ہم نے ’یومِ خاندان‘ کیوں نہیں منایا؟

عثمان جامعی

چند روز پہلے ’فیملی‘ کا عالمی دن منایا گیا۔ اردو میں اسے خاندان کا عالمی دن کہا جاتا ہے، لفظ ’فیملی‘ کے اردو کا چولا پہنتے ہی بات کچھ سے کچھ ہوجاتی ہے۔ مغرب میں فیملی میاں بیوی اور بچوں پر مشتمل ہوتی ہے لیکن ہمارے ہاں خاندان کی رنگارنگی اور وسعت کی کوئی انتہا نہیں

یہ سلسلہ پھوپھی، چچا، تایا، ماموں، خالہ سے لے کر یہ پھپھیری ساس، چچیری ساس اور ممیرے سسر تک وسیع ہوجاتا ہے۔ یہ عالمی دن خاندان کی اہمیت اجاگر کرنے کے لیے منایا جاتا ہے اور ہم پاکستانی اس کی اہمیت اور افادیت سے اچھی طرح واقف ہیں، اس لیے ہمیں یومِ خاندان منانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے

ویسے بھی ہمارے پاس ’یومِ خاندان‘ منانے کی فرصت نہیں کیونکہ ہم پورا سال کسی نہ کسی خاندان والے کو منا رہے ہوتے ہیں۔ کبھی پھوپھا کسی ایسی بات پر روٹھے ہیں، تمام فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا، کبھی پھوپھو کسی بات کا بتنگڑ بنا کر منہ سُجائے ہوتی ہیں، خالہ، بھانجے کی شادی طے ہونے پر برافروختہ ہیں کیونکہ بھانجے نے ان کی نورِ نظر کے بجائے چچا کی بیٹی پر نظر رکھی، خالو خالہ کی حمایت میں اخلاقاً برہم ہیں، ممانی کو صدمہ ہے کہ فلاں رسم میں مجھے پوچھا نہیں، ماموں رسماً بیوی کا ساتھ دے رہے ہیں، کبھی تائی روٹھی ہیں، کبھی تایا دل فگار ہیں، کہیں چچی دل جلائے بیٹھی ہیں تو چچا بھی اس آگ کی زد میں آکر آگ بگولہ ہیں۔ یوں منانے کا سلسلہ ہے کہ چلے جارہا ہے۔ اس سے اندازہ کیجیے کہ خاندان ہمارے ہاں کس قدر اہم ہے

ہمارے ہاں تو بعض دفعہ افراد خاندان ہی کی حیثیت سے پہچانے جاتے ہیں، جیسے کبھی بی اماں اور علی برادران تھے، پھر ہم نے اباجی اور شریف برادران کو دیکھا۔ آزادی سے پہلے یہ نظم بڑی مشہور تھی، ’بولیں اماں محمد علی کی، جان بیٹا خلافت پہ دے دو، ساتھ تیرے ہیں شوکت علی بھی، جان بیٹا خلافت پہ دے دو‘۔ اباجی اس قسم کی باتیں نہیں کرتے تھے، چنانچہ اس بابت ان کی خاموشی سے ان کے صاحب زادوں نے جان لیا کہ دوسروں کی خلافت تو کجا، اپنی حکومت کے لیے بھی جان جوکھم میں نہیں ڈالنی اور مشکل وقت پڑتے ہی کوشش کرنا ہے کہ جان بچ جائے اور جانے دیا جائے

اسی طرح دوسرے برادران بھی مشہور ہیں، جیسے صابری برادران اور چوہدری برادران۔ صابری برادران نے ایک ساتھ قوالی گاتے ہوئے شہرت حاصل کی اور پھر ان میں باہمی اختلافات ہوگئے تھے۔ صابری برادران کی قوالی ’میں تو دیوانی خواجہ کی دیوانی‘ بہت مشہور ہے

چوہدری برادران قوال نہیں سیاست دان ہیں، قوالی سے ان کا بس اتنا واسطہ ہے کہ ان کی سیاست ’میں تو دیوانی خاکی کی دیوانی‘ کی جھوم جھوم کر گائی جانے والی قوالی کے سوا کچھ نہیں۔ ان دونوں برادران میں بھی بٹوارا ہو چکا ہے۔ چوہدری پرویز الٰہی ان دنوں عمران خان کے ہم نوا ہوکر ان کی سنگت میں گاتے اور تالی بجاتے نظر آتے ہیں لیکن جوں ہی ’بے رحم باجوہ تو نے یہ کیا کیا‘ کے بولوں کی تکرار ہوتی ہے، ان کے ہاتھ اور لب ساکت جامد ہو جاتے ہیں۔ رہے چوہدری شجاعت تو وہ اپنی بچی کھچی ق لیگ کا قافیہ ن لیگ سے ملا کر خود کو مامون اور اسے ممنون کر چکے ہیں

جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں ہمارے ہاں خاندان کی روایت بڑی مضبوط ہے، جون ایلیا صاحب جیسے کم ہی ملیں گے

مجھ کو تو کوئی ٹوکتا بھی نہیں،
یہی ہوتا ہے خاندان میں کیا

کا شکوہ کرتے نظر آئیں۔ ہمارے خاندانوں میں ہمیشہ سے اہل خاندان کی خبر رکھنا بنیادی اخلاقی فریضہ گردانا جاتا ہے۔ مغل تو اپنے اہل خاندان کی خبر رکھتے ہی نہیں خبر لیتے بھی تھے اور انہیں خبر بنا بھی دیتے تھے۔ مغلوں کو اپنوں کی بھلائی ہی نہیں صفائی کا بھی پورا خیال تھا۔ کبھی کبھی تو وہ پورے کا پورا بھائی صاف کر دیا کرتے تھے۔ خیر مغلوں کا دور گزر گیا، اب وہ صرف ’مغلِ اعظم‘ اور ’جودھا اکبر‘ جیسی فلموں میں مدھوبالا اور ایشوریا رائے کے آگے پیچھے گھومتے، عشق لڑاتے اور بی اے کے نصاب کی ’اردو ایڈوانس‘ بولتے نظر آتے ہیں

ہمارے دور کے خانوادے باہمی دیکھ بھال اور رواداری کی روایت مغلوں سے کہیں زیادہ بہتر طریقے سے نبھا رہے ہیں۔ مثال کے لیے شریف خاندان ہی کو دیکھ لیجیے۔ یہ خاندان چاہے خود برسوں کے لیے ملک سے باہر چلا جائے یا ’اندر‘ بھیج دیا جائے، اس نے یہ طے کر رکھا ہے کہ اقتدار خاندان سے باہر نہیں جائے گا

مولانا فضل الرحمٰن کا تو اپنے خاندان پر فضل دیکھنے کے لائق ہے۔ بیٹا قومی اسمبلی میں، بھائی سینیٹر، 2018ء کے عام انتخابات میں مولانا نے دیگر دو بھائیوں کو صوبائی اسمبلی اور کچھ رشتے دار خواتین کو عورتوں کے لیے مخصوص نشستوں کے ٹکٹ یوں دیے تھے، جیسے یہ انتخابی ٹکٹ نہ ہوں بلکہ مولانا ڈیرہ اسمعٰیل خان سے پشاور کے سفر کے لیے بس کے ٹکٹ لے رہے ہوں

جس طرح ’رانجھا رانجھا کردی میں آپے رانجھا ہوئی‘ کا کرشمہ ہوا تھا، ایسے ہی کمالات اب بھی ہوتے ہیں۔ مثلاً کسی خاندان کا نام جپتے جپتے وہ خاندان جپنے والے کی پہچان بن جاتا ہے۔ جیسے بھٹو بھٹو کرتے آصف علی زرداری کا کنبہ بھٹو ہو گیا۔ یوں ہماری تاریخ میں بھٹو نام کے دو خاندان یاد رکھے جائیں گے، ایک ’داری بھٹو‘، یعنی وہ جنہیں ایک ایک کرکے سوئے دار روانہ کر دیا گیا اور دوسرے ’زرداری بھٹو‘، جن کے کندھوں پر اب پاکستان پیپلز پارٹی کی پوری ذمہ داری ہے۔ دنیا میں خاندان بچوں کو اپناتے ہیں لیکن بچوں کے خاندان اپنانے کا یہ منفرد واقعہ ہمارے ہاں پیش آیا

اب تک ہماری خاندانی روایت میں خونی رشتوں اور قریبی عزیزوں سے حسنِ سلوک، تعاون، محبت اور خیال داری کا چلن تھا، لیکن چند سال پہلے اس روایت میں ایک اضافہ ہوا اور ’چھوٹا خاندان زندگی آسان‘ کے اشتہاری فقرے کو ’ٹوٹا خاندان زندگی مہربان‘ کے سامنے کی حقیقت بن جانے والے نعرے سے تبدیل کر دیا۔ بس شرط یہ قرار پائی کہ ٹوٹے خاندان سے ٹوٹ کر الگ ہونے والا فرد کسی ایسے ’خان‘ سے جُڑ جائے، جسے اقتدار دان کیا جا رہا ہو۔ اس کے ساتھ ہی خاندانی منصوبہ بندی کی اصطلاح یکسر نئے معنی اختیار کر گئی، یعنی خاندان کا بندی پر منحصر منصوبہ، اس منصوبہ بندی کا انحصار ’بچے دو ہی اچھے‘ جیسی کسی تجویز نہیں تعویز پر ہوتا ہے

حقیقت یہ ہے کہ خاندان کی صحیح قدر و قیمت ہم ہی جانتے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ ہمارے دیس میں اہم ترین فیصلے کرتے ہوئے بھی دیکھا جاتا ہے کہ اپنے اہل وعیال کو ملال نہ ہو۔ یہاں انصاف کا دارومدار اس پر ہے کہ فیصلہ کرنے والے کی نصف بہتر کا دل کس کی طرف سے صاف ہے اور کس کی طرف سے میلا، سارا میلہ بس اتنی سی بات بتانے کے لیے لگتا ہے۔ اہلیہ کہہ دے تو نااہلی کا مقدمہ اپنی جگہ ہلتا جُلتا رہتا ہے ایک قدم آگے نہیں چلتا اور زوجہ جس فیصلے کے لیے ’ہوجا‘ کہہ دے تو آناًفاناً ہوجاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ ہمارے پورے نظام کو ہی ’فیملی کورٹ‘ کہنے لگے ہیں

بات اب بیوی بچوں سے بھی آگے ساس تک جاچکی ہے تاہم یہ آسانی ضرور ہوگئی ہے کہ کسی ساس کو فون کرکے اس کے دل کی بھڑاس نکلوائیں، آپ کو معلوم ہوجائے گا کہ داماد کا رجحان کیا ہے۔ ہمارے خیال میں جاننے کی اس کوشش کو سائنسی بنیادوں پر استوار کرکے جامعات میں سوشیالوجی کی طرح ساسیالوجی کا علم متعارف کروایا جاسکتا ہے۔ ہماری دعا ہے کہ ساس کو حواس پر سوار رکھنے کا سلسلہ آگے نہ بڑھے ورنہ تو ہم ’عزیز ہم وطنو اور ساسو ماں!‘ سے شروع ہونے والی تقریر سن رہے ہوں گے، خدانخواستہ۔

ہمارے ملک میں خاندانوں میں آپس کی محبت اور مروت کا یہ عالم ہے کہ اسے نظیر بناتے ہوئے ادارے بھی خود کو خاندان کہنے لگے ہیں۔ چند سال پہلے ہمارے ادارے نے اپنے وابستگان ہی نہیں سابقین کو بھی شامل کرتے ہوئے اپنے ’ایک خاندان‘ ہونے کا اعلان کردیا تھا جس پر ہم جیسوں کا فوری ردعمل تھا کہ ’چھوٹا خاندان، زندگی آسان‘ اور ’کنبہ چھوٹا رکھیے‘۔ ظاہر ہے یہ مشورہ خاندان نہیں عوام کی زندگی آسان بنانے کے لیے تھا۔ ممکن ہے اہلِ ادارہ کو خاندان قرار دینے کا خیال، سنگیت کے گھرانوں پٹیالہ گھرانے، آگرہ گھرانے، گوالیار گھرانے وغیرہ کو دیکھ کر آیا ہو۔ حالانکہ یہ گھرانے اپنے اپنے اندازِگائیکی کے باعث گھرانہ کہلاتے ہیں۔ اب طاؤس ورباب اور شمشیر و سناں کا آپس میں کیا تعلق؟

بہت سے حضرات کو نئے خاندان کا یہ خیال اتنا پسند آیا کہ ایک سیاست دان نے ادارے کے سربراہ کو قوم کا باپ قرار دے کر پوری قوم کو ایک ٹَبّر بنانے کی کوشش کی لیکن انہوں نے کچھ عرصے بعد ہی ولدیت کے خانے میں ہونے والی اس تبدیلی کو واپس لے لیا۔ البتہ ان کی جماعت قوم کو بن باپ کے نہیں دیکھنا چاہتی اس لیے جماعت کے سربراہ نے ایک اور ’چیف‘ کو ’تاحکم ثانی قوم کا باپ‘ قرار دے رکھا ہے

خاندانی روایت کی خوبصورتی نے ہماری سیاست کو جس طرح متاثر کیا اس کا ثبوت کراچی کے ’بھائی‘ ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ کراچی میں دوست کم اور بھائی بہت تھے اور ایک مشہور مصرعہ یوں پڑھا جاتا تھا، ہوئے تم ’بھائی‘ جس کے، دشمن اس کا آسماں کیوں ہو۔ یہ بھائی بیرونِ ملک بیٹھے ’بھائی‘ کی وجہ سے آپس میں مثالی بھائی چارہ قائم کیے ہوئے تھے۔ پھر ایک دن ان بھائیوں نے اپنے بڑے بھائی کے ساتھ برادرانِ یوسف والا رویہ اختیار کر لیا۔ بھائیوں کے اس خاندان میں ’کمائی‘ گھر کے بڑے کے ہاتھ پر رکھنے سے جائیداد کے لیے مقدمے بازی تک، وہ سب کچھ ہوا جو ہمارے ہاں بہت سے خاندانوں میں ہوتا ہے۔ ان دنوں کراچی کے یہ بھائی حالات کے ہاتھوں ایک مشہور فارسی مقولے والے ’برادرِخورد‘ بن چکے ہیں، وہ مقولہ ہمیں یاد نہیں آرہا

بھان متی کا کنبہ تو آپ نے سنا ہی ہوگا۔۔ ہماری سیاست میں ایک ’خان متی کا کنبہ‘ ہے جس میں بھانت بھانت کے اور لگ بھگ ہر سیاسی جماعت سے نکلے ہوئے لوگ جمع ہیں۔ خان متی کے کنبے کے افراد میں بس ایک ہی قدر مشترک ہے کہ وہ سب ’خان‘ کے مطیع اور فرماں بردار ہیں، اس رعایت سے انہیں بجا طور پر ’خاندان‘ کہا جا سکتا ہے۔

اب آپ ہی بتائیے خاندان سے ایسی وابستگی اور اتنا مضبوط تعلق رکھتے ہوئے بھلا ہمیں یوم خاندان منانے کی کیا ضرورت ہے؟ یہی وجہ ہے کہ ہم نے یوم خاندان نہیں منایا۔

بشکریہ: ڈان نیوز
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close