صوبہ پنجاب کے دارالحکومتی شہر لاہور میں پولیس نے ایک کاروباری شخص کی تجوری سے کروڑوں روپے چوری کی واردات کو چار گھنٹے میں حل کر لیا۔ پولیس کے مطابق چور کوئی اور نہیں بلکہ کاروباری شخص کا اپنا سگا بڑا بھائی تھا
تفصیلات کے مطابق لاہور کی فروٹ منڈی میں 19 نومبر کی رات اڑھائی بجے دو نقاب پوش افراد داخل ہوئے۔ انہوں نے بھاری بھر کم گیس کا سلنڈر اٹھایا ہوا تھا۔ تیزی سے چلتے ہوئے انہوں نے اس بات کا یقین کیا کہ چوکیدار راؤنڈ لگانے کچھ دُور نکل چکا ہے
ایک دکان کا دروازہ کھلا اور بے تابی سے ان کا انتظار کرنے والے ایک شخص نے ان آنے والوں کو فوراً اپنی دکان میں داخل کر کے دروازہ بند کر لٹ۔ تینوں افراد چھت پر پہنچے اور ساتھ والی دکان کی لوہے کی چھت کو گیس کٹر سے کاٹنا شروع کر دیا
چھت کاٹنے کے بعد وہ نیچے آئے اور سیڑھیوں سے ملحقہ ایک اور لوہے کا دروازہ کاٹ لیا۔ اس کے بعد وہ کیش روم میں داخل ہوئے، جہاں سامنے ہی ایک بھاری بھر کم تجوری موجود تھی
کئی گھنٹے کی کوششوں کے بعد وہ تجوری کی موٹی دیوار بھی کاٹنے میں کامیاب ہو گئے، اس کے بعد بوریوں میں کیش بھرنا شروع دیا، اور صبح ہونے سے پہلے ہی رفو چکر ہو گئے
مذکورہ دکان کے مالک شہزاد علی نے علی الصبح دروازہ کھولا تو ان کو پتا چلا کہ ان کا خزانہ لٹ چکا ہے۔ فوری پولیس کو اطلاع دی گئی اور پولیس جائے وقوعہ پر پہنچ گئی
تھانہ راوی روڈ کے انچارج انویسٹی گیشن عالم لنگڑیال نے واقعے کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا ’ہم نے واقعے کی ایف آئی آر فوری طور پر نا معلوم افراد کے خلاف درج کی اور تفتیش شروع کر دی۔‘
شہزاد کی دکان میں کوئی سی سی ٹی وی کیمرہ نہیں لگا ہوا تھا۔ جبکہ ساتھ والی دکان میں کیمرہ تھا لیکن اس کا ڈی وی آر غائب تھا۔ یہ دکان شہزاد کے بڑے بھائی افتخار علی کی تھی
تفتیشی افسر کے مطابق ’جب افتخار نے بتایا کہ اس کا سی سی ٹی وی کیمرہ خراب ہے۔ مجھے اسی وقت اس پر شک ہونا شروع ہو گیا۔ پولیس نے جائے وقوعہ کو نہیں چھوڑا۔ اور ادھر ادھر دکانوں کی چھان بین کی ایک دکان سے سی سی ٹی وی کی فوٹیج ملی لیکن یہ کافی نہیں تھی کیونکہ یہ افراد نقاب پہنے ہوئے تھے
اس سی سی ٹی وی سے پولیس کو فریم میں ایک اور شخص بھی نظر آیا جو کہ وہاں کا مزدور دکھائی دیتا تھا لیکن وہ ان افراد کو دیکھ کر غائب ہو گیا۔ عالم لنگڑیال نے بتایا کہ ’ہم نے خاموشی سے اس مزدور کے بارے میں معلومات لیں تو وہ ہمیں مل گیا اس نے بتایا کہ رات اڑھائی بجے ان دونوں افراد کو دیکھا تھا اور افتخار نے ان کو اپنی دکان میں داخل کیا۔‘
پولیس افسر نے مزید بتایا ’یہ گواہی ناکافی تھی لیکن سمت کا تعین ہم نے کر لیا تھا۔ اسی وقت افتخار کا کال ریکارڈ نکلوایا تو چوری کی واردات کے دوران اس کے فون سے متعدد کالز کی گئیں۔‘
انہوں نے کہا ’ہمارا شک یقین میں بدل چکا تھا۔ پولیس کو واقعے کی تفتیش کرتے ساڑھے تین گھنٹے ہو چکے تھے۔ میں نے ایک اہلکار کو اشارہ کیا کہ افتخار کو حراست میں لے لو۔ جیسے ہی اس نے افتخار کو پکڑنا چاہا اس نے پولیس اہلکار پر حملہ کر دیا اور اس کے ہاتھ کی انگلی چبا ڈالی جس سے اہلکار کی ہڈی ٹوٹ گئی۔ تاہم پولیس نے ملزم کو گرفتار کر لیا۔ اس کے بھائی شہزاد نے ہمیں روکنے کی کوشش کی چونکہ ایف آئی آر درج ہو چکی تھی اس لیے اس بات کی اہمیت زیادہ نہیں تھی۔‘
پولیس افتخار کو گرفتار کر کے تھانے لے آئی تو اس کو فوٹیج اور کال رکارڈ دکھایا گیا اور مزدور کے روبرو کیا گیا۔ آدھے ہی گھنٹے میں ملزم نے اقبال جرم کر لیا
پولیس کو ملزم نے بتایا کہ اس نے چوری کے پیسے گھر رکھے ہوئے ہیں۔ تفتیشی افسر کے مطابق ’ہم ایک لمحہ بھی ضائع کیے بغیر ڈیفنس میں واقع ملزم کے گھر پہنچے تو نوٹوں سے بھری بوریاں ریکور کر لیں۔‘
تفتیشی افسر کے مطابق افتخار نے جڑانوالہ سے دو جرائم پیشہ افراد کو دس دس لاکھ کے عوض اپنے سگے بھائی سے چوری کو راضی کیا تھا۔ اور پولیس نے انہیں افتخار کے گھر سے ہی گرفتار کیا
افتخار کی عمر چون سال جبکہ ان کے چھوٹے بھائی شہزاد کی عمر پینتالیس سال ہے۔ جبکہ شہزاد کی بیٹی بھی افتخار کے بڑے بیٹے سے بیاہی ہوئی ہے۔