عالمی ادارہ صحت نے حال ہی میں ویکسین کی تیاری سے متعلق ایک اہم فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ قیمتوں اور ترسیل کو کنٹرول کرنے والوں کو اس بات کی اجازت نہیں دی جا سکتی کہ وہ یہ تعین کریں کہ کون سی ویکسین کہاں تیار ہو
ڈبلیو ایچ او کے مطابق ان فیصلوں کو کہ کون سی ویکسین کہاں تیار کی جاتی ہے یا کی جانا چاہیے، مارکیٹ فورسز یعنی قیمتوں اور ترسیل کو کنٹرول کرنے والی قوتوں پر نہیں چھوڑا جا سکتا
ڈبیلو ایچ او کا کہنا ہے کہ ویکسین کو عوام یا تمام دنیا کے انسانوں کی بھلائی کا ذریعہ سمجھنا چاہیے
یاد رہے کہ ہر سال مختلف ویکسین متعدد بیماریوں کے خلاف لاکھوں جانیں بچاتی ہیں۔ ویکسین کی بین الاقوامی منڈی کے بارے میں عالمی ادارہ صحت ڈبلیو ایچ او نے اپنی ایک حالیہ رپورٹ میں اس امر پر روشنی ڈالی ہے کہ ویکسین کی تیاری اور اس کی تقسیم کے معاملے میں بڑے پیمانے پر منافع کا گہرا عمل دخل ہوتا ہے اور اس کی وجہ سے دنیا بھر میں بہت سے انسان زندگی بچانے والی جابس یا ویکسین سے محروم رہ جاتے ہیں
عالمی ادارہ صحت کے سربراہ ٹیڈروس گیبریاسس نے مذکورہ رپورٹ کے تعارف میں ہی ویکسین کے بارے میں اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ”دنیا بھر میں بہت سارے لوگوں کی اب بھی اُن ویکسین تک رسائی نہیں ہے، جن کی انہیں ضرورت ہے ہر سال تقریباً بیس ملین شیر خوار بچوں کو ویکسین نہیں مل پاتی‘‘
دنیا بھر کے ممالک نے گزشتہ سال اس بارے میں ایک ہدف پر اتفاق کیا تھا، جس کے تحت دنیا میں سب کے لیے ویکسین کی وسیع رینج تک رسائی کو یقینی بنانے کی بات کی گئی تھی۔ اس طرح موجودہ دہائی کے آخر تک پچاس ملین زندگیوں کو بچانا ممکن ہو سکتا ہے
لیکن ڈبلیو ایچ او کی ویکسین کے شعبے کی سربراہ کیٹ او برائن کا کہنا ہے کہ اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے ایک نئے طرز کی حکمت عملی کی ضرورت ہے
نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے انہوں زندگی بچانے والی صحت عامہ کے لیے اہم ادویات کے ساتھ کیے جانے والے سلوک کے بارے میں شرائط طے کرنے پر زور دیا اور کہا ”حکومتوں کو اس معاملے میں سنجیدگی سے دلچسپی لینا چاہیے، یعنی محض منافع کی خاطر تیار کیے جانے والے صحت عامہ کے ساز وسامان کی مخالفت بہت ضروری ہے‘‘
حال ہی میں سامنے آنے والی ڈبلیو ایچ او کی اس رپورٹ سے انکشاف ہوا ہے کہ گزشتہ برس یعنی 2021ع میں ویکسین کی قریب سولہ بلین خوراکیں، جن کی مالیت قریب 141 بلین ڈالر بنتی ہے، مارکیٹ میں فراہم کی گئی۔ 2019ع کے مقابلے میں یہ حجم تقریباً تین گنا زیادہ تھا۔ اس اضافے کی بنیادی وجہ نئی کووڈ-19 ویکسین بنی
ماہرین کے مطابق جب کم تجارتی قیمت والے حفاظتی ٹیکوں کی بات آتی ہے تو سرمایہ کاری پیچھے رہ جاتی ہے یا بالکل ہی غائب ہو جاتی ہے۔ مثال کے طور پر ہیضہ، ٹائیفائیڈ، منکی پوکس اور ایبولا۔ یہ وہ بیماریاں ہیں، جن کا انتباہی اندازہ نہیں لگایا جا سکتا اور جن کے پھیلنے کے ساتھ ساتھ ان کی ویکسین یا ادویات کی مانگ میں اضافہ ہوتا ہے
چند ممالک میں مُٹھی بھر ادویات ساز کمپنیاں سب سے زیادہ مستعمل ویکسین تیار کرنے کی ذمہ دار ہیں اور یہ عمل غریب علاقوں میں ویکسین کی خریداری اور رسائی کے سلسلے کو پیچیدہ بنا دیتا ہے
ڈبلیو ایچ او کی تازہ ترین رپورٹ میں مارکیٹ کی دلچسپی اور منافع سے قطع نظر، ویکسین کی منصفانہ اور مساوی رسائی کو یقینی بنانے کے لیے عوامی سرمایہ کاری کا مطالبہ کیا گیا ہے۔