھوٹ جاتا ہے۔۔ وہ ہنستے ہنستے زمین پر دوہری ہو جاتی ہے، ماں کو یوں ہنستا دیکھ کر بچی بھی کھلکھلا کر ہنس پڑتی ہے

ادہر دبک کر کھڑا وہ شخص، جو اس امید پر لوٹا تھا کہ اب تو بیوی سب کچھ بھول بھال چکی ہوگی۔۔۔ لیکن یہاں تو معاملہ ہی الٹا دیکھا۔۔ یہاں تو بیوی کی ہنسی پر اب بچی کی ہنسی کا تڑکا بھی لگ چکا ہے

کہنے والے کہتے ہیں کہ وہ شخص وہیں سے الٹے پاؤں لوٹ گیا۔۔۔

لیجیے، قصے والا لطیفہ تو ختم ہوا۔۔۔ لیکن ہمارے ملک میں لگے تماشے کا لطیفہ ہنوز جاری ہے۔۔ خود ساختہ جلا وطنی تمام ہوئی۔۔ زوجہ محترمہ، عالیہ ہو کہ عظمٰی، سب کچھ بھول بھال چکی۔۔ سو شیخیوں پر مبنی بہادری اور کامیابیوں کے قصے سننے کے لیے تیار رہیں۔۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close