کیا سونے کے بھاؤ بکنے والا کشمیری زعفران آخری سانسیں لے رہا ہے؟

ویب ڈیسک

جاثیہ علی اُن سینکڑوں نوجوانوں میں سے ہیں، جن کے والدین کے لیے ان کی اعلیٰ تعلیم کا خرچہ اٹھانا زعفران کی کاشت کی وجہ سے ہی ممکن ہو پایا

پھت جاثیہ نے بھی، اس سوچ کے ساتھ کہ اُن کی فصل میں اضافہ ہو گا، زرعی علوم میں ہی پی ایچ ڈی کی لیکن جب وہ اپنی تعلیم مکمل کر کے واپس لوٹیں تو حالات بدل چکے تھے اور اُن کے والد اور دوسرے کسان پریشانی کا شکار تھے

یہاں اب کئی سال سے زعفران کی فصل کو ریکارڈ گراوٹ کا سامنا ہے اور اس سال بھی زعفران کے کھیت ماضی کی طرح لہلہاتے نظر نہیں آئے

جاثیہ علی بتاتی ہیں ”پُوری دُنیا اس وقت موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے پریشان ہے۔ زعفران کی کاشت بھی متاثر ہوئی ہے لیکن ہمارے یہاں غیرضروری ٹیکنالوجی کے استعمال نے بھی زعفران کے بیج کو خراب کر دیا ہے، جس کی وجہ سے اب فصل پہلے جیسے نہیں ہوتی“

جاثیہ نے ’پلانٹ پیتھولوجی‘ میں اعلیٰ ڈگری لینے کے بعد زعفران کی تجارت کرنے کی ٹھان لی تھی، لیکن حالات شاید اب ویسے نہیں رہے

وہ کہتی ہیں ”اب مجھے لگتا ہے کہ میں کسی یونیورسٹی میں پڑھاؤں گی، کیونکہ جس حساب سے فصل کم ہو رہی ہے، لگتا ہے زعفران چند سال کا مہمان ہے“

دُنیا کا سب سے بیش قیمتی مسالہ کہلانے والے زعفران کو ’کشمیری گولڈ‘ بھی کہا جاتا ہے، کیونکہ سونے اور زعفران کی قیمتیں تقریباً برابر ہوتی ہیں۔ فی دس گرام زعفران چار سے پانچ ہزار روپے تک فروخت ہوتا ہے

زعفران کی کاشت جنوبی کشمیر کے پام پورہ گاؤں میں ہوتی ہے۔ یہ قصبہ ڈھلانوں والی زمین کے لیے مشہور ہے

یہاں کے نوے فی صد لوگوں کا روزگار زعفران کی کاشت پر ہی منحصر ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ ٹیکنالوجی کی وجہ سے پیداوار کم کیوں ہوئی؟

یہاں کے مقامی نوجوان شوکت احمد کہتے ہیں ”بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ زعفران کا بیج ایک بار بویا جاتا ہے اور تین نسلوں تک اُسی بیج سے زعفران اُگتا رہتا ہے۔ یہ بیج بہت گہرائی تک مٹی میں دھنسا ہوتا ہے اور ہر سال مٹی کو ہلکا سا سہلایا جاتا ہے۔ یہ کام ہاتھوں سے ہوتا تھا لیکن جلدبازی کے چکر میں خودکار ٹِلر سے یہ کام کیا جانے لگا تو بیج ایکسپوز ہو گیا“

جاثیہ علی کے مطابق حکومت نے چار سو کروڑ روپے مالیت کا زعفران مِشن بھی لانچ کیا تھا، اُسی مِشن کے تحت زعفران کے کھیتوں میں بہتر سینچائی کا نظام قائم کیا گیا۔ لیکن کسی ماہر نے کبھی یہ سوال نہیں اُٹھایا کہ ٹیکنالوجی کا غیرمحتاط استعمال زعفران کی کاشت کو تباہ کر رہا ہے“

شوکت احمد کا کہنا ہے کہ زعفران کے 20/3 فٹ کے چمن میں چند سال قبل دو لوگوں کو زعفران کے پھول اُٹھانے میں چالیس منٹ کا وقت لگتا تھا، جبکہ آج یہی کام ایک ہی شخص صرف تین منٹ میں کرتا ہے۔ اس سے آپ کو اندازہ ہوگا کہ پیداوار میں کس قدر کمی ہوئی ہے

نور محمد نامی ایک کسان کا کہنا ہے کہ گذشتہ کئی برس سے زعفران کی پیداوار میں مسلسل گراوٹ ہوئی تو کئی کسانوں نے زعفران کے لیے مخصوص زمینیں ہی بیچ دیں

ان کا مزید کہنا تھا ”آپ دیکھیے ان کھیتوں کو، جہاں کل ہر طرف زعفران تھا آج مکانات کا جنگل ہے۔ نئی نسل بھی تنگ آکر کچھ اور کرنا چاہے گی، مجھے لگتا ہے کہ اگلے دس سال میں یہ صنعت ختم ہوجائے گی“

واضح رہے کشمیر میں زعفران مقامی ثقافت کا بھی اہم حصہ ہے۔ زعفرانی قہوہ یہاں کی خاص ضیافت ہے جبکہ سردیوں میں زعفرانی ہریسہ پورے ہندوستان میں مشہور ہے

کشمیر میں ہر سال بھارت کے کونے کونے سے لاکھوں سیاح سیر کے لیے آتے ہیں۔ کوئی اور چیز وہ خریدیں نہ خریدیں لیکن زعفران خریدنا اُن کی پہلی ترجیح ہوتا ہے

فصل میں گراوٹ کی وجہ سے زعفران کے دام بھی بڑھ چکے ہیں اور بہت کم مقدار میں کشمیری زعفران ایکسپورٹ ہوتا ہے

حالانکہ دنیا میں ایران واحد ملک ہے، جہاں سب سے زیادہ زعفران اُگتا ہے، لیکن سات سو سال قبل ایرانی اور وسط ایشیائی اسلامی مبلغین نے کشمیر میں زعفران کی کاشت کو متعارف کرایا تھا

ماہرین کہتے ہیں کہ متعدل موسم اور بہتر آب و ہوا کی وجہ سے کشمیری زعفران عالمی سطح پر ایرانی زعفران کا مقابلہ کرتا رہا ہے اور اونچے داموں بِکتا رہا ہے

زعفران کی کھیتی کرنے والے خاندانوں سے تعلق رکھنے والے تعلیم یافتہ نوجوان چاہتے ہیں کہ اس صنعت کو بچایا جائے

جیسے جاثیہ علی کہتی ہیں ”زعفران مشن اپنی جگہ ٹھیک ہے لیکن کسانوں کو مشینیں نہیں، مناسب مشوروں اور تربیت کی ضرورت ہے۔ موسمیاتی تبدیلی کا ہم کچھ نہیں کرسکتے لیکن جتنی فصل ہورہی ہے کم از کم اس کو بچایا جاسکتا ہے“

زعفران کی صنعت کو بچانے کے لیے اب پام پورہ کے لوگ ’اِن ڈور زعفران‘ کا تجربہ کر رہے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ اب زعفران کی کاشت گھروں کے اندر کی جائے گی کیونکہ سینچائی کا مناسب انتظام نہ ہونے اور تیزی سے ہونے والی تعمیرات کے سبب یہ صنعت زبردست بحران کا شکار ہے

زعفران سے متعلق حکومت کے ’ایڈوانس ریسرچ اسٹیشن‘ کے سربراہ ڈاکٹر بشیر احمد علائی کا کہنا ہے ”موسمیاتی تبدیلی سے سبھی فصلوں کا یہی حال ہے۔ پہلے تو سینچائی کی ضرورت نہیں پڑتی تھی، لیکن اب بارشیں کم ہورہی ہیں۔ ہم پچھلے کئی سال سے اِنڈور کاشت کے ماڈل پر کام کر رہے ہیں، مجھے اُمید ہے یہ صنعت بچ سکتی ہے“

وہ کہتے ہیں ”نئے تجربے کے تحت زعفران کے بیج کو خاص طرح کے سانچوں میں کم از کم سو دن تک گھپ اندھیرے میں رکھا جاتا ہے، جس کے بعد غنچے نکل آتے ہیں۔“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close