ہم ایک بیمار نسل کی پرورش کر رہے ہیں: سیلاب سے متاثرہ اسکول ٹیچر

ویب ڈیسک

تین سالہ بچی افشاں کو سیلاب کا بدبودار پانی پار کرنے کے لیے فولادی شہتیر پر سے گزرنا پڑتا ہے

یہ عمل بلندی پر تنے رسے کے اوپر چلتے ہوئے خود کو متوازن رکھنے جیسا ہے، کیونکہ انہیں نظریں سامنے جمائے رکھنا پڑتی ہیں

مون سون کی ریکارڈ بارش کے بعد صوبہ سندھ ضلع دادو کے علاقے چندن موری میں واقع افشاں کے اسکول میں پانی بھر گیا تھا۔ اب یہ واحد راستہ ہے، جس پر چل کر افشاں اور ان کے بہن بھائی اس خیمے تک پہنچتے ہیں، جہاں انہیں پڑھایا جاتا ہے

اس خیمے میں شدید گرمی پڑتی ہے اور گرمی سے بےحال طلبہ اپنی کتابوں کی مدد سے پنکھا جھلتے رہتے ہیں۔ اس پر مستزاد یہ کہ یہ طلبہ اپنی پیاس بجھانے کے لیے سیلاب کا گندہ پانی پینے پر مجبور ہیں

جب نور احمد نامی ٹیچر سوال کا جواب دینے کے لیے ان کا نام پکارتے ہیں تو بہت سارے بچوں میں کھڑا ہونے کی طاقت نہیں ہوتی۔ نور احمد کا کہنا ہے ”بچے بیمار ہو جاتے ہیں، اکثریت کے ساتھ ایسا ہو رہا ہے، طلبہ کی حاضری بہت کم ہو جاتی ہے“

سیلاب کی وجہ سے ایک تہائی پاکستان زیر آب آ گیا اور اسی لاکھ افراد کو نقل مکانی کرنی پڑی۔ سیلاب بہت سے لوگوں کے اب بھی ایک اور رکاوٹ ہے جسے وہ عبور نہیں کر پائیں گے۔ نور احمد کا کہنا تھا ’ہم ایک بیمار نسل کی پرورش کر رہے ہیں۔‘

تین سو سے زیادہ بچے اور بچیاں ان تین خیمہ سکولوں میں پڑھتے ہیں جہاں وہ فرش پر پلاسٹک کی شیٹیں بچھا کر بیٹھتے اور ایک ساتھ ٹیچر کے سوالات کا جواب دیتے ہیں

افشاں کے والد عبدالقادر نے بتایا ’اس پل کو پار کر کے بچوں کو اسکول بھیجنا خطرناک کام ہے لیکن بچوں کا اور اپنا مستقبل محفوظ بنانے کے لیے ہم مجبور ہیں۔‘

پاکستان میں جہاں ملک کا ایک تہائی حصہ یومیہ چار ڈالر سے بھی کم آمدن کی وجہ سے مشکلات کا شکار رہتا ہے، انتہائی غربت کی وجہ سے تعلیم حاصل کرنا مشکل کام ہے

بچوں کے لیے اقوام متحدہ کے ادارے (یونیسف) کے مطابق اس سال موسم گرما میں سیلاب نے پاکستان میں 27 ہزار سکولوں کو مکمل تباہ کیا یا نقصان پہنچایا۔ سیلاب نے ایسے انسانی المیے کو جنم دیا جس کے پیش نظر مزید سات ہزار سکولوں کو امدادی مراکز میں تبدیل کر دیا گیا۔ نتیجے کے طور پر پینتیس لاکھ بچوں کی تعلیم کا سسلسلہ بند ہو گیا

دس سالہ کامران بابر کے مطابق: ’سب کچھ چلا گیا ہے۔ ہم تعلیم سے محروم ہو چکے ہیں۔‘ کامران اسکول اور گھر پانی میں ڈوب جانے کے بعد قریبی خیمہ بستی میں رہتے ہیں

موسمیاتی تبدیلی سے جڑی بارشوں سے پہلے افشاں اپنی بہنوں کی تقلید کرتے ہوئے اس اسکول میں جاتی تھیں، جسے ہلکا سبز رنگ کیا گیا تھا۔ تقریباً ڈیڑھ ماہ پہلے بارشیں بالآخر بند ہو گئیں لیکن ان کا اسکول ابھی تک کھڑے پانی میں ڈوبا ہوا ہے

اس علاقے میں پہلے ہی لڑکیوں کی تعلیم جا رجحان بہت کم ہے۔ وہ طلبہ جنہیں اسکول میں داخل کروایا گیا ان کا مستقبل بڑے رقبے پر فصلوں کو تباہ کرنے والی مون سون بارشوں سے پہلے بھی مخدوش تھا۔ گذشتہ دو سال کے دوران کووڈ-19 کی وبا کی وجہ سے اسکول سولہ ماہ تک بند رہے

موندر کے قریبی قصبے میں مون سون کے طوفانوں کی وجہ سے سرکاری اسکول کے چھت اڑ گئی۔ دیواروں میں دراڑیں پڑ چکی ہیں اور ان کی حالت خستہ ہے۔ اب طلبہ باہر بیٹھتے ہیں کیوں کہ انہیں خطرہ ہے کہ سکول کی عمارت گر جائے گی

لڑکے صحن میں لگے درخت تلے بیٹھتے ہیں، بیٹھ کر پڑھتے ہیں جب کہ لڑکیاں قریب ہی عطیہ کیے گئے خیمے میں جمع ہوتی ہیں

ٹیچر رابعہ اقبال کہتی ہیں ”اس طرح کی صورتحال کے لڑکیوں پر ہمیشہ رہنے والے تباہ کن اثرات مرتب ہوں گے۔ اگر ہم انہیں ذہنی طور پر صحتمند بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں انہیں فوری طور پر خیموں سے باقاعدہ کلاس رومز میں منتقل کرنا ہوگا“

لیکن ان کی اسکول فوری واپسی کا کوئی امکان نہیں ہے

تجزیے سے پتہ چلتا ہے کہ اسکولوں کی تعمیر نو اور تعلیمی نظام کی بحالی کے اخراجات تقریباً ایک ارب ڈالر ہوں گے۔ مکمل بحالی پر چالیس ارب ڈالر کے لگ بھگ خرچ کرنے ہوں گے ایک ایسے ملک میں، جو پہلے ہی معاشی بدحالی کا شکار ہے

آگے آنے والی مشکلات سے بے خوف چندن موری ہائی اسکول کی طالبات تین کلو میٹر پیدل چل کر عارضی کلاس روم میں جاتی ہیں

تاہم ان مشکلات کے باوجود تیرہ سالہ طالبہ شائستہ کہتی ہیں ”ہم ان حالات سے ہار نہیں مانیں گے۔“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close