پروین رحمان قتل کیس: ملزمان کی رہائی سے خاندان کو خطرہ لاحق

ویب ڈیسک

سندھ ہائی کورٹ کی جانب سے پروین رحمان قتل کیس میں سزا یافتہ افراد کو رہا کرنے پر پروین رحمان کے خاندان نے اس فیصلے پر شدید دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملزمان کی رہائی کے بعد خاندان کو شدید خطرہ لاحق ہو گیا ہے

پروین رحمان کی بہن عقیلہ اسماعیل کا کہنا ہے ”عدالت کے اس فیصلے سے خاندان کو انتہائی افسوس ہوا ہے اور ہم شدید افسردہ ہیں۔ پروین کے خاندان کو اس فیصلے کے باعث انصاف نہیں ملا۔ اگر ملزمان رہا ہوئے تو نہ صرف خاندان کے افراد بلکہ اورنگی پائلٹ پراجیکٹ میں کام کرنے والے افراد کو خطرہ ہو سکتا ہے“

عقیلہ اسماعیل نے مطالبہ کیا کہ ملزمان کو مینٹیننس آف پبلک آرڈر آرڈیننس 1960 یا ایسے کسی دوسرے قانون کے تحت حراست میں رکھا جائے

انہوں نے سندھ حکومت سے فوری طور پر فیصلے کے خلاف اپیل دائر کرنے کا بھی مطالبہ کیا

دوسری جانب ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (آیچ آر سی پی) سندھ کے وائس چیئرپرسن قاضی خضر کہتے ہیں ”مقدمے کی تفتیش کے دوران ثبوت نہ ہونے اور ہمارے نظام کی نااہلی کے باعث عدالت کو ملزمان کو رہا کرنا پڑتا ہے۔ مگر اس سے خاندان کو انصاف نہیں مل سکا۔ جس کا افسوس ہے“

قاضی خضر نے کہا ”پروین رحمان نے کراچی میں لینڈ مافیا اور پانی مافیا کو بے نقاب کیا تھا اور وہ ان کے نشانے پر تھیں۔ وہ بہادر اور نڈر خاتون تھیں، جنہوں نے غریبوں کو یہ سکھایا کہ گھر اپنے نام کیسے کیا جائے اور گھر میں پانی اور نکاسی آب کسی بنایا جائے؟“

لاہور میں کمیشن کی چیئرپرسن حنا جیلانی کی جانب جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ جرم کی سنگینی اور رکارڈ پر موجود ٹھوس شہادت بشمول مرکزی ملزم کے قابلِ قبول اعترافِ جرم کے پیشِ نظر وہ یقین کے ساتھ کہہ سکتی ہیں کہ اس مقدمے میں انصاف نہیں ہوا

ایچ آر سی پی نے بھی اس پر تشویش کا اظہار کیا ہے کہ ملزم بری ہونے کے بعد رحمان کے اہلِ خانہ اور او پی پی میں ان کے ساتھی ملازمین کے لیے فوری طور پر بہت بڑے خطرے کا باعث بنیں گے

ایچ آر سی پی کے بیان میں کہا گیا ہے ”ہمارا سندھ حکومت سے مطالبہ ہے کہ وہ ملزمان کو متعلقہ قوانین کے تحت حراست میں رکھے اور مقتولہ کے خاندان، اُن کے ادارے میں کام کرنے والے اُن کے ساتھیوں اور قانونی ٹیم کو مناسب تحفظ فراہم کرے“

ایچ آر سی پی کا کہنا تھا کہ وہ پروین رحمان کے خاندان کے ساتھ یک جہتی کا بندھن قائم رکھنے کے لیے پُرعزم ہے اور فیصلے کے خلاف عدالتِ عظمیٰ میں اپیل دائر کرنے کے ان کے فیصلے میں ان کے ساتھ کھڑا ہے

پروین رحمٰن کون تھیں؟

کراچی شہر میں واقع ایک بڑی کچی آبادی سمجھے جانے والے اورنگی ٹاؤن کے باسیوں کو گھروں کی سرکاری رجسٹریشن، پانی کی لائن اور نکاسی آب کا نظام سکھانے کے لیے مشہور آرکیٹیکٹ اور سماجی رہنما پروین رحمٰن سابق مشرقی پاکستان اور موجودہ بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکہ میں 22 جنوری 1957ع میں پیدا ہوئیں۔

ان کا تعلق ایک بہاری خاندان سے تھا۔ سال 1971ع سقوط ڈھاکہ کے بعد بھی ان کا خاندان بنگلہ دیش میں ہی تھا

پروین رحمان کی بہن عقیلہ اسماعیل کے مطابق ان کا خاندان فروری 1972ع تک بنگلہ دیش میں تھا۔ جب نئے بننے والے ملک کے سپاہیوں نے تینوں بہن بھائیوں کو والدین سمیت گھر سے بے دخل کر کے ایک میدان میں بھیج دیا تھا۔ جہاں مردوں کو جیل اور عورتوں کو ’شیتا لکھیا‘ کے پاس ایک کیمپ میں بھیجا جا رہا تھا اور ان کا خاندان کسی طرح نقل مکانی کر کے کراچی پہنچ گیا تھا

پروین رحمان نے ابتدائی تعلیم ڈھاکہ میں حاصل کی تھی۔ کراچی آنے کے بعد انہوں نے 1981ع میں کراچی کے داؤد کالج آف انجینیئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی سے آرکیٹیک انجنیئرنگ میں بیچلرز کی ڈگری حاصل کی تھی

پروین رحمان نے 1986ع میں نیدرلینڈ کے شہر روٹرڈم سے ہاؤسنگ سٹڈیز انسٹیٹیوٹ سے رہائش، عمارت سازی اور شہری منصوبہ بندی میں پوسٹ گریجویٹ ڈپلوما کیا

پروین رحمان نے 1983ع میں اورنگی پائلٹ پراجیکٹ کی جوائنٹ ڈائریکٹر بن گئیں۔ 1988 میں جب او پی پی کو چار تنظیموں میں تقسیم کیا گیا تو پروین رحمان ’اورنگی پائلٹ پراجیکٹ ریسرچ اینڈ ٹریننگ انسٹیٹیوٹ‘ کی ڈائریکٹر بن گئیں

1983ع سے 2013ع تک تین دہائیوں تک پروین رحمان کراچی کی کچی آبادیوں اور قدیم گوٹھوں میں واقع سرکاری زمینوں پر قبضے اور تجاوزات کرنے والے گروہوں، غیرقانونی پانی کے ہائیڈرنٹس چلانے والوں پر تحقیق ان کو عوام کے سامنے لے آئیں

ملزمان کو رہا کرنے کا سندھ ہائی کورٹ کا فیصلہ

سندھ ہائی کورٹ نے پروین رحمان قتل کیس کے سزا یافتہ ملزمان رحیم سواتی، امجد حسین، ایاز سواتی اور احمد حسین کی سزا کے خلاف اپیل کو منظور کرتے ہوئے ملزمان کی سزائیں کالعدم قرار دے دیں اور حکم دیا کہ اگر ملزمان کسی اور کیس میں مطلوب نہیں تو انہیں رہا کر دیا جائے

کراچی میں اورنگی پائلٹ پراجیکٹ کی سربراہ پروین رحمان کے قتل کیس میں نامزد اور گرفتار ملزمان کے خلاف آٹھ سال تک مجسٹریٹ سے سپریم کورٹ تک درجنوں سماعتوں کے بعد آخر کار کراچی کی ایک انسداد دہشتگردی کی عدالت نے ان کے خلاف 17 اکتوبر 2021 کو کیس کا فیصلہ محفوظ کیا اور 28 اکتوبر کو سنایا گیا تھا

اس فیصلے میں نامزد چاروں مجرمان کو دو، دو مرتبہ عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ ان چار مجرمان رحیم سواتی، احمد خان، امجد اور ایاز سواتی پر دو، دو لاکھ روپے جرمانہ بھی عائد کیا گیا تھا، جبکہ مقدمے میں نامزد پانچویں مجرم عمران سواتی کو قتل میں دیگر مجرموں کی معاونت کرنے پر سات سال قید اور دولاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی گئی تھی

ملزمان کے وکیل کی جانب سے ٹرائل کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف دائر درخواست پر سندھ ہائی نے مدعیوں کی سزا پیر کے روز کالعدم قرار دے کر انہیں رہا کرنے کا حکم دیا ہے

عدالت نے سزا یافتہ افراد کی اپیل پر اڑتیس صفحات پر مشتمل تحریری فیصلے میں کہا کہ اس کیس کا ایک اہم پہلو مقتولہ کا 2011ع میں ایک صحافی کو دیا گیا انٹرویو ہے

عدالت نے کہا کہ ملزمان کے وکیلوں کے مطابق قانونی طور پر اس انٹرویو کی کوئی حیثیت نہیں ہے اور سزا کاٹنے والے مجرموں کے وکلا کو مقتولہ کے انٹرویو پر انہیں جرح کا موقع نہیں ملا

مقتولہ پروین رحمان نے یہ بیان کسی عدالت کے سامنے ریکارڈ نہیں کرایا تھا۔ تفصیلی فیصلے میں عدالت نے ملزمان کے وکلا کا موقف تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ انٹرویو مقدمے میں ثبوت کے طور پر قابل قبول نہیں

کراچی کے سابق صحافی فہد دیش مکھ کو اپنے قتل سے دو سال قبل 2011ع میں دیے گئے انٹرویو میں پروین رحمان نے ملزمان کے نام لیے تھے اور یہ انٹرویو ان کے قتل کے بعد آن ائیر کیا گیا تھا

عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ یہ بھی ہو سکتا ہے مقتولہ پروین رحمان نے انٹرویو کراچی کی اس وقت کی امن و امان کی صورتحال کو مد نظر رکھ کر دیا ہو

کیس کی جے آئی ٹی کے رکن بابر بخت نے بھی اپنے بیان میں کہا کہ مقتولہ نے اپنے انٹرویو میں سیاسی جماعتوں پر بھی عمومی نوعیت کے الزام لگائے تھے اور جے آئی ٹی کے رکن نے کہا کہ جو ملزمان کیس کا سامنا کر رہے ہیں ان میں سی کسی پر مخصوص الزام نہیں

عدالتی فیصلے کے مطابق پراسکیوشن یہ بھی ثابت نہیں کیا ملزم رحیم سواتی کا کس سیاسی جماعت سے تعلق ہے۔ ملزمان کے خلاف کوئی ٹھوس شواہد موجود نہیں ہیں۔ جائے وقوعہ سے ملنے والے گولیوں کے خول پولیس مقابلے میں مارے جانے ملزم قاری بلال کے پسٹل سے ملتے ہیں

پروین رحمان کو جس ہتھیار سے قتل کیا گیا، اس کے خول ملزمان کے ہتھیار سے میچ نہیں ہوئے۔ لیکن ملزمان کی گرفتاری کے وقت سے کوئی ایسا کوئی ہھتیار بھی برآمد نہیں کیا گیا ہے

عدالت نے مزید کہا کہ ملزمان کا قاری بلال سے کوئی تعلق بھی ثابت نہیں کیا جا سکا ہے۔ پراسکیوشن نے اس حوالے سے مزید کوئی تحقیقات نہیں کی لہذا اس ثبوت کی کوئی حثیت نہیں ہے۔ پروین رحمان قتل کیس میں بنائی گئی جے آئی ٹی کی حیثیت کیس کے چالان سے زیادہ کی نہیں ہے

قتل کا واقعہ

پچپن سالہ سماجی کارکن پروین رحمان کو 13 مارچ 2013ع کو منگھو پیر روڈ پر واقع بنارس پل کے قریب اس وقت ایک موٹر سائیکل پر سوار دو مسلح افراد نے فائرنگ کر کے قتل کر دیا تھا جب وہ اپنے دفتر سے گھر جا رہی تھیں

انہیں گردن میں گولیاں ماری گئیں تھیں۔ ان کے ڈرائیور نے شدید زخمی پروین رحمان کو عباسی شہید ہسپتال پہنچایا جہاں وہ ابتدائی علاج کے دوران دم توڑ گئی تھیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close