کیا آپ اینزائٹی اور ڈپریشن کا شکار رہتے ہیں؟

ڈاکٹر خالد سہیل

جن دنوں میں پاکستان میں نفسیات کا طالب علم تھا، ان دنوں میں یہ خواب دیکھا کرتا تھا کہ ایک دن میں ماہر نفسیات بن جاؤں گا اور ایک کلینک کھولوں گا اور پھر اپنے نفسیاتی کلینک میں اپنے مریضوں اور ان کے خاندانوں کا خیال رکھوں گا۔ ان کے نفسیاتی مسائل حل کروں گا اور انہیں ایک صحتمند اور پرسکون زندگی گزارنے میں مدد کروں گا۔ اسی لیے اب جب میں ہر صبح اپنے کلینک جا رہا ہوتا ہوں تو میرے چہرے پر مسکراہٹ پھیل جاتی ہے اور مجھے یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہر روز میرا نوجوانی کا خواب شرمندہ تعبیر ہو رہا ہے۔ میں کوئی مذہبی انسان نہیں ہوں لیکن میں اپنے مریضوں کی خدمت عبادت سمجھ کر کرتا ہوں اور وہ میرا تہہ دل سے احترام کرتے ہیں۔ میرے مریضوں میں مشرق کے لوگ بھی شامل ہیں مغرب کے بھی، کالے بھی گورے بھی، مرد بھی عورتیں بھی، امیر بھی غریب بھی، میرے مریضوں میں ہر رنگ نسل مذہب اور زبان کے مریض شامل ہیں

نفسیاتی مریضوں کی ایک بڑی تعداد اینزائٹی اور ڈپریشن کا شکار ہوتی ہے، جس کا روایتی ڈاکٹر اور سائیکاٹرسٹ ادویہ سے علاج کرتے ہیں۔ ہم اپنے کلینک میں ادویہ کم اور تھراپی زیادہ استعمال کرتے ہیں۔ ہم اپنے مریضوں کی جو تھراپی کرتے ہیں، اس میں انفرادی تھراپی کے ساتھ ساتھ ازدواجی تھراپی، فیمیلی تھراپی اور گروپ تھراپی بھی شامل ہیں

جہاں تک اینزائٹی کا عارضہ ہے، اس کا تعلق نفسیاتی تضاد سے ہے اور جہاں تک ڈپریشن کا عارضہ ہے، اس کا تعلق کسی محبوب چیز کے کھو جانے سے ہے

ان عارضوں کے بارے میں مختلف ماہرین نفسیات نے مختلف تھیوریز، خیالات اور نظریات پیش کیے ہیں

بابائے تحلیلِ نفسی سگمنڈ فرائڈ کا کہنا تھا کہ اینزائٹی کا تعلق انسان کے لاشعوری داخلی تضاد سے ہے۔ جب انسان کی خواہش اور اس کے ضمیر میں تضاد پیدا ہو۔ جب انسان کوئی ایسا کام کرنا چاہے، جسے وہ سمجھتا ہو کہ اسے نہیں کرنا چاہیے تو وہ ایک تضاد میں گرفتار ہو جاتا ہے اور وہ تضاد اس کے لیے اینزائٹی پیدا کرتا ہے

انسان کی بعض ایسی خواہشات ہوتی ہیں، جنہیں اس کا سماج قبول نہیں کرتا تو وہ تضاد اس کے لیے اینزائٹی کا سبب بنتا ہے

بعض لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں، جو اپنی ایسی ناقابلِ قبول نفسیاتی خواہشات کے لیے قابل قبول طریقہ تلاش کر لیتے ہیں

اس کی ایک مثال وہ ڈرائیور ہے، جو بہت تیز گاڑی چلانا چاہتا ہے اور اینزائٹی کا شکار ہو جاتا ہے لیکن جب وہ انسان ایمبولنس ڈرائیور بن جاتا ہے تو اس کا تضاد ختم ہو جاتا ہے اور وہ اینزائٹی سے نجات حاصل کر لیتا ہے

اس کی دوسری مثال وہ شخص ہے، جس میں جارحیت بہت زیادہ پائی جاتی ہے اور وہ ہر روز لوگوں سے ہاتھا پائی کرتا ہے اور پھر وہ ایک باکسر بن جاتا ہے، جس سے نہ صرف اس کا تضاد ختم ہو جاتا بلکہ وہ باکسنگ سے ہزاروں ڈالر بھی کمانے لگتا ہے

فرائڈ کا خیال تھا کہ اینزائٹی کی بنیاد انسان کے لاشعور میں دبی جنسی اور جارحیت کی
SEX AND AGGRESSION
کی ناآسودہ جبلتیں ہیں جبکہ امریکی ماہر نفسیات ہیری سٹاک سالیوان کا خیال تھا کہ اینزائٹی کا تعلق دو انسانوں کے درمیان رشتے پر منحصر ہے۔ جب کسی انسان کو یہ احساس ہو کہ دوسرا انسان اسے ناپسند کرتا ہے یا اسے تعصب کی نگاہ سے دیکھ رہا ہے تو وہ انسان اینزائٹی کا شکار ہو جاتا ہے

جہاں تک ڈپریشن کا تعلق ہے، جب کوئی انسان اپنی پسندیدہ شخصیت کی موت کے بعد اس کی قربت سے محروم ہو جاتا ہے تو وہ اداس اور دکھی ہو جاتا ہے۔ یہ اداسی یہ دکھ یہ ڈپریشن چند دنوں چند ہفتوں چند مہینوں سے بڑھ کر چند سالوں تک پھیل سکتی ہے۔ اس اداسی کا تعلق اس انسان کی شخصیت اور مرنے والے سے رشتے کی نوعیت پر بھی منحصر ہوتا ہے

اب مختلف ماہرین نفسیات نے انفرادی اور اجتماعی طور پر
GRIEF COUNSELLING
کے پروگرام مرتب کیے ہیں تا کہ ایسے لوگوں کی نفسیاتی مدد کی جا سکے اور وہ زندگی کی طرف دوبارہ لوٹ آئیں اور نئے رشتے استوار کر سکیں

ڈپریشن جہاں کسی عزیز کی وفات سے ہو سکتی ہے، وہیں وہ کسی کے پسندیدہ گھر یا ملازمت یا کار کے کھو جانے سے بھی ممکن ہے

اداسی کی شدت کا تعلق جذبات کی حدت سے ہے۔ کوئی شخص جس قدر اس سے جذباتی لگاؤ رکھتا ہو گا اس کا اتنا زیادہ متاثر ہونے کا اندیشہ ہے

جو لوگ جانتے ہیں کہ زندگی اور محبت کے رشتے عارضی ہیں وہ اداسی اور ڈپریشن کا کم شکار ہوتے ہیں

جو لوگ نفسیاتی مسائل کا شکار ہوتے ہیں، چاہے وہ اینزائٹی ہو یا ڈپریشن۔۔ ان میں سے بہت سوں میں خود اعتمادی کی کمی ہوتی ہے اور وہ حد سے زیادہ حساس ہوتے ہیں۔ وہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر کڑھتے رہتے ہیں

سالیوان کا کہنا تھا کہ نفسیاتی علاج کا ایک مقصد مریض کی خود اعتمادی کو بہتر کرنا ہے۔ جوں جوں مریض کی خود اعتمادی بحال ہوتی ہے وہ زندگی سے زیادہ محظوظ ہوتا ہے اور چھوٹی چھوٹی باتوں سے پریشان نہیں ہوتا

ہم اپنے مریضوں کو سکھاتے ہیں کہ وہ نفسیاتی اور سماجی طور پر اپنا خیال کیسے رکھیں۔ ہم انہیں یہ بھی بتاتے ہیں کہ سیلف کیئر، خود غرضی نہیں ہے

جو لوگ جذباتی طور پر اپنا خیال رکھنا سیکھ جاتے ہیں، وہ نفسیاتی مسائل کا بھی کم شکار ہوتے ہیں اور وہ دوسروں کا بھی زیادہ خیال رکھ سکتے ہیں۔ ہم ماؤں کو بتاتے ہیں کہ جب وہ جہاز میں سفر کر رہی ہوتی ہیں تو ایر ہوسٹس انہیں بتاتی ہے کہ اگر جہاز بحران کا شکار ہو اور چھت سے ماسک گریں تو پہلے انہیں اپنے منہ پر ماسک پہننا ہوگا، پھر بچوں کے چہرے پر ماسک لگانا ہوگا۔ اسی طرح انسانوں کو پہلے اپنا خیال اور پھر دوسروں کا خیال رکھنا سیکھنا ہوگا تاکہ وہ اینزائٹی اور ڈپریشن کا مقابلہ کر سکیں اور ایک صحتمند کامیاب اور پرسکون زندگی گزار سکیں۔

بشکریہ: ہم سب
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close