قمر جاوید باجوہ کو تو سب جانتے ہیں مگر کتنے عام پاکستانی شہری فضائیہ اور بحریہ کے موجودہ سربراہوں یا جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کے فور اسٹار چیئرمین یا چیف آف آرمی اسٹاف کے باس سیکریٹری دفاع یا سیکریٹری دفاع کے باس وزیرِ دفاع کا نام جانتے ہیں؟
کون کون بتا سکتا ہے کہ مسلح افواج کی تینوں شاخوں کا سپریم کمانڈر کون ہے؟
چلئے واپڈا کے موجودہ چیئرمین یا چیف الیکشن کمشنر یا وفاقی سیکرٹری داخلہ اور خارجہ میں سے کسی ایک کا نام بتا دیجیے۔۔ یہ سب بھی آخر چیف آف آرمی اسٹاف کی طرح مراعات میں زمین آسمان کے فرق کے باوجود گریڈ بائیس کی بنیادی تنخواہ ہی لیتے ہیں۔
نیپال، سری لنکا، بنگلہ دیش، انڈیا، چین، افعانستان، ایران، ترکی یا کسی بھی جانے پہچانے ملک کے عام شہری سے پوچھ لیجیے کہ تیرے ملک کے صدر یا وزیرِ اعظم کا کیا نام ہے۔ وہ ایک لمحہ سوچے بغیر درست نام بتائے گا۔
اب اسی سے پوچھیے کہ تمہارے سپاہ سالار کا نام کیا ہے؟ ننانوے فیصد امکان ہے کہ الٹا وہ آپ سے پوچھ لے کہ بھیا کیا کہا؟ پھر وہ سر کھجائے، کم ازکم ایک منٹ سوچے اور یا تو غلط نام بتائے یا معلوم نہیں کہہ کر آگے بڑھ جائے۔
اب یہی سوال کسی بھی دور دراز گوٹھ یا پہاڑ پر رہنے والے پاکستانی شہری سے پوچھ لیں۔ پچانوے فیصد پاکستانی شرطیہ کہیں گے باجوہ۔
اس ایک سوال اور اس کے جواب سے کسی بھی ملک کے مقتدر ڈھانچے کی نوعیت اور بااختیاری و بے اختیاری کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے
حالانکہ چیف آف آرمی اسٹاف کی مدتِ ملازمت کا دورانیہ تین برس ہے مگر ڈھائی برس گزرتے ہی سب سے پہلے میڈیا یہ چٹکی لیتا ہے کہ اگلا کون ہو گا یا موجودہ ہی اگلا بھی ہوگا
پھر اس معمے کو حل کرنے کی دوڑ میں سیاستدان بھی شامل ہو جاتے ہیں اور آخری دو ماہ میں محلے کا ہر کن ٹٹا، ہر سرکاری کرمچاری، ہر ہیر ڈریسر، ہر خوانچہ فروش اس کا جواب ڈھونڈنے کی مہم میں شامل ہو جاتا ہے اور آخری تیس دن میں یہ سوال قومی بخار بن جاتا ہے
کون ہوگا؟ کون بنے گا؟ وہ یا وہ؟ یہی والا یا کوئی دوسرا؟ پھر چھ تصاویر نکال لی جاتی ہیں۔ شرطیں بندھنے لگتی ہیں۔ قیافہ شناسی کا کاروبار چمک اٹھتا ہے۔ ستاروں کی چال کو بحث میں گھسیٹ لیا جاتا ہے اور کلیجے پر تب تک ڈھائی سالہ ٹھنڈک نہیں پڑتی، جب تک نام کا اعلان نہیں ہو جاتا
آئین میں آپ ایک چھوڑ لاکھ بار لکھ دیں کہ ’اقتدار اللہ تعالٰی کی امانت ہے، جسے منتخب نمائندے عوام کے توسط سے استعمال کرنے کے مجاز ہیں۔‘ آپ یہ سمجھا سمجھا کر اپنی زبان کو چھالا زدہ کر ڈالیں کہ مسلح افواج کا حلف انھیں سیاسی معاملات سے بالکل الگ تھلگ رہنے اور ایک منتخب حکومت کے آئینی و قانونی احکامات کے تابع رہنے کا پابند بناتا ہے
خود فوج ہزار بار قسم کھائے کہ اس کا سوائے ملکی سرحدوں کے دفاع اور اندرونی سلامتی کے تحفظ اور قدرتی آفات و حادثات و ہنگامی حالات میں سرکاری احکامات کی پاسداری کے کوئی اضافی کردار نہیں بنتا
آئی ایس پی آر اور آئی ایس آئی کے سربراہ ایک نہیں سو پریس کانفرنسوں میں برملا کہہ دیں کہ فوجی قیادت اب سیاسی معاملات میں مکمل غیر جانبداری برتے گی کیونکہ سیاسی گھتیاں سلجھانا یا کسی ایک کی فرمائش پوری کرنا ان کا کام نہیں۔ پر مجال ہے کہ کوئی بھی کسی کی بھی بات پر حق الیقین کی مہر لگانے کو تیار ہو
بس اتنی پیشرفت ہوئی ہے کہ نوے کی دہائی تک اگر کوئی تجویز دیتا تھا کہ فوج کو بھی ریاستی معاملات میں ایک مستقل آئینی کردار دیا جائے تو ہر طرف سے ’ہا ہائے بھلا یہ کیا بات ہوئی‘ کا غوغا بلند ہو جاتا تھا
آج 2022 میں یہاں سے وہاں تک ہر سیاستدان قائل ہے کہ فوج کے براہِ راست یا بلاواسطہ سیاسی و تزویراتی کردار کو محدود یا ختم کرنا کم ازکم موجودہ پولٹیکل کلاس کے بس کی بات نہیں
ان میں سے جو بھی سیاستدان برسرِ اقتدار آتا ہے وہ ’فوج اور حکومت ایک پیج پر ہیں‘ کی گردان شروع کر دیتا ہے۔وہی سیاستدان حزبِ اختلاف کی بینچ پر کھڑا کر دیا جائے تو ترنت شور اٹھا دیتا ہے کہ فوج کے سیاسی کردار کو محدود کرنا کس قدر ضروری ہے۔ ’ووٹ کو عزت دو‘ کس کے یاد آنا شروع ہو جاتا ہے
کبھی سوچا کہ جب آئی ایم ایف سے معاملات بگڑنے لگتے ہیں تو وزیرِ خزانہ کے ہوتے ہوئے فوج کے سربراہ کو کیوں اس معاملے میں ڈالا جاتا ہے؟ کسی دوست ملک کے ذہن میں شکوک و شبہات پیدا ہونے لگیں تو وزیرِ خارجہ کے بجائے فوج کے سربراہ کو کیوں دلوں کو صاف کرنے کی ذمہ داری دی جاتی ہے؟
کوئی تجارتی ڈیل ہاتھ سے نکلنے لگے تو فوج کے سربراہ کو کیوں سمجھانے بجھانے کے مشن پر روانہ کیا جاتا ہے؟
جب حکومت سے معاملات بگڑنے لگیں تو حزبِ اختلاف فوجی قیادت کو ثالثی کروانے کی مشکل میں کیوں ڈالتی ہے؟
جب ایوان میں اکثریت ثابت کرنی ہو تو بندے پورے کرنے کے لیے حساس اہلکاروں سے فون کون کرواتا ہے، خود فون کیوں نہیں کرتا؟
مان لیا کہ فوج دفاعی، علاقائی اور خارجہ معاملات میں کسی منتخب حکومت کی نہیں چلنے دیتی مگر صحت، تعلیم، روزگار اور وسائل کی تقسیم سے متعلق عوام دوست پالیسیاں بنانے اور ان پر عملدرآمد سے بھی کیا آئی ایس آئی روکتی ہے؟
وزیرِاعظم یا قائد حزبِ اختلاف کو ایک میز پر آمنے سامنے بیٹھ کر آنکھ سے آنکھ ملا کر بات کرنے سے بھی کیا فوج ہی منع کرتی ہے
اگر آپ اتنے ہی ننھے معصوم ہیں تو سیاست میں کیوں ہیں۔ ووٹ لینے کے لیے آسمان سے تارے توڑنے کے خواب کیوں بیچتے ہیں۔ لنگڑی لولی حکومت تھامنے کے لیے بھی ایک دوسرے کی شیروانی آگے پیچھے سے کیوں کھینچتے ہیں؟
بوٹ آؤٹ ہونے کے بعد ہی کیوں لینن، چی گویرا، منڈیلا، حقیقی آزادی اور عوامی انقلاب جیسے بھاری بھاری نام اور الفاظ پولے ہلکے منہ سے جھڑنے لگتے ہیں؟
ہاں کسی بھی وزیرِ اعظم نے پچھتر برس میں اپنی مدتِ اقتدار مکمل نہیں کی۔ بعد از ضیا آنے والے ہر وزیرِاعظم نے برطرفی یا سبکدوشی کے بعد برملا کہا کہ ہمارے ہاتھ بندھے تھے
آخر کس نے ان کا ہاتھ پکڑا تھا کہ معزول یا چوپٹ ہونے سے پہلے یہ کہتے ہوئے اپنا بریف کیس اٹھا کر گھر لوٹ آتے کہ میں لعنت بھیجتا ہوں اس بے اختیار کرسی پریا ان میں سے کوئی ایک جس نے یہ کہہ کر اقتدار لینے سے معذرت کر لی ہو کہ میں گتے کے سیٹ پر فلمی حکومت ہرگز قبول نہیں کر سکتا کہ جس کا مکالمہ نویس اور ہدایتکار عوام یا پارٹی کے بجائے کوئی اور ہو
جو وفاقی کابینہ یا پارلیمنٹ حاضر سروس سپاہ سالار کی مقررہ مدتِ ملازمت میں توسیع کے لیے آرمی ایکٹ میں ایک دن کے اندر اندر متفقہ ترمیم کر سکتی ہے، وہی پارلیمنٹ آرمی ایکٹ میں یہ اضافہ کیوں نہیں کر سکتی کہ سپریم کورٹ کی طرح فوج میں بھی سینیئر موسٹ جنرل خود بخود اگلا سپاہ سالار نامزد ہو جائے گا
کیا یہ بھول پن ہے، نیت کا فتور یا پھر کسی بھی آئی جی پولیس کی تعیناتی کے عمل میں ’ساڈا بندہ آوے ای آوے‘ کی عادت کا اعادہ ہے۔
زلف اس کی ہے جو اسے چھو لے،
بات اس کی ہے جو بنا لے جائے
(رسا چغتائی)
بشکریہ: بی بی سی اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)