کیا جہاز رانی کی صنعت آلودگی پھیلانے سے باز آ سکتی ہے؟

ویب ڈیسک

امریکہ اور ناروے نے ماحولیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے اقوام متحدہ کی عالمی کانفرنس میں بڑے پیمانے پر آلودگی پھیلانے والے جہاز رانی کے شعبے کو زہریلی گیسوں کے اخراج میں کمی کے حوالے سے چیلنج کر دیا ہے

امریکہ اور ناروے نے مصر میں جاری اقوام متحدہ کی ماحولیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے عالمی کانفرنس COP 27 میں ’گرین شپنگ چیلنج‘ کا آغاز کیا ہے

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ دنیا بھر کے ممالک کو ایسے قوانین بنانے کی ضرورت ہے کہ وہ ضرر رساں گیسوں کے بہت زیادہ اخراج کا باعث بننے والی شپنگ انڈسٹری کو ماحول دوست ایندھن استعمال کرنے پر مجبور کریں

امریکہ اور ناروے کے اس مشترکہ چیلنج کے ایک حصے کے طور پر چالیس سے زائد بندرگاہوں، شپنگ کمپنیوں اور ریاستوں نے صاف ستھرے بحری جہازوں کی صنعت کو فروغ دینے کے لیے زہریلی گیسوں کے کم یا صفر اخراج والے ایندھن کی طرف جانے سے لے کر نئی پالیسیاں اپنانے تک کے اعلانات کیے ہیں

یورپ میں نقل و حمل کے ماحول دوست ذرائع کے لیے مہم چلانے والے ایک گروپ میں پائیدار سمندری پالیسی کے شعبے کے سربراہ فیگ عباسوو کا کہنا ہے ”ہمیں امریکہ کی طرف سے اس قسم کی قیادت دیکھ کر خوشی ہوئی ہے، جو اس مسئلے کو ایجنڈے میں سرفہرست رکھے ہوئے ہے۔ لیکن اس چیلنج کو حقیقت میں بدلنے کے لیے، امریکہ کو بین الاقوامی جہاز رانی سے متعلق ملکی قانون سازی پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ماحول دوست ٹیکنالوجی کے لیے ایک مارکیٹ بنائی جا سکے‘‘

واضح رہے کہ دنیا کی تجارت کا تقریباً اَسی فی صد سمندری راستے سے ہوتا ہے۔ ہر روز رنگین شپنگ کنٹینروں سے لدے دیو قامت بحری جہاز مخلتف سمندری ریاستوں کو عبور کرتے ہیں۔ اسی سفر کے دوران یہ جہاز سالانہ ایک ارب ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ یا CO2 گیس خارج کرتے ہیں

شپنگ کی صنعت عالمی سطح پر زہریلی گیسوں کے تقریباً تین فی صد اخراج کی ذمہ دار ہے، اور اگر اس صنعت کو کوئی ایک ملک تصور کر لیا جائے تو یہ دنیا کے دس سب سے زیادہ آلودگی پھیلانے والے ممالک میں شامل ہوتا

اس حوالے سے ناروے کے وزیر اعظم یوناس گاہر سٹورے کا کہنا تھا ”جہاز رانی عالمی سطح پر گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کا ایک بڑا ذریعہ ہے، اس لیے یہ ضروری ہے کہ اس شعبے سے اخراج کم کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر فوری اور فیصلہ کن کارروائی کی جائے تاکہ عالمی درجہ حرارت میں اضافے کو ڈیرھ ڈگری سینٹی گریڈ تک محدود کیا جا سکے“

اگرچہ جہاز رانی کی انڈسٹری نے کہا ہے کہ وہ 2050ع تک زہریلی گیسوں کے اخراج کو صفر کی شرح پر لے آئے گی، لیکن اس دعویٰ میں سنجیدگی کی کمی محسوس ہوتی ہے

گرین فیول کی مارکیٹ کو فروغ دینے میں مسئلے کا ایک حصہ اس پر اٹھنے والی لاگت ہے۔ عباسوف کہتے ہیں ”شپنگ انڈسٹری کی طرف سے استعمال کیا جانے والا انتہائی آلودگی پھیلانے والا بھاری ایندھن سبز ہائیڈروجن اور میتھانول جیسے صاف ستھرے متبادل کے مقابلے میں بہت سستا ہے. مشکل بات یہ ہے کہ وہ تمام ایندھن واقعی، واقعی بہت مہنگے ہیں۔ یہ دیکھتے ہوئے کہ بھاری ایندھن کا تیل بہت سستا ہے، قیمت کا فرق بہت زیادہ ہے۔ سوال یہ ہے کہ آپ اس فرق کو کیسے پُر کریں گے؟‘‘

عالمی مینجمنٹ کنسلٹنگ کمپنی میکنزی کے مطابق ماحول دوست یا صفر اخراج والے ایندھن استعمال کیے جانے کے قابل بنانے سے جہاز کی ملکیت کی کل لاگت میں تقریباً چالیس سے ساٹھ فی صد تک اضافہ ہوگا۔ اس صورتحال کے پیش نظر کمپنیوں کے لیے زیادہ مہنگے سبز ایندھن کا استعمال کرنے والے نئے بحری جہازوں کا آرڈر دینا زیادہ پرکشش نہیں رہتا خاص کر ایسے میں جب ان کے حریف اب بھی سستی چیزیں استعمال کر رہے ہوں

عباسوف کا کہنا ہے ”کوئی بھی ان شپنگ کمپنوں کے اخراج کی حقیقت کی پرواہ نہیں کرتا۔ حکومتوں کو فوسل فیول کی ترسیل کو مرحلہ وار ختم کرنے اور سبز متبادل ایندھن کی مانگ پیدا کرنے کے لیے قومی سطح پر قانون سازی کرنے کی ضرورت ہے“

انہوں نے اس بارے میں وضاحت کرتے ہوئے کہا ”اگر سب کے لیے ماحول دوست ایندھن اپنانا لازمی ہو جائے اور اس کام پر سب کی یکساں لاگت آ رہی ہو تو پھر ایسا کرنا آسان ہو جائے گا“

یورپی یونین اس ضمن میں حتمی قانون سازی پر بات چیت کر رہی ہے، جو وقت کے ساتھ ساتھ اخراج کی سطح میں کمی لا کر ایسا کرے گی۔ امریکی کانگریس ایک ماحول دوست شپنگ بل پر بھی غور کر رہی ہے، جو اس شعبے کے اخراج کو کم کرنے کی کوشش کرتا ہے

دوسری جانب اس دوران شپنگ انڈسٹری اپنی ماحولیاتی ذمہ داری کے حوالے سے کچھ اقدامات کر رہی ہے۔ دنیا میں جہاز رانی کو منظم کرنے کے لیے اقوام متحدہ کی تنظیم انٹرنیشنل میری ٹائم آرگنائزیشن (آئی ایم او) نے اس موسم گرما میں کہا تھا کہ وہ 2050ع تک اس شعبے کو فوسل فیول سے دور کرنے کے لیے اپنی ماحولیات کی حکمت عملی کو اپ ڈیٹ کرنا چاہتی ہے۔

دنیا کے اَسی فی صد تجارتی بحری بیڑے کی نمائندگی کرنے والے ادارے انٹرنیشنل چیمبر آف شپنگ نے بین الاقوامی قابل تجدید توانائی ایجنسی (ایرینا) کے ساتھ اس شعبے سے کاربن کے اخراخ کے خاتمے میں مدد کے لیےمعاہدہ کیا ہے

دنیا کی سب سے بڑی شپنگ کمپنی میرسک (Maersk) کا مقصد سن 2040ع تک نئی ٹیکنالوجی، نئے جہازوں اور نئے ایندھن کے ساتھ ماحول دوست بننا ہے۔ اس کمپنی نے میتھانول پر کام کرنے والے دوہرے انجن بردار انیس جہازوں کا آرڈر دیا ہے

بحری جہازوں کی آپریٹنگ لائف تقریباً بیس سے پچیس سال ہوتی ہے، اس لیے میکنزی کے مطابق اس شعبے کو ’اگلی دہائی میں صفر اخراج کے جامع پروگرام‘ بنانے کی ضرورت ہے

’گرین شپنگ چیلنج‘ کے تحت، میرسک نے یہ اعلان بھی کیا ہے کہ وہ ملک میں بڑے پیمانے پر سبز ایندھن کی پیداوار کے مواقع تلاش کرنے کے لیے اسپین کے ساتھ تعاون کرے گی۔ ماہرین کے مطابق کچھ شپنگ کمپنیاں صرف اسی صورت میں سرمایہ کاری کرنا چاہتی ہیں جب انہیں مسابقت کے لیے برابری کا میدان میسر ہو.

ماحولیاتی تبدیلی: چھ پاکستانی خواتین، جن کا آئیڈیا بین الاقوامی سطح پر تسلیم کیا گیا

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close