ابوالقاسم ’نمکین‘: وہ بدقسمت کردار، جس کی یادگار پر اس سے متعلق کچھ نہیں لکھا!

ابوبکر شیخ

زندگی کے دھارے پر وقت کی چلتی کشتی بہت ہی کم گھاٹوں پر رکتی ہے۔ گزرے وقتوں کے ان خشک دھاروں کے کناروں پر اگر ہم اپنا سفر کریں تو وہ وقت کی کشتی جہاں جہاں رکی، جہاں جہاں اس نے اپنے لنگر گرائے، جہاں جہاں اس کے شاندار بادبانوں نے آسمان پر بہتے بادلوں سے اٹھکھیلیاں کیں وہاں اس کے رکنے کی یادگاریں ملتی ہیں

اگر آج ہم اپنی کروڑوں نفوس پر مشتمل آبادی میں ان مقامات کو ڈھونڈیں تو بہت کم ایسے مقامات ہمیں ملیں گے جو برسوں سے اپنے وجود کو سنبھالے ہوئے ہیں اور آپ اگر ان کے گزرے زمانے کھنگالیں تو ان مقامات کے پاس آپ کو بتانے کے لیے بہت کچھ ہوتا ہے۔ اگر آپ کچھ جستجو کریں تو معلوم ہوگا کہ ان تاریخی مقامات پر انتہائی حیرت انگیز کہانیاں اور حقیقتیں آپس میں جڑی ہوئی ہیں جس کو آپ اپنی جستجو کی آنکھ سے پرکھ سکتے ہیں

ہم صبح کو خیرپور میرس پہنچے تھے۔ وہاں سے ایک لمبا راستہ طے کرکے پہاڑیوں کے اندر کالکاں دیوی کا مندر دیکھ کر راستے پر آئے اور اروڑ کی طرف روانہ ہوئے تو دن ڈھلنے کے قریب پہنچ چکا تھا

جب اتنا سفر کرلیا جائے تو پھر چائے کی طلب بڑھ جاتی ہے۔ راستے کے مشرق میں اروڑ کے قدیم آثاروں اور دریائے سندھ کے قدیم بہاؤ کے کنارے پر ایک ہوٹل نظر آہی گیا۔ ہوٹل کے چھپر سے دھواں نکلتا تھا اور چولہے پر المونیم کے برتن میں چائے بن رہی تھی۔ ہم جب گاڑی سے باہر آئے تو ہوٹل کے ساتھ کچی مٹی کے بنے چھوٹے سے ہال میں رنگین ٹی وی پر تیلگو کی ہندی ڈب فلم چل رہی تھی۔ دس بارہ نوجوان اور ادھیڑ عمر کے لوگ زمین پر بچھی دریوں پر اپنے گرد و پیش سے بے خبر بیٹھے تھے اور فلم میں غرق تھے

ہوٹل کے باہر سفید دودھ جیسی زمین پر ہمارے لیے دری بچھادی گئی۔ ہمارے مشرق میں پہاڑیوں کا سلسلہ تھا۔ کہتے ہیں کہ ایک زمانے میں شیر دریا یہاں سے بہتا تھا۔ پھر ہمیشہ کی طرح مشرق کا ساتھ چھوڑ کر مغرب کی طرف سرک گیا۔ دوسرے دریاؤں کا تو مجھے نہیں معلوم البتہ سندھو دریا نے اپنے راستے جب بھی تبدیل کیے ہیں وہ مشرق سے مغرب کی طرف ہی کیے ہیں۔ آدھے گھنٹے بعد جب ہم وہاں سے نکلے تو توانا تھے یا نہیں البتہ تازہ ضرور تھے کہ پہلے جو سب روکھا روکھا لگ رہا تھا اب وہ اچھا لگنے لگا تھا۔ اروڑ سے ہوتے ہوئے جب دریائے سندھ کے موجودہ بہاؤ کے جنوبی کنارے میر ابوالقاسم کی آخری آرام گاہ پہنچے تو وہاں پہنچنے سے پہلے ایک لوک کہانی ہماری منتظر تھی

میں جس بھی قدیم مقام پر گیا ہوں، وہاں اکثر ایک کہانی اپنے آپ کو بیان کرنے کے لیے منتظر ہوتی ہے۔ ان سب کہانیوں کے وجود میں کیفیت ایک جیسی ہوتی ہے کہ ان کے اندر ایک پُراسراریت بستی ہے اور پُراسراریت کی جڑیں کبھی زمین میں نہیں ہوتیں۔ وہ آپ کے ذہن کی زمین میں اگتی ہیں اور وہیں پر اپنے وجود کو جنم دیتی ہیں۔ آپ ان پر جتنی پُراسراریت کی کونپلوں کو جنم دے سکتے ہیں کہانی کی عمر اتنی ہی طویل ہوتی جائے گی۔ یہاں بھی سات بہنوں کی کہانی ہے جو آپ کو اس پہاڑی پر بنے اونچے مقام تک پہنچنے سے پہلے ایک سائن بورڈ پر پڑھنے کو مل جاتی ہے۔ یہ بالکل وہی کہانی ہے جو ہمیں ’ہنری کزنس‘ اپنی کتاب میں بتاتے ہیں

وہ لکھتے ہیں ’پہاڑی کو ہموار کرنے کے لیے اس کے گرد ایک دیوار چن دی گئی ہے اور دوسری بھی بہت سی تعمیرات کی گئی ہیں۔ جنوب کی طرف میں کچھ چھوٹے چھوٹے کمرے تعمیر کیے گئے ہیں جن کو ایک لمبے راستے سے ملا دیا گیا ہے۔ مگر پھر بھی پہاڑی کا کوئی حصہ کہیں کہیں نظر آجاتا ہے۔ ان میں مُجاور اور ان کے خاندان رہتے ہیں۔ دیواروں کے باہر والی طرف کو کاشی کی اینٹوں سے دیدہ زیب بنایا گیا ہے۔ یہاں ان کوٹھریوں سے متعلق روایت ہے کہ ان میں کبھی سات پاک دامن بہنیں رہتی تھیں اس لیے اس مقام کو ’سات ستیوں (پاک دامن) کا آستان‘ نام سے پکارا جاتا ہے۔ ان بہنوں نے اس خوف کی وجہ سے ان کوٹھڑیوں میں اپنے آپ کو مقید کرلیا کہ کسی غیر آدمی کی ان پر نظر نہ پڑے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ’قاسم شاہ کا آستان‘ یا ’قاسم شاہ سبزواری کا قبرستان‘ اس مقام کا درست نام ہوگا کیونکہ اس مقام کی جو چھت ہے وہاں اس کی قبر ہے جس پر 1018ھ کا سن تحریر ہے۔ یہ بڑی اہمیت کی حامل ہے کیونکہ یہ وہ اکیلی قبر ہے جس پر چراغ جلا کر رکھنے کی جگہ بھی بنی ہوئی ہے اور یہ میر ابوالقاسم کی آخری آرام گاہ ہے‘

کزنس کی یہ تحریر تقریباً ایک سو بیس برس پرانی ہے مگر اب بھی یہ کہانی اپنی جگہ کسی نہ کسی حالت میں موجود ہے۔ ان ناموں یعنی ’ستین جو تھان‘، ’ستین جو آستان‘، ’ستیاسر‘، ’کوہ ہفت دختر‘ کے گول دائرے میں یہ کہانی ابھی تک چکر کاٹتی ہے۔ ابوالقاسم نمکین کے گورستان کا نام ابھی تک اس کہانی نے روک رکھا ہے۔ یہ تاریخی مقام جن اداروں کے پاس ہے وہ بھی شاید یہ تکلیف اٹھانا نہیں چاہتے

میں نے جب ملتان سے آئے ہوئے ایک بزرگ سے پوچھا کہ وہ یہاں کیا دیکھنے آئے ہیں؟ تو انہوں نے بڑی شیریں زبان میں ان سات بہنوں کا ذکر کیا اور مجھ سے کہا کہ ’کیا ان پاک دامنوں کی آخری آرام گاہ دکھانے میں آپ میری کوئی مدد کرسکتے ہیں کہ یہاں کوئی کچھ نہیں بتا رہا‘

مطلب ایک سو بیس برس سے ہم اسی جگہ پر ہیں اور کچھ بھی نہ کرتے فقط بچارے ہینری کزنس کی بات مان لیتے تو کم سے کم یہ بزرگ ایک لوک کہانی نہیں بلکہ اس ابوالقاسم کی قبر دیکھنے آتے جو اپنے زمانے میں اکبر بادشاہ کا ایک بہادر گورنر تھا۔ خیر چلیے ہم میر ابوالقاسم سے متعلق کچھ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ جب اکبر کے زمانے میں سندھ دو بڑے حصوں ’بکھر‘ اور ’ننگر ٹھٹہ‘ میں بٹا تھا تب بکھر کی حدود سیہون تک تھیں اور سیہون کے بعد زیریں سندھ کی راجدھانی ننگر ٹھٹہ تھا۔ یہ سارے حقائق سولہویں صدی کے آنگن میں ظہور پذیر ہوئے تھے

میر ابوالقاسم کی حیات اور اس کے سندھ میں بسے خاندان پر سب سے زیادہ تحقیقاتی کام پیر حسام الدین راشدی صاحب نے کیا۔ راشدی صاحب کی تحقیق کے مطابق میر صاحب کے والد صاحب کا نام ملا میر سبزواری تھا جو بیجک کے گاؤں میں پیدا اور بڑے ہوئے مگر ملا میر ازبکوں کے فتنے کے سبب 1500ء سے 1510ء کے درمیان بیجک سے نقل مکانی کرکے قندھار آگئے۔ ازبکوں کا یہ فتنہ، محمد خان شیبانی کی حکومت میں آنے (906ھ) سے لے کر اس کے قتل ہونے (916ھ) تک برابر ایران میں برپا رہا اور قندھار ان برسوں میں شاہ بیگ ارغون کے والد امیر ذوالنون ارغون کی گورنری میں تھا

میر ابوالقاسم کی پیدائش سے متعلق کوئی معلومات میسر نہیں۔ ’ماثر الامرا‘ و ’ذخیرۃ الخوانین‘ کی تحریروں کے مطابق اکبر کا بھائی مرزا محمد حکیم جس وقت کابل کا گورنر تھا تب میر ابوالقاسم وہاں ملازم تھا۔ مرزا حکیم کو 1556ء میں ہمایوں نے کابل کا گورنر مقرر کیا اس وقت اس کی عمر دو برس تھی۔ (جنم: 1554ء، وفات: 16 جولائی1585ء)۔ میر ابوالقاسم 1572ء سے پہلے مرزا حکیم کی ملازمت چھوڑ کر لاہور آیا اور اکبر کے امیروں میں شامل ہوگیا

اکبر کے امیروں میں شامل ہونے پر راشدی صاحب تحریر کرتے ہیں کہ ’حقیقت میں طالع کی یاوری تھی جو اکبر کے پاس آکر پہنچا۔ آپ یہ سمجھیں کہ زمین سے اٹھ کر آسمان تک جاپہنچا، قابلیت اور کمال میر صاحب کی پہچان تھے، مگر اندر چھپے ہوئے ان جواہرات کو جِلا اکبر کے پاس آنے کے بعد ملی‘

کبھی کبھی اتفاق ایسے نپے تلے وقت پر ہوتے ہیں کہ ان کے نتائج ساری حیات ساتھ رہتے ہیں۔ میر ابوالقاسم کے نام کے ساتھ ’نمکین‘ کی صفت بھی ایسے اتفاق کا نتیجہ تھی جو آگے چل کر اس کی خاص پہچان بنی

اکبر نے پنجاب میں بھیرہ اور خوشاب ابوالقاسم کو جاگیر کے طور پر دیے۔ ان مقامات پر نمک کی کانیں تھیں جس کی وجہ سے ان علاقوں کو ’نکسر‘ کے نام سے بھی پکارا جاتا تھا اور ان نمک کی کانوں کی وجہ سے نمک کا بڑا بیوپار ہوتا تھا جس سے ابوالقاسم کو بڑا محصول وصول ہوتا تھا۔ میر صاحب نے اس نمک سے اکبر بادشاہ کے لیے نمک کا ایک پیالہ اور ایک رِکابی بنواکر بادشاہ کو بھیجی۔ ہمیں نہیں پتا کہ یہ بنواتے وقت اس کے ذہن میں کیا خیالات تھے۔ مگر جو بھی اس نے سوچا ہوگا وہ یقیناً عام سے تھوڑا الگ ہوگا۔ اس سے نمک حلالی کا بھی مطلب نکالا جاسکتا ہے۔ بہرحال جو بھی تھا، وقت کے مغل بادشاہ کو اس کے اس تحفے نے اتنا متاثر کیا کہ اسے ’نمکین‘ کا لقب دے دیا اور وہ لقب میر ابوالقاسم کے نام سے ایسا جڑا کہ اب اس کا نام نمکین کے بغیر مکمل ہی نہیں ہوپاتا

میں نے ساتھ آئے سلمان رشید سے پوچھا کہ ’اب بھی بھیرہ اور خوشاب میں نمک کی کانیں ہیں؟‘

جواب آیا کہ ’پہلے بھی نہیں تھیں اس لیے اب بھی نہیں ہیں‘

’تو اکبر بادشاہ نے جو میر ابوالقاسم کو جاگیر کے طور پر دیا تھا وہ کیا تھا، وہاں تو لکھا ہے کہ نمک کی کانیں تھیں‘

سلمان رشید کا ایک طویل اور نُقرئی قہقہہ آیا اور اس کے بعد جواب ملا کہ ’بھیرہ اور خوشاب میں نمک کی منڈیاں تھیں جہاں نمک آکر فروخت کیا جاتا تھا۔ وہ منڈیاں تو اکبر کے زمانے سے پہلے سے تھیں اور انگریز دور تک رہیں۔ نمک کا بڑا بیوپار ہوتا تھا۔ مگر اب وہاں کوئی منڈی نہیں ہے‘

وقت بہت کچھ بُنتا ہے اور وقت بہت کچھ ادھیڑ بھی دیتا ہے

اکبرنامہ میں میر نمکین کا ذکر ہمیں 1572ء سے پڑھنے کے لیے مل جاتا ہے اور 1574ء (اکبری انیسواں برس) میں ’نمکین‘ ہمیں بنگال میں داؤد خان کرانی کے خلاف معرکوں میں متحرک نظر آتا ہے

ابوالفضل کے مطابق ’داؤد خان نے جب بنگال میں خان خاناں اور توڈر مل سے شکست کھائی تو وہ سیدھا ’سات گام‘ جھاڑ کھنڈ کی طرف فرار ہوا اور جنید کرانی گجرات اور دکن سے ہوتا ہوا جھاڑکھنڈ پہنچا۔ خان خاناں نے جنید سے مقابلہ کرنا ضروری سمجھا اس لیے وہاں جو مہم بھیجی گئی ان میں راجا توڈر مل، قُبا خان، نظر بہادر، ابوالقاسم نمکین اور دوسرے بہادر شامل تھے‘

راشدی صاحب کے مطابق ’ابوالقاسم کی شخصیت ابوالفضل کی نگاہوں میں بھی اہم تھی، کیونکہ اگر ایسا نہ ہوتا تو اتنا بڑا مصنف راجا توڈر مل جیسے بہادر سپہ سالاروں کے ساتھ نمکین کا ذکر کبھی نہیں کرتا‘

بنگال اور اڑیسہ کے بیچ داؤد خان کے ساتھ جو خونریز جنگ ہوئی اس میں ابوالقاسم کو جنگ کے میدان میں میسرہ (دائیں) میں جنگ کرتے بتایا گیا ہے۔ اس جنگ میں شاہی لشکر کو 4 مارچ 1575ء کو کامیابی نصیب ہوئی مگر اس کامیاب جنگ کے اختتام پر ابوالقاسم کے ساتھ ایک واقعہ ہوا۔ اس کی رہائش سے ایک طلائی زنجیر برآمد ہوئی جو شاہی فیل خانے سے گُم ہوگئی تھی۔ اس سے میر صاحب کے مرتبے میں کمی ہوئی۔ اس اہم بات کا ذکر ہمیں ’اکبرنامہ‘، ’مآثر رحیمی‘ اور عبدالقادر بدایونی کی ’منتخب التواریخ‘ میں تو نہیں ملتا مگر ’ذخیرۃ الخوانین‘ اور ’مآثر الامرا‘ میں اس کو تحریر کیا گیا ہے

مگر جو بھی ہوا اس کے اثرات ہمیں چار پانچ برس تک نمکین پر پڑتے محسوس ہوتے ہیں۔ یعنی 982ھ سے 989ھ تک۔ کیونکہ 991ھ (1583ء، اٹھائیسواں اکبری سال) میں قتلو خان کی بغاوت میں، ابوالفضل نمکین کا ذکر کرتا ہے اور پھر 1586ء سے 1588ء تک ابوالقاسم ہمیں بلوچستان میں یوسف زئی قبیلے کی گوشمالی کرتا نظر آتا ہے۔ اسی برس یعنی 1588ء میں کالو خان افغان کی سرزنش کے لیے، میر ابوالقاسم کو مقرر کیا گیا۔ جب اکبر 1589ء میں کشمیر سے واپس آرہا تھا اور راستے میں خواجہ صندل کے مزار کے پاس منزل کی تو ابوالقاسم، کالو خان کو لے کر وہاں حاضر ہوا

ان دنوں سے متعلق جاننے کے لیے ہمیں میر ابوالقاسم نمکین کے بیٹے یوسف میرک کی کتاب ’تاریخ مظہر شاہجہانی‘ سے مدد لینی ہوگی

میرک تحریر کرتے ہیں کہ ’بکھر کا علاقہ جو خان خاناں عبدالرحیم کے پاس تھا وہ میرے والد کو جاگیر کے طور پر دیا گیا۔ اسی زمانے میں شاہی حکم کے تحت میرے والد نے سیوی پر چڑھائی کی‘

اکبرنامہ کے مطابق سیوی پر چڑھائی 1003ھ (1559ء) میں کی گئی جس میں میر معصوم بکھری، اُچ تیولدار سید بہاءالدین بخاری، سیہون کا جاگیردار بختیار بیگ اور ملتان کا لشکر نمکین کے ساتھ تھا۔ اسی برس ابوالقاسم کو جاگیرداری ملی۔ یہ وہی زمانہ ہے جب معصوم بھی بکھر میں تھا اور بکھر کے کچھ علاقے اس کو جاگیر کے طور پر ملے ہوئے تھے۔ ان علاقوں میں دربیلو، کاکڑی اور چانڈکو شامل تھے۔ جب 1003ھ میں میر نمکین کو یہ صوبہ جاگیر میں ملا تو اوپر والے علاقے اس کی جاگیر سے خارج سمجھنے چاہئیں

یوسف میرک کے مطابق جب میر صاحب کو سیہون صوبہ ملا تو ان دنوں میر صاحب بکھر میں جاگیردار تھے اور سیہون میں ان کا آنے کا زمانہ 1599ء سے 1600ء ہے۔ سیہون کا صوبہ ایک عرصے سے زبوں حالی کا شکار تھا اور انتظامی اور آمدنی کے حوالے سے تقریباً ویران ہوچکا تھا۔ میر ابوالقاسم نے آتے ہی اس کو بہتر کیفیت میں لانے کے لیے قدم اٹھانے شروع کیے۔ پرگنے کے سارے گاؤں، زمین اور زراعت کا سروے کروا کر تفصیلات تیار کروائیں اور پھر دورہ کرکے جو لوگ وہاں سے نقل مکانی کرگئے تھے ان کو واپس آکر اپنے گاؤں بسانے کا کہا اور ان کو رعایتیں دے کر زراعت کو پھر سے خوشحالی کی طرف لے جانے کے لیے قدم اٹھائے

راشدی صاحب اس حوالے سے تحریر کرتے ہیں کہ ’میر نمکین سندھ کو اپنا وطن بنا چکا تھا اس لیے یہاں کی زمین اور ان پر بسنے والے لوگوں سے اس کو محبت تھی، یہی اسباب تھے جو اکبر نے اس کو حالات بہتر کرنے کے لیے سیہون بھیجا تھا اور نمکین کی کوششوں سے وہ لوگ جو نقل مکانی کرگئے تھے وہ واپس اپنے پرانے مقامات پر لوٹ آئے۔ پھر قحط اور بدانتظامی کی وجہ سے جو لوٹ مار ہوتی تھی اس کو ختم کرنے کے لیے سرحدوں پر چوکیاں اور تھانے نئے سرے سے قائم کیے گئے‘

چونکہ میرک ان سارے حالات کا آنکھوں دیکھا شاہد تھا اس لیے اس کی تحریر کی بڑی اہمیت ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ’تجارتی قافلے جو بند ہوگئے تھے وہ امن بحالی کے بعد پھر سے متحرک ہوگئے۔ سیہون کے بازار میں پہاڑی علاقوں کے بیوپاری قافلوں کی آوت جاوت بڑے پیمانے پر ہونے لگی تھی۔ دستور یہ تھا کہ پہاڑی علاقے کے قافلے اپنے علاقے کی اشیا سیہون کے بازاروں میں آکر فروخت کرتے اور وہاں سے اناج خرید کر اپنے علاقوں کو لوٹتے تھے۔ کوئی کوئی قافلہ تو تین سے چار ہزار اونٹوں پر مشتمل بھی ہوتا تھا

’میر صاحب، مرکز سے ملی ہدایات کے مطابق مرزا غازی بیگ کو لے کر سعید خان کے ساتھ 1604ء میں بادشاہ کے دربار میں پہنچے تو ان دنوں میر نمکین سیہون میں ہی تھے۔ دربار میں پہنچنے کے بعد ابوالقاسم کے لیے قندھار کی صوبیداری دی اور بکھر، سیوی اور سیہون کے علاقے اس کی جاگیر کے لیے دیے۔ مگر ان دیے گئے احکامات پر ابھی عمل نہیں ہوا تھا کہ 25 اکتوبر 1605ء میں اکبر کا انتقال ہوگیا اور دربار کے سارے کام کاج ٹھپ پڑگئے۔ تخت پر جہانگیر بیٹھا اور نمکین کو پہلے دیے گئے حکم کو منسوخ کرکے نیا حکم جاری کیا گیا۔‘

میرک کے مطابق ’جہانگیر کے نئے حکم کے تحت، توختہ بیگ کو سردار خان کا خطاب دے کر کابل سے بدلی کرکے قندھار میں مقرر کیا گیا اور سبی، بکھر اور سیہون بھی اس کے حوالے کیے گئے اور میر ابوالقاسم کو، خاص مہم پر جلال آباد بھیجنے کا حکم ہوا اور ساتھ میں گجرات پنجاب کی ذمہ داری بھی دی گئی‘

میر نمکین 1014ھ کے گیارہویں مہینے میں آگرے سے نکل کر گجرات، پنجاب پہنچا اور انتظامات میں مصروف ہوگیا اور ابھی جلال آباد کے لیے روانہ نہیں ہوا تھا کہ جہانگیر کے بڑے بیٹے خسرو نے بغاوت کی (جو پہلی بیگم من بھاوتی بائی شاہ بیگم کا بیٹا تھا جس کو بعد میں شاہجہان کے کہنے پر قتل کردیا گیا تھا) اور بھاگتے ہوئے گجرات کے قریب چناب کے بہاؤ کو پار کیا۔ یہ اتوار کا دن اور 24 محرم 1015ھ کا دن تھا جب چناب پار کرتے ہوئے ابوالقاسم نے خسرو کو ساتھیوں سمیت گرفتار کیا۔ اس گرفتاری سے جہانگیر بہت خوش ہوا اور اس کے منصب میں اضافہ کیا

مآثر رحیمی کے مطابق ’نمکین کو بکھر کا صوبہ جاگیر کے طور پر دیا گیا اور پہلے ملے ہوئے حکم کے تحت وہ جلال آباد روانہ ہوا‘

راشدی صاحب کے مطابق ’یہ روانگی رجب کے مہینے میں ہوئی ہوگی اور قندھار فتح ہونے کی خبر بادشاہ کو لاہور میں 22 ذوالقعد 1015ھ (منگل 21 مارچ 1607ء) کو ملی۔ بادشاہ نے اس سال کے آخر میں کابل کی طرف کوچ کیا اور جب 28 محرم 1016ھ (جمعہ 25 مئی 1607ء) کو بادشاہ درہ خیبر کے نزدیک علی مسجد کے قریب منزل انداز ہوا تو اس وقت ابوالقاسم، جلال آباد سے لوٹتے بادشاہ کو سلام کرنے گیا‘

یوسف میرک کے مطابق ’میر صاحب شوال 1016ھ (جنوری 1608ء) سے رجب 1017ھ (اکتوبر 1608ء) سیہون میں رہے۔ میر ابوالقاسم چھے برس تک سیہون میں رہے اور جس طرح روہڑی میں دریا کنارے صفہ صفا کی تعمیر کروائی بالکل اسی طرح سیہون میں بھی یک تھنبی پہاڑی پر صفہ وفا کا تھڑا قائم کیا جہاں چاندنی راتوں میں ادب کا ذوق رکھنے والے اپنے دوستوں کے ساتھ محفل جماتے اور اپنے باغوں کے شیریں خربوزوں سے مہمانوں کی تواضع کرتے اور خود بھی بے تحاشا کھاتے۔ میر صاحب ابھی سیہون میں تھے تو 14 رجب 1017ھ میں بادشاہ کا حکم پہنچا کہ وہ مرزا غازی بیگ جو بکھر میں ہیں ان کے ساتھ مل کر قندھار کے لیے روانہ ہوجائیں‘

میرک کے مطابق ’والد صاحب ایک برس تک قندھار میں رہے اور پھر مرزا سے اجازت لے کر بکھر کے لیے روانہ ہوئے تو راستے میں سانس کی ڈوری نے بے وفائی کردی‘

1572 سے 1605ء تک پورے چونتیس برس میر نمکین نے اکبر کے پاس ملازمت کی۔ اکبر نے اس کو ’نمکین‘ کے علاوہ ’خان‘ کا خطاب بھی دیا تھا جب وہ بکھر میں تھا

ابوالقاسم پانچ برس تک جہانگیر کے پاس بھی رہا۔ وہ انتالیس برس کی تگ و دو کے بعد بکھر میں اپنے بنائے ہوئے صفہ صفا پر ابدی آرام گاہ پہنچے

راشدی صاحب لکھتے ہیں کہ ’میر نمکین جیسے اکبری امیروں میں شامل ہوا تب سے ایسا لگتا ہے کہ اس نے سندھ میں مستقل رہائش اختیار کرنے کا سوچ لیا تھا

مآثر الامرا کے مطابق ’میر صاحب کو بکھر بے حد پسند تھا، یہاں پر ہی اس نے مختلف عمارتیں بنوائیں اور اس کے نواح میں ہی اس نے باغات رکھوائے۔ آخری آرام گاہ بھی اسے اس نشست گاہ پر نصیب ہوئی جہاں وہ اپنی حیات میں چاندنی راتوں میں مجالس آراستہ کرتا تھا۔ اس کے رشتہ دار اور اولاد بھی بکھر میں ہی رہے جو سادات قاسم خان کے حوالے سے پہچانے جاتے‘

میر صاحب کی اولادوں سے متعلق ہمیں فقط اتنا معلوم ہوا کہ ان کی کئی اولادیں تھیں مگر تاریخ کے صفحات میں ہمیں ان کے چھے بیٹوں کے نام ملتے ہیں جن میں میر ابوالبقا امیر خان اور میرک یوسف اہم ہیں۔ اگر آپ دریائے سندھ کے بہاؤ کے جنوبی کنارے پر میر ابوالقاسم نمکین کے پہاڑی پر بنائے ہوئے صفہ صفا پر کھڑے ہیں اور شام کا وقت ہے تو آپ کو وہاں بے تحاشا لوگ ملیں گے۔ یہی وہ تھڑا ہے جس پر میر ابوالقاسم چاندنی راتوں میں اپنے دوستوں کے ساتھ محفل سجایا کرتے تھے۔ خوراک کے حوالے سے وہ اپنے زمانے کے بڑے مشہور انسان تھے۔ خاص کر میوہ جات سے ان کو بڑی رغبت رہی۔ کچھ لوگ ایسے ہی ہوتے ہیں کہ وہ جو بھی کام کرتے ہیں بڑی رغبت سے کرتے ہیں۔ میر نے اپنی حیات میں ہر کام اسی طبیعت سے کیا۔ کہتے ہیں کہ وہ ایک وقت میں کئی کلو آم، سیب اور تربوز کھا جایا کرتے تھے۔ البتہ طبیعت کے کچھ سخت ضرور تھے

میں یہاں صفہ صفا کے گورستان کا نقشہ پیش کر رہا ہوں جہاں آپ کو اس خاندان کی قبریں ملیں گی۔ میر ابوالقاسم نمکین کے علاوہ اس کے بڑے بیٹے میر ابوالبقا کی بھی گور ہے۔ مگر یوسف میرک کی قبر یہاں نہیں ملے گی کہ اس کی گور سے متعلق ابھی تحقیق باقی ہے

صفہ صفا روہڑی میں ایسی جگہ پر ہے کہ آپ جس وقت اور جس موسم میں بھی جائیں وہاں آپ کو ایک قسم کا سکون ملے گا کہ ایک طرف پُرسکون دریا کا بہاؤ ہے۔ سامنے اس پر بنا پُل ہے مگر یہاں تقریباً لوگوں کو پتا نہیں کہ وہ ابوالقاسم نمکین کے گورستان پر آئے ہیں جس کی جڑیں سبزوار میں تھیں مگر جب وقت نے پلٹا کھایا تو سارا ہندوستان پڑا ہوا تھا مگر اس کو سندھو کے شیریں پانی اور کناروں نے آواز دی اور وہ یہاں آیا تو یہاں کا ہوکر رہ گیا

اگر آپ اس کے فرزند میرک یوسف کی تصنیف تاریخ مظہر شاہجہانی کا مطالعہ کریں تو آپ کو اندازہ ہوجائے گا کہ نمکین نے یہاں کے لوگوں پر مغل سلطنت کے گورنروں کے مظالم کی جو تاریخ تحریر کی ہے وہ ایک حیرت انگیز تحریر ہے۔ اس سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ اس خاندان نے خود کو اس دھرتی کی اولاد ہی سمجھا

صفہ صفا کے اور بہت سے پہلو ہیں جن کا ایک تحریر میں احاطہ ممکن نہیں کیونکہ اس کے اطراف میں اور بھی ایسے تاریخی اور اہم مقامات ہیں جن کو تفصیل سے تحریر کے دائرے میں لانا لازمی ہے۔ مگر ہم یہ سفر اس بات پر ختم کرتے ہیں کہ جب آپ اس مقام پر آتے ہیں تو بورڈ پر اس سے متعلق ایک کہانی تو لکھی مل جاتی ہے، مگر اس مقام کی جو اصل اہمیت ہے اس سے متعلق آپ کو ایک لفظ تک پڑھنے کو نہیں ملتا اور نہ وہاں کوئی بتانے والا ہے

حکومتِ سندھ کے پاس تو بڑے بڑے ادارے ہیں مگر اس کے باوجود یہاں حقیقت پر مبنی سائن بورڈ لگانے سے متعلق کوئی سوچنے کو تیار نہیں۔ یہ کتنے کمال کی بات ہے کہ ہمارے کانوں تک نہ بچارے ہنری کزنس اور نہ پیر حسام الدین راشدی کی چیخ و پکار پہنچی ہے کہ یہ سات ستیوں کا آستھان یا ستیاسر نہیں ہے بلکہ یہ ابوالقاسم نمکین کا گورستان ہے جنہوں نے سکھر روہڑی کو اپنا وطن سمجھا اور اب یہاں ابدی نیند سوتے ہیں۔

حوالہ جات:
’تذکرہ امیر خانی‘۔ سیدحسام الدین راشدی۔2005ء۔ سندھی ادبی بورڈ، حیدرآباد
’مآثر رحیمی‘۔ عبدالباقی نہاوندی۔2018ء۔ الفیصل ناشران، لاہور
’سندھو گھاٹی اور سمندر‘۔ ابوبکرشیخ۔ 2022ء۔ سنگ میل پبلیکیشنز، لاہور
’تاریخ مظہر شاہجہانی‘۔ یوسف میرک۔1994ء۔ سندھی ادبی بورڈ، حیدرآباد
’سندھ جا قدیم آثار‘۔ ہینری کزنس۔ 2004ء۔ سندھی ادبی بورڈ، حیدرآباد
’منتخب التواریخ‘۔مُلا عبدالقادر بدایونی۔ شیخ غلام علی اینڈ سنز پبلشرز، لاہور
’اکبرنامہ‘۔ ابوالفضل۔مترجم: مولوی مرزا جان۔ 1925ء، دہلی
’مآثر الامراء‘۔ شاہنواز خان۔مترجم: محمد ایوب قادری۔ 1970ء۔ مرکزی اردو بورڈ، لاہور

بشکریہ: ڈان نیوز و مصنف

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close