ججی کے بیٹے نے فون کیا کہ رات ابا کو دل کا دورہ پڑا تھا، ہسپتال میں ہیں۔ آپ کو یاد کر رہے ہیں۔
ہسپتال میرے گھر سے دس منٹ کے فاصلے پر تھا۔ میں جب کمرے میں داخل ہوا تھا، ججی آنکھیں بند کیے نیم دراز تھا۔ آہٹ پر آنکھیں کھولیں اور مسکرایا۔
”دیکھا۔۔۔ جس مرض کا عمر بھر مذاق اُڑایا، سالے نے مجھے بھی پکڑ لیا۔۔۔“ پھر چند لمحوں تک چھت کو دیکھا اور بولا ”مجھے پتہ ہے یہ سب کیوں ہوا؟“
میں نہیں چاہتا تھا کہ وہ اس وقت اُس آبائی گھر کا قصہ چھیڑے، جس نے گزشتہ تین برسوں میں ججی کے خاندان کا شیرازہ
بکھیر دیا تھا۔
ججی کے ابا دلی سیکریرٹریٹ میں چھوٹے موٹے عہدے دار تھے۔ پاکستان کے لیے آپٹ کیا اور راولپنڈی میں تعینات ہو گئے۔ آتے ہی یہ گھر الاٹ ہو گیا۔ججی کے تین بھائی اور ایک بہن اسی گھر میں پیدا ہوئی تھی۔ دو بہنیں بڑی تھیں اور ایک پاکستان بنتے وقت بھی شادی شدہ تھی۔ پھر بہنوں کی شادیاں ہوئیں اور وہ اپنے گھروں کو چلی گئیں۔ ججی بھائیوں میں بڑا تھا۔پہلے اُس کی شادی ہوئی پھر دونوں
بھائیوں کی۔ بھائی ملازمت کے سلسلے میں اِدھر اُدھر چلے گئے۔ججی اسی شہر میں کہیں نوکر ہوا تو یہیں رہا۔ گھر اُس
نے نہیں چھوڑا۔ تین بچوں کے بعد ججی کی بیوی بھی اللہ کو پیاری ہو گئی اور وہ اکیلا رہ گیا۔ بیٹا شادی کے بعد بیرون ملک چلا گیا۔بیٹی کہیں اسلام آباد میں بیاہی گئی اور چھوٹا بیٹا، جس نے مجھے فون کرکے بلایا تھا، ججی کے ساتھ رہ گیا۔مجھے پتہ تھا ججی ان دنوں چھوٹے
کے لیے رشتہ دیکھ رہا تھا۔
میں نے کہا ”سب اچھا ہوگا۔۔ بس گھر والا قصہ نہ چھیڑ دینا“
ججی مسکرایا اور بولا ”گھر والا قصہ ہی تو سالا میری پریشانیوں کا اصل سبب ہے“
ججی کا بیٹا کمرے کے کونے میں بیٹھا موبائل سے کھیل رہا تھا، سر اُٹھا کر بولا ”چچا, میں کب سے کہہ رہا ہوں کہ جب پھپھیاں اور دونوں چچا حصہ مانگ رہے ہیں تو انہیں دے دلا کر قصہ ختم کریں۔۔ روزانہ شام کو کوئی نہ کوئی آجاتا ہے اور ابا رات گئے
تک اُن سے بحث کرتے ہیں“
اب اس موضوع پر بات شروع ہو ہی گئی تھی تو میں نے کہا ”یار تُو فیصلہ کیوں نہیں کرتا؟ ویسے بھی گلیوں میں رہنے کا زمانہ کب کا گزر چکا۔ شہر کے کسی کھلے حصے میں چلا جا“
بیٹا پھر بولا ”چچا، مجھے حکومت کی طرف سے اتنا اچھا گھر ملا ہوا ہے، ہم اُس میں بھی رہ سکتے ہیں، یہ نہیں مانتے۔ دو مہینے سے خالی پڑا ہے“
بیٹے کے لہجے میں شکایت نہیں تھی، باپ کے لیے عزت تھی۔
مجھے اس بات کا پتہ نہیں تھا تو میں نے فیصلہ سنایا۔ ”بس اب ہسپتال سے تُو سیدھا بیٹے کے ساتھ اسلام آباد جائے گا۔ میں اس معاملے کو خود دیکھوں گا۔ میرا بھانجا پراپرٹی کا کاروبار کرتا ہے۔ تیرے گھر کی قیمت لگواتے ہیں۔۔ جو ملتا ہے، تیرے بھائیوں اور بہنوں میں بانٹ کر قصہ ختم کرتے ہیں۔ ابے مر جائے گا اس گھر کے قضیے میں“
میں نے کھڑے ہو کر اُس کے بیٹے کو ہدایات دیں ”تم دو ایک دن میں گھر تیار کرواؤ۔۔ تمہارا باپ اب تمہارےساتھ اسلام آباد میں رہے گا“
ججی کا بیٹا مطمئن مسکراہٹ کے ساتھ بولا ”جی چچا۔۔ ویسے سب کچھ تیار ہے۔ یہاں سے بس ان کے ذاتی
استعمال کی کچھ چیزیں لے جانا ہوں گی“
ججی نے میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے بٹھا لیا ”یار تم سب اتنی جلدی مت کرو۔۔ میں ابھی گھر نئیں بیچ سکتا“
مجھے غصہ آگیا۔ میں پھر بیٹھ گیا اور میں نے قدرے تلخی سے کہا ”کیوں نئیں بیچ سکتا؟ وہاں کیا گڑا ہوا ہے تیرا؟“
میرے سوال
پر ججی کے چہرے سے مسکراہٹ غائب ہو گئی اور اُس کی جگہ ایک گہری گمبھیرتا پھیل گئی، وہ بولا ”تجھے پتہ ہے میں اسی گھر میں پیدا ہوا تھا۔ یہیں پلا بڑھا۔۔ ماں باپ کے جنازے یہیں سے اُٹھے۔دادی نے اسی گھر میں اسکول جانے سے پہلے مجھے سردیوں کی نرم دھوپ میں چھت پر بٹھا کر حروف تہجی سکھلائے۔۔ گرمیوں کی چاندنی راتوں میں چھت پر شہزادے شہزادیوں کی کہانیاں سنائیں۔۔ یہیں سے بہنیں رخصت ہو کر اپنے اپنے گھروں کو گئیں۔ سلمیٰ بیاہ کر اسی گھر میں لایا۔ یہیں بچے پیدا ہوئے، اُن کی شادیاں ہوئیں۔ اسی ڈیوڑھی سے سلمیٰ کو شہر خموشاں تک پہنچایا۔اس گھر کے چپے چپے میں یادوں کا میلہ لگا ہے۔ میں جب بالکل تنہا ہو جاتا ہوں تو اس میلے میں نکل جاتا ہوں۔ کسی ندیدے بچے کی طرح، جس کے باپ کی جیب میں پیسے نہ ہوں، ہر چیز کو دیکھتا اور بس خوش ہو لیتا ہوں۔۔۔یہ مٹی گارے لکڑی
کی عمارت کا سوال نہیں ہے یار! یہ یادوں کا تاج محل ہے۔۔۔ تم لوگ کیوں مجھے اس ٹھنڈے میٹھے پانیوں والے نخلستان سے نکال کر
صحرا کی تپتی دھوپ میں بٹھا دینا چاہتے ہو؟“
خاموش ہو کر وہ نڈھال سا ہو گیا۔ میں نے گھوم کر دیکھا، اُس کا بیٹا موبائل ہاتھ میں
پکڑے باپ کو تک رہا تھا۔ پتہ نہیں ایسا ہی تھا یا مجھے لگا کہ اُس کے گال پر آنسو کا ایک موٹا سا قطرہ ڈھلک آیا تھا۔