برین چِپ: جس سے اب تیز تر اور سستے ’سُپر وکیل‘ دستیاب ہوں گے

ویب ڈیسک

برطانیہ میں وکلا کی پیشہ ورانہ تنظیم ’لا سوسائٹی‘ کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وکیلوں کے دماغ میں ایک کمپیوٹر چِپ لگائی جا سکے گی، جس سے کیس کے اخراجات کم ہو سکتے ہیں اور پیچیدہ مقدمات کے حل کے لیے وکیل بھی کم تعداد میں درکار ہوں گے

تنظیم کا ماننا ہے کہ شعبۂ قانون میں یہ ایک انقلابی قدم ہوگا

’نیوروٹیکنالوجی، لا اینڈ دا لیگل پروفیشن‘ نامی یہ رپورٹ لا سوسائٹی آف انگلینڈ اینڈ ویلز کی درخواست پر ڈاکٹر ایلن میککے نے مرتب کی ہے

آسٹریلیا کی یونیورسٹی آف سڈنی کے لا اسکول سے وابستہ ڈاکٹر میککے نے اس رپورٹ میں لیگل پروفیشن یا قانون کے شعبے میں مصنوعی ذہانت کے استعمال سے ہونے والے ممکنہ فوائد پر روشنی ڈالی ہے

وکیلوں کے لیے نیوروٹیکنالوجی متعارف کروانے کے حامیوں کا کہنا ہے ”کارپوریٹ کلائنٹس یا کاروباری موکل ایسی چِپ لگائے جانے پر یہ کہہ کر زور دیں گے کہ یہ کارکردگی بہتر بناتی ہے“

اہم بات یہ ہے کہ اس ٹیکنالوجی کا اثر وکلاء کی بھاری فیسوں پر بھی پڑے گا۔ اس کے نتیجے میں وکلا کو، جو ڈیڑھ ہزار پاؤنڈ فی گھنٹے کے حساب سے فیس لیتے ہیں، اپنی فیس ’بِل ایبل یونٹس آف اٹینشن‘ کے حساب سے لینی ہوگی، یعنی انہوں نے کسی کیس پر کام کرنے یا اس کے بارے میں غور کرنے پر حقیقی معنوں میں کتنا وقت صرف کیا ہے

آسان الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہے کہ انہیں فیس کی ادائیگی گھڑی میں وقت کے بجائے دماغ سے جڑے ایک میٹر کے مطابق کی جائے گی

انگلینڈ اور ویلز میں وکیلوں کے پیشہ ورانہ امور کی ذمہ دار لا سوسائٹی نے حال ہی میں شائع ہونے والی اس رپورٹ میں کہا ہے ”ایسی دماغی چِپ یا اِمپلانٹ قانونی شعبے کے لیے ’مستقبل کا آئی فون‘ ہوگا“

اس نیوروٹیکنالوجی کے بعد پیچیدہ مقدمات نمٹانے کے لیے وکیلوں کی بڑی ٹیم کی ضرورت نہیں رہے گی، بلکہ ایک چِپ کا حامل ’سُپر وکیل‘ ہزاروں دستاویزات اور مقدمے کے مختلف پہلوؤں سے متعلق تفصیلات کو بہت کم میں وقت کھنگال کر اس کے اہم نکات اور دلائل مرتب کر سکے گا

گھنٹے کے حساب سے وکیلوں کی فیس ایک دیرینہ مسئلہ رہا ہے۔ اگرچہ ملٹی نیشنل کمپنیاں وکلیوں کی بھاری فیس کو کاروبار کا حصہ سمجھ کر برداشت کر لیتی ہیں لیکن ٹیکنالوجی کی مدد سے قانونی اخراجات میں کمی ان کمپنیوں کے لیے یقیناً پُرکشش ہوگی

لا سوسائٹی کا کہنا ہے کہ وکیل ایک دوسرے کے مقابلے میں بہتر خدمات پیش کرنے اور اپنے مدِ مقابل پر فوقیت حاصل کرنے کے لیے نیوروٹیکنالوجی استعمال کر کے مصنوعی ذہانت سے فائدہ اٹھانا چاہیں گے

رپورٹ میں کہا گیا ہے ”نئی ٹیکنالوجی اپنانے کے لیے دباؤ مؤکلوں کی طرف سے پڑے گا۔ انسان ان تبدیلوں کا تصور کر سکتا ہے، جو دھیان یا توجہ کا حساب رکھنے کی اہل ٹیکنالوجی لا سکتی ہے۔ اس طرح فی گھنٹہ فیس کے بدلے فی دورانیۂ توجہ فیس چارج ہوگی“

ڈاکٹر میککے کہتے ہیں ”دنیا کے امیر ترین آدمی ایلن مسک گذشتہ آٹھ برس سے نیوروٹیکلنالوجی میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔ یہ ٹیکنالوجی آ رہی ہے، ہمیں اس کے قواعد و ضوابط کے بارے میں سوچنا ہے“

اس حوالے سے وکیل اور مصنف رچرڈ سسکائنڈ کہتے ہیں ”مصنوعی ذہانت کا استعمال تیزی سے بڑھے گا، اور بعض آے آئی (آرٹیفیشل انٹیلیجنس) سسٹم تو پہلے ہی بعض کاموں میں جونیئر وکیلوں پر سبقت حاصل کر چکے ہیں، مثال کے طور پر کاغذات کی جانچ پڑتا وغیرہ“

انہوں نے کہا ”آگے چل کر تو ہم سب کی ڈجیٹل کارکردگی میں اضافہ ہوگا۔ سوال صرف یہ ہے کہ یہ پروسِسنگ اور اسٹوریج ہمارے جسم کے اندر ہوگی یا باہر“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close