مختلف بین الاقوامی ایجنسیاں‘ ترقی یافتہ ممالک کی حکومتیں اور معاشی ماہرین مسلسل ایک بات پر زور دے رہے ہیں کہ غریب اور تیسری دنیا کے ممالک کا سب سے بڑا مسئلہ آبادی میں غیر متوازن اور بے تحاشا اضافہ ہے‘ اس کو ’’آبادی کا بم‘‘ (Population Bomb) بھی کہتے ہیں۔
تیسری دنیا کے ممالک میں آبادی میں اضافے کی شرح بہت بلند ہے اور اس کا مطالعہ سیاق وسباق میں کرنا ضروری ہے ‘اس مسئلے پر دو ماہرین کی آراء بہت مشہور ہیں، ‘رابرٹ مالتھس اور کارل مارکس نے سرمایہ دارانہ نکتہ نظر جب کہ مارکس نے سوشلسٹ نکتہ نظرسے اس مسئلے کا سائنسی تجزیہ کیا ہے۔
رابرٹ مالتھس کو آبادی میں اضافے کے ایشوکا بہت بڑا دانشور مانا جاتا ہے ‘اس نے دو سو سال قبل ایک نظریہ دیا تھا کہ و سائل کم ہیں اور جب آبادی زیادہ ہو جائے تو ان پر بوجھ بڑھ جاتا ہے‘ ہر انسان کو ان تک رسائی نہیں ہوتی اس لیے غربت بڑھ جاتی ہے ‘پاکستان جیسے ممالک میں تعلیم ‘صحت اور روزگار کے مواقعے پہلے سے کم ہیں اور آبادی میں بے تحاشہ اضافہ ان سہولیات تک عوام کی رسائی مشکل بنا دیتی ہے ‘ جس سے غربت زیادہ ہو جاتی ہے
ان کا خیال ہے کہ آبادی میں اضافہ غربت کی بڑی وجہ ہے۔اس نظریہ کو غربت کی اصل وجہ چھپانے کی کوشش قرار دیا جارہا ہے
مالتھس ایک رجعت پسند خیالات رکھنے والا انسان تھا لیکن یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اس نے اپنے نتائج کی بنیاد کسی سازشی فلسفے کی بنیاد پر رکھی ہوگی لیکن یہ بات واضح طور پر کہی جا سکتی ہے کہ اس کے فلسفے سے ماڈرن دنیا میں غربت کی بنیادی وجوہات کو ارادتاً نظر انداز کیا گیا ہے ‘جب اس نے دو سو سال قبل اپنے خیالات قلمبند کیے اس وقت سے لے کر آج تک حالات بہت بدل چکے ہیں‘جس وقت مالتھس اپنے خیالات لکھ رہا تھا
اس وقت برطانیہ میں پہلا صنعتی انقلاب آ رہا تھا‘اس نے سب سے پہلے اس وقت کے شہری مزدور طبقے کی زندگی کا تفصیلی مطالعہ کیا‘اس وقت یہ صنعتی مزدور آج کے تیسری دنیا کے مزدوروں جیسے حالات میں زندگی گزار رہے تھے
مالتھس کا مشاہدہ تھا کہ یہ مزدور خاندانوں میں بچوں کی شرح پیدائش بہت زیادہ ہے‘ حالانکہ ان لوگوں کے پاس اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کے لیے وسائل نہیں تھے ‘ ملک میں بھی اتنے وسائل تھے‘ کہ ان کا معیار زندگی بلند ہوسکے
اس نے یہ پیشنگوئی کی کہ آبادی میں اضافے اور وسائل میں کمی کے باعث یہ معاشرہ ایک دن تباہ ہوجائے گا۔یہ تو سچ ہے کہ معاشرے کو تباہی کا خطرہ ہے لیکن وجوہات وہ نہیں جو مالتھس نے بیان کی تھیں بلکہ کچھ اور ہیں‘ یعنی ان کا تعلق آبادی میں اضافے سے نہیں بلکہ انسانی ترقی سے ہے
مصر کے شہر شرم الشیخ میں لگ بھگ دو سو ممالک عالمی درجہ حرارت میں ڈیڑھ ڈگری کمی لانے کے لیے ایک بار پھر سر جوڑ کر بیٹھے ہیں۔اس سلسلے کا سب سے اہم اجتماع 2015 میں پیرس میں ہوا تھا ‘اس میں شرکاء نے عہد کیا تھا کہ اگلے 15سال میں 2030 تک عالمی درجہ حرارت میں ڈیڑھ ڈگری کی کمی کے لیے اجتماعی اقدامات کیے جائیں گے
تاکہ 2050 تک درجہ حرارت میں 1.8 فی صد اضافے کے نتیجے میں کرہ ارض کی نصف آبادی کو جو بقائی خطرہ لاحق ہونے والا ہے اسے ٹالا جا سکے۔ 15برس کی طے کردہ سرخ لکیر کو سبز کرنے کا نصف وقت گزر چکا‘اس عرصے میں درجہ حرارت میں کمی تو خیر کیا ہوتی الٹا درجہ حرارت میں ایک اعشاریہ آٹھ فی صد اضافہ ہوچکا ہے
یہ بات یقین سے کی جا سکتی ہے کہ مالتھس یا اس کے ہم عصروں کو یہ اندازہ بالکل نہیں تھا کہ سرمایہ داری نظام دنیا کو کہاں سے کہاں لے جائے گا‘ان کو معلوم نہیں تھا کہ ٹیکنالوجی کے ارتقاء سے دنیا اتنی ترقی کرلے گی جو ان کے خواب اور خیال میں نہیں تھا
ان کو اس حقیقت کا ادراک بھی نہیں تھا کہ سرمایہ دارانہ نظام ایک ایسے بین الاقوامی منڈی کی معیشت کے فروغ کا سبب بنے گا ‘ اس بین الاقوامی مارکیٹ کے ذریعے یہ ممکن ہو گا کہ وسائل (قدرتی اور انسانی دونوں)کو ایک ملک سے اٹھا کر دوسرے ملک ‘ بلکہ ایک بر اعظم سے دوسرے بر اعظم کو منتقل کیا جا سکے
برطانوی سامراج اور دوسری نو آبادیاتی طاقتوں نے تیسری دنیا کے وسائل کو اپنے ملکوں میں منتقل کرنے کے لیے ذرایع آمد و رفت کو ترقی دی ‘بیسویں صدی کے آخری دور اور اکیسویں صدی کی ابتداء نے تو ایک نیا منظر دیکھا۔اس دور میں ایک عالمی‘ اقتصادی انفارمیشن انقلاب برپا ہوا
انفارمیشن انقلاب نے ایک ایسے غیر حقیقی اور غیرمرئی اقتصادی نظام کو بھی پروان چڑھایا جس کاعالمی طور پر اشیاء یا خدمات کی پیداوار سے کوئی تعلق نہیں ہوتا‘ جیسے اسٹاک ایکسچینج ، آن لان ٹرانزیکشینز، بیٹ کوئن ، کرپٹو کرنسی وغیرہ کے ذریعے اربوں کھربوں ڈالروں کا کاروبار ہوتا ہے ‘ مالتھس اس انفرمیشن ریولیوشن سے بے خبر تھا جو اس کے لکھنے کے دو سو سال بعد رونما ہونے والا تھا ‘اس کے باوجود مالتھس نے یہ بات بالکل ٹھیک کی تھی کہ محنت کشوں کی بڑھتی ہوئی آبادی کو مستقبل میں انتہائی غربت کے حالات کا سامنا کرنا پڑے گا۔
کچھ ماہرین اقتصادیات اور معاشی دانشوروں مثلاًاینڈرس اسکوبارجن کا کام ہی ترقی کے بعد اثرات کا جائزہ لینا تھا ‘ ان کا تبصرہ بہت خوفناک ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ شدید غربت صرف سرمایہ داری نظام کی پیداوار ہے۔ کھلی منڈی کا عالمی نظام بھی تیسری دنیا کے ممالک میں غربت کی بڑی وجہ ہے۔آبادی میں اضافے اور غربت کے تعلق کے بارے میں کارل مارکس کا تجزیہ آیندہ۔
بشکریہ: ایکسپریس نیوز
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)