درختوں کے تنوں کے دائروں میں چھپے راز کے بارے میں سائنسدانوں کا نیا انکشاف

نیوز ڈیسک

ایک نئی تحقیق کے بعد سائنسدانوں نے درختوں کی ایک اور خاصیت دریافت کرتے ہوئے بتایا ہے کہ زمین سے ہزاروں نوری سال کے فاصلے پر پھٹنے والے ستاروں اور سپرنووا کے آثار درختوں کے دائروں میں بھی پائے جا سکتے ہیں. یہ بات یونیورسٹی آف کولاراڈو، بولڈر کے ماہر ارضیات، رابرٹ بریکن رِج کی ایک تحقیق میں بتائی گئی ہے، جو جرنل آف ایسٹروبائیولوجی میں شائع ہوئی ہے

اپنی تحقیق میں ان کا کہنا ہے کہ آسمانوں پر ہونے والی واقعات کا ریکارڈ حیاتیات اور ارضیات سے بھی ظاہر ہوسکتا ہے۔ سپرنووا کے عمل میں ستارے ہولناک انداز میں پھٹتے ہیں اور ان کی غیرمعمولی روشنی اور توانائی خارج ہوتی ہے۔ سپرنووا صرف چند ماہ میں ہمارے سورج کی پوری زندگی جتنی توانائی باہر خارج کرتا ہے

انہوں نے بتایا ہے کہ بسا اوقات سپرنووا پوری کہکشاں میں سب سے روشن اجسام بن جاتے ہیں۔ دور دراز ہونے کے باوجود وہ زمین کو ریڈی ایشن میں نہلا  دیتے ہیں اور اوزون جیسی پرت کو بھی نقصان پہنچاتے رہتے ہیں

تحقیق کے بارے میں مزید تفصیلات کے مطابق اس کے لیے ماہرین نے بہت سارے درختوں کے اندر دائروں کا جائزہ لیا ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے گذشتہ چالیس ہزار برس میں درختوں کے اندر چار ایسے واقعات کا ریکارڈ معلوم کیا ہے، جو آسمانوں پر رونما ہوئے ۔ یہ واقعات بہت شدید ہیں جن کے ثبوت کئی درختوں میں ملے ہیں۔ ان میں سپرنووا بھی شامل ہیں

اس کے لیے ماہرین نے کاربن 14 کی مدد سے ریڈیو کاربن ڈیٹنگ سے بھی مدد لی ہے، ریڈیو کاربن اس وقت پیدا ہوتی ہے جب خلا سے زمین پر کائناتی شعاعوں کی بوچھاڑ ہوتی ہے اور یہ عمل مستقل جاری رہتا ہے۔ اسی طرح شمسی توانائی یعنی سورج سے ابھرنے والے شمسی شعلوں کا احوال بھی درختوں کے دائروں میں دیکھا جاسکتا ہے

اسی طرح سپرنووا عمل میں گیما شعاعیں بھی نکلتی ہیں اور ان کی بڑی مقدار زمین تک پہنچ کر ریڈیو کاربن کو جنم دیتی ہیں۔ تاہم بعض ماہرین کا خیال ہے کہ درختوں میں کسی سپرنووا کی بجائے خود ہمارے سورج کے بھڑکتے شعلوں کا ریکارڈ جمع ہونے کا امکان بہت زیادہ ہے۔ سائنسدانوں کے مطابق یہ تو بہرحال طے ہے کہ  درخت ہمیں کائناتی واقعات کی خبر دینے کی اہلیت رکھتے ہیں.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close