لاہور کے نجی اسکول کی چھت سے کود کر طالب علم کی خودکشی کی کوشش، وجہ کیا تھی؟

نیوز ڈیسک

لاہور – صوبائی دارالحکومت لاہور کے علاقے ٹاؤن شپ کے ایک نجی اسکول کی چھت سے چھلانگ لگانے والے طالب علم عبداللہ کامران کو ہسپتال سے گھر منتقل کر دیا گیا ہے

طالب علم کے والد کامران احسن کا کہنا ہے کہ تاحال ان کے بیٹے کی حالت مستحکم نہیں ہے، کیوں کہ چھت سے گرنے کے سبب ان کی ریڑھ کی ہڈی مختلف جگہوں سے ٹوٹ گئی ہے

کامران احسن نے بتایا کہ اس واقعے کے بعد تو انہیں ہوش ہی نہیں تھا، وہ تو اپنے اکلوتے بیٹے کی جان بچانے کی بھرپور کوشش کر رہے تھے، لیکن اب انہوں نے اسکول کے خلاف مقدمے کے لیے تھانہ ٹاؤن شپ میں درخواست جمع کروائی ہے

واضح رہے کہ 9 فروری کو عبداللہ کامران نے مبینہ طور پر ایک ساتھی طالب علم سے جھگڑے پر اسکول انتظامیہ سے ڈانٹ پڑنے پر دل برداشتہ ہو کر اسکول کی پہلی منزل سے چھلانگ لگا دی تھی، جس کے سبب ان کی ریڑھ کی ہڈی اور ٹانگوں میں فریکچر ہوگیا

چیف ایگزیکٹیو افسر ایجوکیشن لاہور پرویز اختر نے اس واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے ڈسٹرکٹ ایجوکیشن افسر مردانہ ایلمینٹری کی سربراہی میں انکوائری کمیٹی تشکیل دے دی ہے

ڈی ای او ایلیمنٹری نے انکوائری رپورٹ سی ای او کو جمع کروائی، جس کی بنیاد پر نجی اسکول کو شوکاز نوٹس جاری کر دیا گیا ہے

سی ای او ایجوکیشن لاہور نے اسکول کو ذاتی شنوائی کے لیے 16 فروری کو صبح 11 بجے طلب کرلیا ہے

اس واقعے کے حوالے سے اسکول کے سی ای او احسان اللہ وقاص کا کہنا ہے کہ دونوں طالب علموں میں جھگڑے کے بعد اسکول کے پرنسپل نے طالب علم کو اپنے والد کو اسکول بلانے کا کہا تھا، جس پر وہ ڈر گیا کہ اس کے والد آکر اس کی ڈانٹ ڈپٹ کریں گے اور اسی ڈر سے اس نے اسکول کی چھت سے چھلانگ لگا دی

کامران کہتے ہیں کہ ان کا بیٹا اس واقعے کے بعد سے ٹراما میں ہے

ان کے مطابق: ’وہ ہوش میں آتے ہی چیخنے لگتا ہے کہ مجھے کچھ نہ کہیں مجھے کچھ نہ کریں۔ میرے بیٹے کو اسکول کے اساتذہ نے نفسیاتی دباؤ کا نشانہ بنایا، جس کی وجہ سے اس نے یہ قدم اٹھایا۔‘

کامران کا کہنا تھا کہ ان کا بیٹا بہت لائق ہے اور انہیں امید تھی کہ وہ بورڈ میں ٹاپ کرے گا

’میرا اکلوتا بیٹا ہے، میری اہلیہ اس دن سے ذہنی طور پر شدید پریشانی میں مبتلا ہیں۔ اسکول کے سی ای او اپنے اساتذہ اور پرنسپل کو بچانا چاہتے ہیں، اس لیے وہ ایسے بیان دے رہے ہیں کہ اس پر والدین کی ڈانٹ ڈپٹ کا دباؤ تھا۔ میں تو اسے پھول کی طرح رکھتا تھا، وہ میرا اکلوتا بیٹا ہے۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’اسکول کی سی سی ٹی وی فوٹیج میں جو ہم نے دیکھا، اس میں میرے بیٹے کا جھگڑا ایک اور بچے کے ساتھ ہوا

’میرے بیٹے نے اسے مکا مارا جس کے جواب میں اس بچے نے میرے بیٹے کو مکا مارا اور پھر جب میرے بیٹے نے اسے مارا تو اس بچے کی آنکھ کے نیچے ایک نشان پڑ گیا اور اس کا چشمہ ٹوٹ گیا

’اس لڑائی کے نتیجے میں اسکول انتظامیہ نے تقریباً چار گھنٹے تک میرے بیٹے کو کھڑا رکھا اور اسے آتے جاتے طنز کا نشانہ بناتے رہے۔ اس بات کے گواہ وہاں کے دیگر طالب علم بھی ہیں

’یہاں تک کہ اسکول انتظامیہ نے میری اہلیہ کو فون کرکے کہا کہ وہ میرے بیٹے کو موک ٹیسٹ بھی دینے نہیں دیں گے اور اسے اسکول میں جاری امتحانات میں بیٹھنے نہیں دیں گے۔‘

عبداللہ کے والد نے بتایا کہ ان کا بیٹا ہمیشہ ٹاپ کرتا رہا ہے۔ ’وہ کہتا تھا کہ بابا آپ نے گولڈ میڈل لیا، میں بھی لوں گا لیکن اس تین سے چار گھنٹوں میں جو اس کی بے عزتی کی گئی وہ اس سے دل برداشتہ ہو گیا کہ اس نے اپنی زندگی ختم کرنے کی کوشش کی۔ اس ساری صورتحال میں میری دنیا تو اندھیر ہو گئی۔‘

کامران نے بتایا کہ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ ان کے بیٹے کو مکمل صحت یاب ہونے اور اپنے پیروں پر چلنے کے لیے لمبا عرصہ درکار ہے

ان کا کہنا تھا کہ ’اگر میری شنوائی نہ ہوئی اور اگر مجھے وزیر اعظم ہاؤس کے سامنے جا کر دھرنا بھی دینا پڑا تو میں دوں گا۔‘

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close