پاکستان: چھاتی کے کینسر کےخلاف پہلی طبی تحقیق میں اہم پیشرفت

ویب ڈیسک

پاکستان میں حالیہ کچھ برسوں کے دوران چھاتی کے کینسر سے خواتین کی شرحِ اموات میں تیزی سے اضافہ نوٹ کیا گیا ہے۔ ’پِنک پاکستان ٹرسٹ‘ کی جانب سے جاری کردہ اعدادو شمار کے مطابق ہر برس لگ بھگ ہچاس ہزار خواتین بریسٹ کینسر کے باعث موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں۔ یہ تعداد ایشیاء میں بریسٹ کینسر کا شکار ہونے والی خواتین کی سب سے زیادہ شرح ہے

ملک میں چھاتی کے سرطان کے سالانہ نوے ہزار کیسز رپورٹ ہو رہے ہیں جو اصل تعداد سے کافی کم ہیں کیونکہ سماجی قدغنوں کے باعث اکثر خواتین اپنا مرض چھپائے رکھتی ہیں

ایف سی کالج یونیورسٹی لاہور کے نوجوان محققین نے ڈاکٹر محمد مصطفٰی کی سربراہی میں چھاتی کے سرطان کے کیسز کی وجوہات پر باقاعدہ لیباٹری تحقیق کی ہے، جو پاکستان میں اپنی نوعیت کی پہلی تحقیق ہے

’انٹرنیشل جرنل آف مالیکیولر سائنسز‘ میں شائع ہونے والی اس تحقیق کے سربراہی ایف سی کالج یونیورسٹی لاہور کے کیم اسکول آف لائف سائنسز سے وابستہ اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر محمد مصطفیٰ نے کی ہے۔ یہ تحقیق اسی یونیورسٹی کی طالبہ تحریم فیاض کی ایم فل اسٹڈی کا حصہ ہے

ڈاکٹر مصطفیٰ کا کہنا ہے کہ کینسر کے متعلق یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہ جینیاتی مرض ہے حالانکہ تحقیق سے ثابت ہوچکا ہے کہ والدین سے بچوں میں کینسر کی منتقلی کے امکانات محض پندرہ فی صد ہوتے ہیں

دنیا بھر میں کینسر کے بڑھتے کیسز کی بڑی وجوہات غیر صحت مندانہ طرِز زندگی جیسے سگریٹ نوشی، الکوحل، جنک فوڈ کا زیادہ استعمال، ماحولیاتی عوامل اور جذباتی تناؤ کو سمجھا جاتا ہے

ڈاکٹر مصطفیٰ مزید بتاتے ہیں ”جب کسی خاتون میں بریسٹ کینسر کی تشخیص ہوتی ہے تو وہ پہلے روز سے ہی شدید ذہنی تناؤ کا شکار ہوجاتی ہے۔ یہ ذہنی دباؤ علاج کے مختلف مراحل جیسے کیمو تھراپی، سرجری، ریڈیالوجی وغیرہ میں بتدریج بڑھتا رہتا ہے اور مریضہ کو اپنے روزمرہ کے کام سرانجام دینے میں بھی مشکلات پیش آتی ہیں“

اس کے ساتھ ساتھ مریضوں میں نسوانیت کی پہچان چھاتیاں اور بالوں کا ختم ہو جانا، ہمہ وقت کا خوف، گھر والوں اور معاشرے کے منفی رویے اس نفسیاتی دباؤ کو مزید تقویت دیتے ہیں

ڈاکٹر مصطفیٰ کے مطابق ”کینسر کے دوران شدید ذہنی تناؤسے نمٹنے کے لئے مریضہ کا دماغ جو حکمت عملی اختیار کرتا ہے، وہ اس کے ڈی این اے کا اپنے کچھ جینز پر کنٹرول کم کر دیتا ہے۔ یہ بے ربط جینز کینسر کے خلیوں کو دوسرے جسمانی اعضاء پر حملہ کرنے میں مدد فراہم کرتی ہیں۔ یوں ٹیومر دیگر اعضاء تک پھیلنے لگتا ہے‘‘

ڈاکٹر مصطفٰی کا کہنا ہے ”سب سے پہلے تو یہ جاننا ضروری ہے کہ عام طور پر چھاتی کا سرطان اس وقت تک موت کا سبب نہیں بنتا جب تک ٹیومر صرف چھاتی تک محدود رہے۔ اس صورت میں مناسب اور بر وقت علاج سے خواتین جلد صحتیاب ہوجاتی ہیں۔ دیگر مسائل کے ساتھ موت کے امکانات اس وقت بڑھتے ہیں، جب ٹیومر اپنی اصل جگہ چھوڑ کر ہڈیوں، پھیپھڑوں اور جسم کے دوسرے اعضاء تک پھیلنے لگتا ہے۔ اسے سائنسی اصطلاح میں ’میٹاسٹیسیس‘ کہا جاتا ہے، جو ہماری تحقیق کا مرکز تھی۔“

ڈاکٹر مصطفٰی کے مطابق، ان کی تحقیق میں بریسٹ کینسر کا شکار بتیس خواتین مریضوں کو شامل کیا گیا تھا، جو کیموتھراپی اور سرجری کے مراحل سے گزر رہی تھیں۔ سب سے پہلے ان خواتین کا نفسیاتی اصولوں کے مطابق جائزہ لے کر ان کی ذہنی حالت کا ڈیٹا تیار کیا گیا، جس کے بعد ان کے خون کے نمونے لے کر لیبارٹری میں مالیکیولر تجز ئیے سے یہ جاننے کی کوشش کی گئی کہ جذباتی تناؤ مریض خواتین کے کینسر پر کس طرح اثر انداز ہوتا ہے۔ اس طرح ہمیں ذہنی اور جذباتی سے ان کی روزمرہ زندگی میں ہونی والی تبدیلیوں اور مرض کے بگاڑ کے بارے میں اہم معلومات ملیں۔‘‘

ان محققین کے مطابق پاکستانی معاشر ے میں چھاتی کے سرطان کے حوالے سے سماجی قدغنیں بہت زیادہ ہیں۔ مرض کی تشخیص کے بعد مریضہ پر نفسیاتی دباؤ بہت بڑھ جاتا ہے اور فیملی کی طرف سے اتنی سپورٹ نہیں ملتی، جس کی انہیں ضرورت ہوتی ہے۔ اسی لئے پاکستان میں بریسٹ کینسر سے اموات کی شرح بڑھ رہی ہیں

ان کے مطابق ”ہماری لیبارٹری میں کی گئی تحقیق میں باقاعدہ مالیکیولر تجزیئے سے بریسٹ کینسر کا شکار خواتین کے خون میں کچھ ایسے حیاتیاتی پیمانے یا بائیولوجیکل مارکرز سامنے آئے، جن کی مدد سے کینسر کے مریضوں میں بڑھتے ذہنی وجذباتی تناؤ کے اثرات کی تشخیص کی جا سکے گی“

ان معلومات کی روشنی میں، طبی اور نفسیاتی طریقہ عالج کا متناسب استعمال کینسر کے پھیلنے یعنی میٹا سٹیسیس کی رفتار دھیمی کر کے بہتر نتائج حاصل کئے جا سکتے ہیں

ڈاکٹر مصطفٰی بتاتے ہیں ”چھاتی کے سرطان کا شکار خواتین کی ذہنی صحت کا خیال رکھ کر ان کے زندہ رہنے کے امکانات کو بڑھایا جا سکتا ہے۔ اس حوالے سے پاکستان میں آگاہی پھیلانے کی ضرورت ہے کہ علاج کے ساتھ ایک صحتمند ماحول مریض خواتین کے لئے کتنا اہم ہے۔ لامحالہ اس کے لئے گھر والوں اور معاشرے کو ان کے ساتھ تعاون کرنا ہوگا۔“

محققین کے مطابق اس تحقیق کے نتائج سے پاکستان میں بریسٹ کینسر کے معالجین کو مرض کو بگڑنے سے روکنے میں مدد ملے گی اور وہ بہتر فیصلہ کر سکیں گے کہ مریضہ کو کس وقت، کس درجے کی جذباتی امداد اور نفسیاتی علاج کی ضرورت ہے

ڈاکٹر مصطفٰی کا یہ بھی کہنا تھا کہ یہ امر ثابت ہو جانے کے بعد کہ چھاتی کے سرطان کے علاج کے دوران نفسیاتی اور ذہنی تناؤ کچھ جینز کی حرکیات کو بدلنے کا سبب بنتا ہے جو مرض کو مزید بگاڑتی ہیں، وہ پُر امید ہیں کہ اس سے فارماکولجی میں نئے اہداف بھی سامنے آئیں گے۔ اب ایسی ادویات اور دماغی صحت کی بہتری کی حکمت عملیوں پر کام کیا جائے گا، جس سے ٹیومر کو میٹا سٹیسیس فیز تک پہنچنے سے روکا جا سکے گا جو نا صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں بریسٹ کینسر سے خواتین کی اموات کا سبب بن رہا ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close