قطر میں اتوار 20 نومبر سے فیفا فٹبال ورلڈکپ کا آغاز ہو رہا ہے۔ اس سلسلے میں تمام تر انتظامات مکمل ہو چکے ہیں
فیفا ورلڈکپ کے لیے قطر نے ’حیا کارڈ‘ کے نام سے ایک مخصوص کارڈ متعارف کروایا ہے، جسے قطر کا ویزا بھی کہا جا سکتا ہے۔ میچز دیکھنے کی غرض سے یہی کارڈ استعمال کر کے قطر، متحدہ عرب امارات (یو اے ای) اور سعودی عرب کا سفر کیا جا سکتا ہے
فٹبال کی عالمی تنظیم ’انٹرنیشنل فیڈریشن آف ایسوسی ایشن فٹ بال‘ (فیفا) کے زیر اہتمام منعقد ہونے والا یہ ورلڈ کپ 23 دسمبر تک جاری رہے گا، جس میں بتیس ٹیمیں ٹرافی کے حصول کے لیے ایک دوسرے سے نبردآزما ہونگیں، جن میں سے کچھ ٹیموں کو اس مقصد کے لیے فیورٹ بھی قرار دیا جا رہا ہے
ورلڈکپ سے قبل اس پر تبصروں کا سلسلہ جاری ہے کہ آیا فرانس اپنی کامیابی کا تسلسل جاری رکھ سکے گا یا برازیل چھٹی مرتبہ ٹائٹل اپنے نام کر کے بازی لے جائے گا؟
یا پھر دنیا کے اسٹار فٹبالرز لیونل میسی اور کرسٹیانو رونالڈو اس بار اپنی ٹیموں کو فتح سے ہمکنار کرنے میں کامیاب ہونگے، جو اپنے کریئر کا آخری ورلڈکپ کھیل رہے ہیں
ایونٹ کے آغاز سے قبل دفاعی چیمپئن فرانس ٹرافی اپنے نام کرنے کے لیے پر امید ہے ۔ بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ برازیل کے بعد فرانس وہ دوسری ٹیم ہو سکتی ہے جو مسلسل دو ورلڈ کپ اپنے نام کر سکتی ہے
یاد رہے کہ برازیل نے ایک کے بعد ایک ورلڈکپ 1958 اور 1962 میں جیتا تھا
اس رپورٹ میں ان ٹیموں کا احوال بیان کیا جا رہا ہے جو ممکنہ طور پر 2022ع کے فٹبال ورلڈکپ میں بہترین کارکردگی سے یہ اعزاز اپنے نام کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں
فرانس: دفاعی چیمپئن لیکن اسکواڈ انجریز کا شکار
گزشتہ ورلڈکپ 2018ع میں روس میں ہوا تھا جس کا فاتح فرانس تھا۔ یہ دوسری بار تھا، جب فرانس نے ورلڈ کپ اپنے نام کیا
فرانس 2022ع کا ورلڈکپ دفاعی چیمپئن کے حیثیت سے کھیل رہا ہے اور اسے برازیل کے بعد یہ کپ جیتنے کے لیے سب سے مضبوط امیدوار گردانا جا رہا ہے
یاد رہے کہ گزشتہ برس ’نیشن لیگز‘ کا ٹائٹل بھی فرانس نے اپنے نام کیا تھا
فرانس کی ٹیم کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کے پاس ٹیلنٹ کی کمی نہیں۔ اس کا سب سے اہم اثاثہ فرنٹ لائن کو کہا جاتا ہے۔ جس کے اٹیکرز میں تیئیس سالہ کیلیان ایمبپی اور ’بیلین ڈی اور‘ اپنے نام کرنے والے تجربہ کار چونتیس سالہ کریم بینزیما شامل ہیں۔ جب ان کے ساتھ ساتھ انٹوان گریزمان، عثمان ڈمبیلی اور اولیوے زیہروو بھی موجود ہیں
لیکن ساتھ ہی فرانسیسی اسکواڈ میں شامل کئی اہم کھلاڑیوں کو انجریز کا بھی سامنا ہے، جس کی وجہ سے اہم ترین مڈ فیلڈر انگولو کانت اور پال پاگبا ورلڈکپ سے باہر ہو چکے ہیں
اسی طرح فرانس کے ڈیفنڈر پرسنل کیم پیمبے بھی ٹیم کا حصہ نہیں بن سکیں گے جب کہ سینٹر بیک کے رافیل وارانے کی فٹنس پر بھی سوالات اٹھ رہے ہیں
خیال رہے کہ گزشتہ چھ میں سے پانچ ورلڈکپ ایسے رہے ہیں، جن میں دفاعی چیمپئن گروپ اسٹیج سے آگے بڑھنے میں کامیاب نہیں ہو سکے ہیں
برازیل: زیادہ کامیابی کا امکان
برازیل وہ ٹیم ہے، جس نے دیگر تمام ٹیموں کے مقابلے میں سب سے زیادہ بار ورلڈکپ اپنے نام کیا ہے۔ اس بار بھی بیشتر مبصرین برازیل کی کامیابی کا ہی امکان ظاہر کر رہے ہیں
پانچ بار ورلڈکپ جیتنے والی برازیل اس وقت فیفا کی رینکنگ میں ٹاپ پر ہے اور دفاعی چیمپئن فرانس اور دیگر حریف ٹیموں کے لیے مشکلات کا سبب بن سکتی ہے
برازیل کے اسٹار اسٹرائیکر نیمار بھی اس وقت بھر پور انداز میں اپنی کارکردگی دکھا رہے ہیں، جنہوں نے گزشتہ 19 مقابلوں میں 15 گول کیے ہیں
نیمار کا ساتھ دینے کے لیے ٹیم میں رئیل میڈرڈ فٹبال کلب کی جانب سے کھیلنے والے بائیس سالہ وینی جونیئر اور پچیس سالہ آرسنل فٹبال کلب کے گیبریل جیسس بھی موجود ہیں
سابق فٹبالر اور ٹیٹ کے نام سے مشہور ایڈنور لیونارڈو بیکی برازیل کے کوچ ہیں، جن کو اس ورلڈکپ کے سب سے تجربہ کار افراد میں شمار کیا جا رہا ہے
دوسری جانب اڑتیس سالہ چیاگو سلوا، اٹھائیس سالہ ماکینیوس اور انتالیس سالہ ڈانی ایلوس جیسے انتہائی تجربہ کار کھلاڑی برازیل کی دفاعی لائن میں موجود ہیں
ارجنٹائن: لیونل میسی کے کریئر میں ورلڈکپ کی کمی
ارجنٹائن کی ٹیم میں انتیس سالہ پاؤلو ڈیبالہ، چونتیس سالہ انخیل ڈیمریا، چوبیس سالہ کرئسٹیانو رومیرو اور پچیس سالہ لاؤتارو مارٹینس کے ساتھ ساتھ اہم ترین اسٹرائیکر پینتیس سالہ لیونل میسی موجود ہیں، جس سے ارجنٹائن کا اسکواڈ کافی مضبوط دکھائی دے رہا ہے
بعض مبصرین ان کھلاڑیوں کی وجہ سے ارجنٹائن کو سال کی سب سے متوازن ٹیم بھی قرار دے رہے ہیں
اس کے ساتھ ساتھ لیونل اسکلونی ٹیم کے کوچ ہیں، جنہیں ‘کامیابی کی مشین’ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے
ارجنٹائن وہ واحد ٹیم ہے، جس نے حالیہ دنوں میں ورلڈ کپ کے لیے فیورٹ قرار دی جانے والی ٹیم برازیل کو شکست دی ہے
گزشتہ برس جولائی میں ’کوپا امریکہ‘ کے فائنل میں برازیل اور ارجنٹائن آمنے سامنے آئے تھے، جس میں ارجنٹائن نے برازیل کو ایک صفر سے شکست دی تھی۔ اس کامیابی سے ارجنٹائن کو اٹھائیس برس بعد یہ ٹائٹل اپنے نام کرنے کا موقع مل سکا تھا
ارجنٹائن نے اب تک پانچ بار ورلڈکپ کا فائنل کھیلا ہے، جن میں دو بار 1978 اور 1986 میں اس نے کامیابی حاصل کی
ایسے میں یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ مشہور کھلاڑی لیونل میسی کیا اپنی ٹیم کو ورلڈکپ جتوا سکیں گے؟ کیوں کہ ان کے کریئر میں ورلڈکپ وہ واحد اعزاز ہے، جو اب تک ان کے نام کے ساتھ جڑ نہیں سکا
پرتگال: رونالڈو کی روانگی، نئے اسٹاز کی آمد
لیونل میسی کی طرح پرتگال کے اسٹار فٹبالر کرسٹیانو رونالڈو کا بھی یہ آخری ورلڈکپ ہوگا
رونالڈو پرتگال کے وہ اسٹار کھلاڑی ہیں، جن کے نام پانچ بار ‘بیلن ڈی اور‘ رہا ہے۔ البتہ گزشتہ برس سے وہ کئی تنازعات کا بھی شکار ہیں، جن میں کلب مانچسٹر یونائیٹڈ کی انتظامیہ اور کوچ سے اختلافات شامل ہیں
پرتگال کے سینتیس سالہ اسٹار کے ساتھ ساتھ ان کی ٹیم میں اٹھائیس سالہ ژواؤ کنسیلو، اکتیس سالہ مڈفیلڈر ڈینیلو پریرا، سینٹر بیک پر انتالیس سالہ پیپی، پچیس سالہ روبن ڈیاس، لیفٹ بیک پر بیس سالہ نونو میندس، مڈفیلڈر اٹھائیس سالہ برناردو سلو، تیئیس سالہ جہواو فیلکس اور تیئیس سالہ رافیال لیاؤ موجود ہیں
مبصرین کے مطابق پرتگال کے پاس میدان میں ہر شعبے کے بہترین کھلاڑی موجود ہیں
اب یہ امکان بھی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ رونالڈو کے جانے کے بعد پرتگال کے نئے کھلاڑیوں کو اپنا نام بنانے کا موقع مل سکے گا
جرمنی: جسے نظر انداز کرنا ممکن نہیں
جرمنی بیس برس قبل ایسی ٹیم کے طور پر ورلڈکپ کھیلی تھی، جب اسے ٹورنامنٹ کی اہم ٹیم نہیں سمجھا گیا تھا۔ وہ 2001ع کا موقع تھا، جب جرمنی کے شہر میونخ میں جرمن ٹیم کو کوالیفائنگ اسٹیج میں انگلینڈ سے پانچ ایک سے شکست ہوئی تھی۔ تاہم اسی ایونٹ میں جرمنی نے غیر متوقع طور پر فائنل تک رسائی حاصل کی تھی، جہاں اس کا سامنا برازیل سے ہوا تھا اور برازیل دو صفر سے کامیابی کے ساتھ ٹائٹل اپنے نام کر سکا تھا
اس کے بعد جرمنی ہر بار ورلڈکپ کے سیمی فائنل تک پہنچنے والی ٹیم رہی ہے، جبکہ 2014ع میں اس نے ٹائٹل اپنے نام بھی کیا۔ البتہ 2018ع میں وہ پہلے ہی راؤنڈ میں باہر ہونے والی ٹیم تھی
اب کہا جا رہا ہے کہ قطر میں ہونے والے ورلڈکپ میں جرمنی ایک ایسی ٹیم کے ساتھ شریک ہو رہی ہے، جس کی کامیابی کے امکانات موجود ہیں
اس اسکواڈ میں 2014ع میں ورلڈکپ کی فاتح ٹیم کا حصہ رہنے والے تیس سالہ ماریو گوتیز، چھتیس سالہ گول کیپر مینول نوئر اور ناقابلِ تسخیر قرار دیے جانے والے اٹیکر تھامس ملر بھی شامل ہیں
اس کے ساتھ ساتھ انتہائی نوجوان کھلاڑی بھی ٹیم کا حصہ ہیں، جن میں سترہ سالہ یوسفا موکوکو اور انیس سالہ جمال موسیالا شامل ہیں
ایسے میں ٹیم کے مینیجرز امید کر رہے ہیں کہ ٹیم سیمی فائنل یا اس سے ایک قدم آگے تک جا سکتی ہے۔ ان کو یہ امید اس لیے بھی ہے کیوں کہ اٹھارہ ماہ بعد یورپین فٹبال کا سب سے بڑا مقابلہ ’یورو 2024‘ کی میزبانی جرمنی کے پاس ہے.