اپنے دوستوں سے ایک سوال پوچھ کر دیکھیے کہ وہ کیسا محسوس کرتے ہیں، ایک بڑی اکثریت کا جواب ہوگا ’ہم تھک گئے ہیں۔‘
جی ہاں، ہمارا تعلق ایک ایسی دنیا سے ہے، جہاں زیادہ سے زیادہ حاصل کرنے کی خواہش کے ساتھ انسانوں میں مصروفیات میں اضافہ ہو رہا ہے، لیکن ایک چیز ایسی بھی ہے، جو مسلسل گَھٹتی جا رہی ہے: اور وہ ہے ہماری نیند کا دورانیہ
دنیا بھر میں نیند کی کمی پر تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ اس کے اثرات ہمہ جہت ہیں۔اس سے ہماری جسمانی، ذہنی اور جذباتی صحت تو متاثر ہوتی ہی ہے، لیکن جس چیز کے لیے یہ ساری دوڑ دھوپ کر کے ہم اپنی نیند گنوا رہے ہیں، یعنی پیسہ، حیران کن طور پر اس کا بھی نقصان ہو رہا ہے
اس کا اندازہ ایک تحقیق کے نتائج سے لگایا جا سکتا ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ نیند کی کمی سے امریکی معیشت کو سالانہ چار ٹریلین ڈالر کا نقصان ہوتا ہے!
اس ضمن میں اہم سوال یہ ہے کہ تھکاوٹ کا ہماری نیند سے کتنا گہرا تعلق ہے اور کیا انسان بغیر نیند کے بھی تروتازہ رہ سکتا ہے؟
اس بارے میں یونیورسٹی آف ٹورنٹو کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈیوڈ سیمسن کہتے ہیں ”تقریباً سات ماہ تک میں رات کو جاگ کر کام کرتا تھا۔ ایک گریجویٹ طالب علم کے طور پر، اگر آپ اپنا کام مکمل کرنا چاہتے ہیں تو آپ کے پاس جذبہ ہونا چاہیے“
یوں ڈیوڈ سیمسن کی نیند اس وقت ختم ہو گئی تھی جب وہ طالب علم تھے۔ اب ایک ماہر حیاتیات کے طور پر، وہ دور دراز علاقوں میں بہت سفر کرتے ہیں۔ انہوں نے اورنگوٹین کو سوتے ہوئے دیکھنے کے لیے تقریباً دو ہزار گھنٹے کی وڈیو گرافی کا تجزیہ کیا، کیونکہ ڈیوڈ ارتقا اور نیند کے درمیان تعلق کو سمجھنا چاہتے تھے
اورنگوٹین نو سے سولہ گھنٹے سوتے ہیں۔ ڈیوڈ سیمسن نے اس کی بنیاد پر ایک ماڈل تیار کیا اور اندازہ لگایا کہ انسانوں سے کتنے گھنٹے کی نیند کی توقع کی جا سکتی ہے
ڈیوڈ سیمسن کہتے ہیں ”انسانوں کو چوبیس گھنٹوں میں 10.3 گھنٹے سونا چاہیے۔ یقیناً ہم ایسا نہیں کرتے، ہمیں اوسطاً چھ یا سات گھنٹے کی نیند آتی ہے“
ڈیوڈ بتاتے ہیں ”گہری نیند بہت فائدہ مند ہے۔ یہ یادداشت کو بہتر بناتی ہے اور جذبات کو کنٹرول کرنے میں مدد کرتی ہے“
مختصر یہ کہ انسان بڑے بندروں کے مقابلے میں کم سوتے ہیں، لیکن اس سے کہیں زیادہ گہری نیند سوتے ہیں
ڈیوڈ سیمسن کی تحقیق کے مطابق یہ تبدیلی اٹھارہ لاکھ سال پہلے ہوئی تھی، جب جھونپڑی اور آگ کی دریافت نے بہتر نیند میں مدد کی
کم وقت سونے کا مطلب ہے کہ ہمارے پاس دوسرے کام کرنے کے لیے زیادہ وقت ہے
ڈیوڈ سیمسن نے ہمارے آباؤ اجداد کی نیند کے نمونوں کو سمجھنے کے لیے Fitbit نامی مانیٹر استعمال کیا۔ یہ تنزانیہ کے ایک قبیلے کی کلائی پر باندھا گیا تھا
ڈیوڈ سیمسن بتاتے ہیں ”وہ رات میں چھ یا ساڑھے چھ گھنٹے سوتے ہیں۔ وہ دن میں کچھ دیر سوتے ہیں۔ اس لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ ان میں سے زیادہ تر چوبیس گھنٹے کے دوران سات گھنٹے تک سوتے ہیں“
ڈیوڈ سیمسن نے تنزانیہ میں رہنے والوں سے پوچھا کہ کیا انہیں نیند کی کمی کا کوئی مسئلہ ہے تو جواب تھا ’نہیں۔‘
ڈیوڈ نے مڈغاسکر کے کسانوں پر بھی نظر رکھی۔ ان میں سے اکثر کو صرف سات گھنٹے کی نیند مل رہی تھی
ڈیوڈ بتاتے ہیں ”مڈغاسکر کے کسان ٹائم ٹیبل پر سختی سے عمل کرتے ہیں۔ وہ ایک خاص وقت پر اٹھتے ہیں، مقررہ اوقات میں کام کرتے ہیں اور مقررہ وقت پر سو جاتے ہیں“
دوسری طرف تنزانیہ کے قبائلی عوام کا نقطہ نظر مختلف ہے
ڈیوڈ سیمسن بتاتے ہیں ”ان کی زندگی میں زیادہ لچک ہے۔ خاص طور پر کام کے وقت کے ساتھ۔ کسی نہ کسی طرح اس کا تعلق اس حقیقت سے بھی ہے کہ ان کو نیند کے مسائل نہیں ہوتے جبکہ وہ زیادہ نہیں سوتے“
راجر ایکرک تاریخ کے پروفیسر ہیں۔ 1980ع کی دہائی کے وسط میں وہ صنعتی دور سے پہلے رات کی زندگی پر ایک کتاب لکھ رہے تھے۔ یہ وہ وقت تھا، جب بجلی نہیں تھی
ہر کسی کی طرح، راجر نے بھی یقین کیا کہ انسان ہمیشہ اسی طرح سوتے ہیں، جس طرح ہم اب سوتے ہیں۔ یعنی وہ ایک ہی وقت میں نیند پوری کر لیتے ہیں لیکن مطالعے کے دوران مختلف معلومات سامنے آئیں
راجر ایکرک بتاتے ہیں ”مجھے پہلی نیند، یعنی نیند کے پہلے دور کے بارے میں معلومات ملنا شروع ہوئیں۔ اس کا تذکرہ اس طرح ہوا جیسے یہ ایک عام سی بات ہو۔ اس کے بعد دوسری جھپکی کی بات سامنے آئی۔ اہم بات یہ تھی کہ لوگ آدھی رات کے بعد سو رہے تھے“
راجر ایکرک نے اس بارے میں جتنی زیادہ تحقیق کی، اتنی ہی زیادہ معلومات حصوں میں لی گئی نیند سے متعلق پائی گئیں۔ وہ بتاتے ہیں ”چارلس ڈکنز سے لے کر ٹالسٹائی تک یورپ کے تقریباً ہر بڑے ناول نگار نے نیند کے اس انداز کا ذکر کیا ہے“
”پہلی اور دوسری نیند کے درمیان لوگ جو کچھ کرتے تھے، وہ سب سے زیادہ دلچسپی پیدا کرنے والی چیز تھی“
راجر ایکرک کہتے ہیں ”کچھ لوگوں کے لیے یہ مراقبہ کرنے کا صحیح وقت تھا۔ وہ ان خوابوں کے بارے میں سوچیں گے جو انہوں نے حال ہی میں دیکھے تھے۔ ان کے پاس کبھی ایسا وقت نہیں تھا، جہاں اتنی خاموشی ہو“
اسے سولہویں صدی کے فرانسیسی معالج کے الفاظ میں بیان کریں تو یہ وقت جوڑوں کے لیے بہت بہتر تجربہ حاصل کرنے کا وقت تھا
خوش رہنا اچھی چیز ہے، لیکن کیا اس وقت بھی لوگ تھکاوٹ محسوس کرتے تھے؟ اس سوال پر راجر ایکرک کا کہنا ہے ”ہاں، وہ تھکاوٹ محسوس کرتے تھے، اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ وہ دو حصوں میں سوتے تھے، جس کی وجہ سے کافی نیند نہیں آتی“
انیسویں صدی سے نیند سے متعلق حالات میں بہتری آئی اور یہاں سے دو مرحلوں میں سونے کی عادت تبدیل ہونے لگی۔ صنعتی انقلاب کے ساتھ وقت پیسے کی طرح قیمتی ہو گیا۔ کام کی کارکردگی اور پیداواری صلاحیت کو بہت اہمیت دی گئی۔ جلدی اٹھنے کی مہم بھی چلائی گئی
جو لوگ نئے طریقہ کار کے مخالف تھے، انہوں نے لندن میں 1851ع کی نمائش میں اس کا حل تلاش کیا
راجر ایکرک بتاتے ہیں ”ایک الارم بستر سے جلدی اٹھنے والوں کے لیے بنایا گیا تھا۔ گھنٹی بجنے کے بعد، اس کا اگلا حصہ نیچے گر جاتا تھا۔ اس طرح سوئے ہوئے شخص کے پاؤں بستر سے گر جاتے تھے۔ بستر کے نیچے ٹھنڈے پانی کا ایک ٹب ہوتا تاکہ نیند سے جلدی جاگا جا سکے“
یہ واحد تکنیک نہیں تھی۔ صنعتی ترقی کے ساتھ نیند سے نمٹنے کے لیے مصنوعی روشنی جیسی بہت سی چیزیں سامنے آئیں
یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کے پروفیسر میتھیو واکر کا کہنا ہے ”میں یہ کہوں گا کہ اگر لوگ میری باتیں سنتے ہوئے سو جائیں یا اونگھتے رہیں تو میں غصہ نہیں کروں گا“
پروفیسر میتھیو واکر نیند کے بارے میں تقریباً سب کچھ جانتے ہیں۔ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ نیند کے انداز کیسے بدل گئے
وہ بتاتے ہیں ”1940ع کی دہائی میں، لوگ ہر رات اوسطاً آٹھ گھنٹے سے کچھ زیادہ سوتے تھے۔ آج کے جدید دور میں ہماری نیند کم ہو کر 6.7 یا 6.8 گھنٹے فی رات رہ گئی ہے۔ ستر سالوں کے دوران اس میں حیران کن کمی آئی۔ ہم اس مرحلے پر ہیں، جہاں نیند میں تقریباً بیس فی صد کمی آئی ہے“
آج کی جدید دنیا میں بہت کچھ ایسا ہے، جس کی وجہ سے نیند کم ہو رہی ہے۔ کیفین ہمیں بیدار رکھتی ہے، شراب خوابوں کو روکتی ہے
اگرچہ نیند کے لیے درکار وسائل بہتر ہوئے ہیں، جیسا کہ بہتر گدے، دھوئیں سے پاک گھر، لیکن ایسا لگتا ہے کہ ماحول کو کنٹرول کرنے سے مسائل میں بھی اضافہ ہوا ہے
میتھیو واکر کہتے ہیں ”اس مسئلے کی ایک وجہ سینٹرل ہیٹنگ اور سینٹرل ایئر کنڈیشننگ ہے۔ جب سورج غروب ہوتا ہے تو درجہ حرارت گر جاتا ہے۔ جب سورج نکلتا ہے تو درجہ حرارت بڑھنے لگتا ہے۔ جسم درجہ حرارت میں اس تبدیلی کو محسوس کرنا چاہتا ہے۔ لیکن ہم نے خود کو قدرتی سگنل سے دور کر لیا ہے جو ہمیں بتاتا ہے کہ سونے کا وقت کب ہے“
اس کے علاوہ ٹیکنالوجی کا اثر بھی ہے۔ مصنوعی روشنیاں اور ایل ای ڈی اسکرینیں، جن سے نیلی روشنی نکلتی ہے، نیند متاثر کرتی ہیں
میتھیو بتاتے ہیں ”یہ نیلی روشنی رات کے وقت میلاٹونن نامی پروٹین کے اخراج کو روکتی ہے۔ یہ ہارمون اشارہ کرتا ہے کہ آپ کو کب سو جانا چاہیے۔ اس کے علاوہ معاشی اور سماجی دباؤ بھی ہے کہ ہم زیادہ کام کریں اور کم وقت سوئیں“
پروفیسر واکر کا کہنا ہے کہ سات گھنٹے سے کم سونے کا اثر صحت پر نظر آتا ہے
وہ بتاتے ہیں ”ہر بڑی بیماری جو ترقی یافتہ دنیا میں ہمیں مار رہی ہے، چاہے وہ کینسر ہو، موٹاپا، ذیابیطس، بے چینی، ڈپریشن، خودکشی کا رجحان، سب کا نیند کی کمی سے براہ راست اور مضبوط تعلق ہے“
میتھیو واکر کہتے ہیں ”اگر آپ لوگوں کا سروے کریں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ تقریباً 65 فی صد لوگ زیادہ سونا چاہتے ہیں“
1980ع کی دہائی میں تقریباً 30 فی صد لوگ ایسا کہتے تھے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس زمانے میں لوگ آج کے مقابلے میں زیادہ سوتے تھے
اس سوال پر کہ نیند کا لمبی عمر سے کیا تعلق ہے؟ مصنف جیسا گیمبل کہتی ہیں، یہ زیادہ جینے کے بارے میں ہے
ایک ایسے وقت میں، جب نیند اور خواب غائب ہو رہے ہیں، وہ خواب دیکھتی ہیں کہ ایک دن انسانوں کو سونے کی ضرورت نہیں رہے گی۔ یہ بات انہوں نے سب سے پہلے نینسی کرس کی کتاب پڑھتے ہوئے سوچی
جیسا گیمبل بتاتی ہیں ”انہوں نے ایک ایسی دنیا بنائی، جہاں وہ لوگ جن کو نیند کی ضرورت تھی، وہ نچلے طبقے سے تھے اور ان لوگوں کی حکمرانی تھی جنہوں نے اپنے جین تبدیل کیے اور انہیں سونے کی ضرورت نہیں تھی۔۔ ایک طویل عرصے کے بعد میں نے محسوس کرنا شروع کیا کہ ایسے لوگ ہیں جو حقیقت میں ایسا مقام حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں“
جیسا گیمبل نے اس بارے میں معلومات حاصل کرنے کی کوششیں شروع کر دیں کہ اس مقصد کے حصول کے لیے سائنسدان کیا کر رہے ہیں
امریکی فوج طویل عرصے سے نیند کو دور رکھنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس کے لیے نیند کو کم کرنے والی ادویات، جیسے کیفین اور دیگر ادویات کا استعمال کیا جاتا ہے
تاہم اگر ہم کم وقت سونا چاہتے ہیں تو ہمیں اچھی نیند لینا ہوگی۔ اس سلسلے میں کچھ تحقیق ہوئی ہے، جس میں لوگوں کو جلد از جلد گہری نیند کی حالت میں لانے پر توجہ دی گئی ہے
آپ کی دادی بتا سکتی ہیں کہ اگر آپ کا چہرہ اور ہاتھ گرم ہوں گے تو نیند جلد آئے گی، لیکن ایک ایسی چیز ہے، جو آپ کی دادی نہیں بتا سکتیں
ان میں سے ایک گلابی شور ہے۔ بالکل وہی آواز، جو آپ ایک اسٹیشن سے دوسرے اسٹیشن پر سیٹ کرتے وقت ریڈیو پر سنتے ہیں
جیسا گیمبل کہتی ہیں ”اگر آپ ہر سیکنڈ میں گلابی شور سنتے ہیں، تو یہ آپ کی دھیمی لہروں کو تیز کر دے گا۔ اس سے آپ صبح میں بہت زیادہ تروتازہ ہو جائیں گے“
جیسا گیمبل کا کہنا ہے ”مقناطیس کی مدد سے برقی لہروں کو دماغ تک پہنچانے کا خیال تھوڑا ڈراؤنا لگتا ہے لیکن یہ کارآمد بھی ہو سکتا ہے“
لیکن ایسی ٹیکنالوجی اب بھی لیبارٹری یعنی تجربے کی حد تک محدود ہے۔ تاہم، وہ کہتی ہیں کہ گلابی شور پیدا کرنے والے آلات جلد ہی مارکیٹ میں آ سکتے ہیں
جیسا گیمبل کہتی ہیں ”موجودہ ٹیکنالوجی کے ساتھ، لوگ ایک یا دو گھنٹے کی نیند کو کم کرنے کی بات کرتے ہیں۔ لیکن ایک ممکنہ منظر یہ بھی ہے کہ جاگتے رہتے ہوئے ہماری نیند کی تلافی ہو سکتی ہے“
’یہ کچھ ایسا ہوگا جہاں ہوائی جہاز کو ہوا میں ایندھن ملتا ہے اور اسے کبھی لینڈ نہیں کرنا پڑتا۔ مجھے یہ خیال پسند ہے۔ آخر مستقبل کے بارے میں کون جانتا ہے“
اسی سوال کی طرف آتے ہیں کہ تھکاوٹ کا ہماری نیند سے کتنا گہرا تعلق ہے اور کیا انسان بغیر نیند کے بھی تروتازہ رہ سکتا ہے؟
جیسا کہ ماہرین بتا رہے ہیں کہ نیند کو دوسری چیزوں کے لیے قربان کرنا ہماری فطرت ہے لیکن ٹیکنالوجی اور سماجی تبدیلی کے ذریعے ہم نے اس کی حد کو بہت بڑھا دیا ہے
اس نے ہمارے سونے کے روایتی طریقے اور سونے میں لگنے والے کل وقت کو متاثر کیا ہے۔ لہٰذا یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ ہم تھکاوٹ محسوس کرتے ہیں
سائنس کی مدد سے ہم نیند کی ضرورت کو کسی حد تک کم کر سکتے ہیں
اچھی بات یہ ہے کہ اس وقت آسان اور درد سے پاک حل مفت میں دستیاب ہیں
اور ہاں، یہ سب کچھ پڑھنے کے بعد بھی اگر آپ آنکھیں بند کر کے تکیے پر سر رکھ کر سو جائیں، تو شاید ہی کسی کو اعتراض ہو
امید ہے کہ آپ اچھے خواب دیکھیں گے۔