بلوچستان کی ساحلی پٹی پر مرجان کی چٹانیں

صادقہ خان

بلوچستان کی ساحلی پٹی پر مرجان کی چٹانیں
بلوچستان کی ساحلی پٹی کا شمار دنیا  کے ان ایک سو علاقوں میں ہوتا ہے، جہاں کورل  ریف یا مرجان کی چٹانیں پائی جاتی ہیں۔ ان چٹانوں کو قدرت کی ایک عظیم تخلیق بھی کہا جاتا ہے۔
تین دہائیوں پہلے تک یہ سمجھا جاتا تھا کہ پاکستان کے ساحلی علاقے مرجان کی نشوونما کے لیے ہرگز موزوں نہیں ہیں۔ سن 2005  میں کراچی یونیورسٹی کے میرین سائنس ڈیپارٹمنٹ نے یونیورسٹی کی مل پورٹ لیبارٹری، پاکستان ویٹ لینڈ پروگرام اور پاکستان نیوی کے تعاون سے سندھ اور بلوچستان کی ساحلی پٹی پر   مرجانی چٹانوں کی تلاش کا آغاز کیا۔ اس کے بعد بلوچستان میں استولہ جزیرے کے قریب پہلی کورل ریف کی دریافت  ہوئی۔

سندھ وائلڈ لائف ڈیپارٹمنٹ سے منسلک پہلی کورل ریف دریافت کرنے والی ٹیم کی سربراہ  ڈاکٹر فہمیدہ  فردوس کے مطابق سن 2009  میں بلوچستان کے ساحلی علاقوں "دران” اور "گنز” میں مرجانی چٹانوں کی دریافت ایک بہت بڑی کامیابی تھی، جس کے بعد ان علاقوں میں مزید سروے  کا آغاز کیا گیا۔ ان کا ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ”یہاں ہمیں ایسے بہت سی  چٹانیں ملیں، جو مردہ حالت میں تھیں مگر زیادہ تر مرجان نرم اور تازہ حالت میں تھیں۔ اس کے بعد ہم نے ان علاقوں کے اسکولوں میں  اس حوالے سے شعور اجاگر کرنے کے لیے باقاعدہ آ گاہی مہم کا آغاز کیا اور عام افراد میں بھی پوسٹرز اور پمفلٹ تقسیم کیے تاکہ مقامی افراد  قدرت کی اس نایاب تخلیق کی حفاظت از خود کر سکیں۔‘‘

یہ امر قابل ذکر ہے کہ ایک مرجان کی تخلیق میں تقریبا ایک سو سال کا عرصہ  لگتا ہے مگر ساحلوں اور گہرے سمندر میں بڑھتی ہوئی آلودگی کے باعث پاکستان میں مرجان کی کئی انواع  معدومیت کے خدشے کا شکار ہیں۔

مرجان کی چٹانیں قدرت کی ایک عظیم تخلیق
انہیں ”رین فوریسٹ آف دی سی‘‘ بھی کہا جاتا ہے کیونکہ دنیا کے چند خوبصورت اور متنوع ترین ایکو سسٹم میں سے ایک کی تشکیل کرتی ہیں۔ یہ گہرے سمندر میں پائی جانے والی والی مچھلیوں اور دیگر سمندری حیات کو پناہ گاہ فراہم کرتی ہیں اور تقریبا پچیس فیصد چھوٹی بڑی جسامت کی مچھلیاں خوراک، اور رہائش کے لئے مرجان  کی چٹانوں پر انحصار کرتی ہیں۔ گہرے سمندر میں پائی جانے والی مرجان کی چٹانوں کو ” ماؤنڈز” بھی کہا جاتا ہے۔ سمندر میں انتہائی گہرائی میں موجودگی کی وجہ سے ان پر ابھی تک تحقیق محدود ہے۔

مرجان کیا ہیں ؟
مرجان یا کورل دراصل  آبی جاندار ہی ہیں، جن کا تعلق فائیلم ان ورٹیبریٹ ( بغیر ریڑھ کی ہڈی  والے جانداروں ) کے گروہ سے ہے۔ ان چٹانوں کی تخلیق میں بنیادی کردار ادا کرنے والے جانور کو سائنسی اصطلاح میں ” کورل پولائپس” کہا جاتا ہے، جو مختلف خوبصورت اشکال میں چٹانوں کو تشکیل دیتے ہیں۔ دنیا بھر میں اب تک ایک سو سے زائد ممالک  کے ساحلی علاقوں میں مرجان کی  ہزاروں انواع دریافت ہو چکی ہیں، جن میں پاکستان  بھی شامل ہے۔

ان میں سے کچھ گرم پانیوں میں جبکہ دیگر ٹھنڈے پانی اور گہرے سمندر میں دریافت ہوئی ہیں۔ سطح سمندر پر چٹانیں تشکیل دینے والے مرجان کا  فوٹو سینتھیٹک الجی سے گہرا تعلق ہوتا ہے، جو ان کے ٹشوز میں رہتے اور نشونما پاتے ہیں۔ آسٹریلیا میں پائی جانی والی ” گریٹ بیریئر ریف” کو دنیا  میں مرجانی چٹانوں کا وسیع ترین ایکو سسٹم  کہا جاتا ہے۔ قدرت کا یہ عظیم شاہکار نا صرف آبی حیات کی نشوونما اور تحفظ میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ یہ چٹانیں ساحلی علاقوں کے رہائشی افراد کو کئی طرح کے معاشی اور ماحولیاتی فوائد فراہم کرتی ہیں اور ساحلی علاقوں میں کٹاؤ کو روکنے میں بھی معاون ثابت ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ مرجان ادویات اور زیورات بنانے میں بھی استعمال  ہوتے ہیں۔

ماہرین کیا کہتے ہیں ؟
کراچی یونیورسٹی کے میرین سائنسز ڈیپارٹمنٹ کے محققین کے مطابق کورل ریف ایک متنوع ایکو سسٹم تشکیل دیتی ہیں مگر ساحلی علاقوں میں ان کی اہمیت کے حوالے سے شعور کم ہونے کے باعث خدشہ ہے کہ سطح سمندر پر پائی جانے والی ان کی کئی نایاب اقسام  ہمیشہ کے لیے معدوم ہو جائیں گی۔ ان کی حفاظت کے لیے سب سے پہلے تو سندھ اور بلوچستان کے ان ساحلی علاقوں میں بائیو ڈائیوسٹی انفارمیشن سینٹر قائم کیے جائیں۔ کورل ریف کو بڑھتی ہوئی آلودگی کے باعث رونما ہونے والی موسمیاتی تبدیلیوں سے شدید نقصان پہنچ رہا ہے، جو سمندر کے درجۂ حرارت میں اضافے  کے ساتھ ساتھ  سمندری پانی میں تیزابیت کی شرح بڑھا رہی ہیں۔ ماہی گیری کے غیر قانونی اور غلط طریقۂ کار بھی کورل ریف کی تباہی میں ایک اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

ماہرین کے مطابق دیگر قدرتی ایکو سسٹمز کی طرح کورل بھی اپنے ایکو سسٹم کو پہنچنے والے نقصان کو ازخود ٹھیک کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ مگر اس عمل میں کئی عشرے درکار ہوتے ہیں، جس میں ان کی نشوونما کے لیے درکار سازگار ماحول کی بحالی ضروری ہے۔ لہذا ان علاقوں میں آگاہی مہم شروع کرنے کے علاوہ  کورل کی حفاظت کے لیے بڑے پیمانے پر سائنسی تحقیق کا آغاز ناگزیر ہے۔
بشکریہ ڈی ڈبلیو اردو

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close