کہانی کا سفر (افسانہ)

عبدالشکور جاذب

برگد نے اپنے پہلو میں بندھے بیل پر ایک نظر دوڑائی تو نامعلوم دکھ کی لہر اس کے وجود میں سرایت کر گئیـ
چند سال پہلے یہی بیل جوانی کے نشے میں چُور ادھر ادھر دوڑتا پھرتا تھاـ چمکدار سفیدی مائل جلد چاندی کی مانند چمکتی تھی۔ چوڑا ماتھا اور موٹی گردن پر گوشت کی ایسی تہیں تھیں، جیسے تندوری پراٹھوں کے لیے بنے ہوئے بل دار پیڑے ہوں ـ کشادہ سینہ اور چھوٹا پیٹ، جیسے چیتا زقند بھرنے کو تیار کھڑا ہو ـ ناک کی نکیل اور رسی تو زیور محسوس ہوتے تھے، جو اس کی شان بڑھا دیتے تھے ـ گوشت سے بھرے نرم و ملائم کولہے اور زمین کو چھوتی ہوئی چمکدار دم، جو تیل لگے کوڑے کی طرح چمکتی تھی اور کچھ جوانوں پر کوڑے کی طرح برس بھی چکی تھی ـ دس من کے وزن کے ساتھ چلتا تھا تو زمین ہلتی محسوس ہوتی تھی ـ لیکن اب مسلسل کولہو میں جت جت کر اس کا جثّہ کمزور پڑ چکا تھا ـ تھان سے کولہو اور کولہو سے تھان کے گھن چکر نے اسے کنویں کا مینڈک بنا دیا تھا ـ

برگد بولا: ”بیل میاں! کیسا دن گزرا؟“

”بس گزر گیا! تمہیں علم تو ہے کہ سارا دن کولہو چلاتا ہوں، خون پسینہ ایک کرتا ہوں ـ جسم اور جان کا رشتہ برقرار ہے“

”آج نڈھال لگ رہے ہو؟“

”چلنا اور مدام چلنا تو معمول کا کام ہے، مجھ سے بہتر کون کر سکتا ہے ـ جُوا گلے میں ڈال کر کولہو چلانا اور تیل نکالنا گدھے کا کام تھوڑا ہے“

بیل کی آواز میں مرا ہوا فخر تھا، جیسے سارے دن کی مشقت اس کے لیے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے ـ اگرچہ وہ تھکن سے چور نظر آ رہا تھا ـ

”تم آنکھوں پر پٹی باندھے لگاتار چلتے رہتے ہو ـ کبھی کبھار سستی غالب آئے تو مالک کھری کھری سناتا بھی ہے اور پیٹھ پر چابک بھی رسید کرتا ہے ـ کبھی دل چاہا کہ پہلے کی طرح سر سبز کھیتوں کی آزاد فضا میں بھاگوں دوڑوں؟ اپنا من پسند تازہ چارہ کھاؤں؟“

بیل نے چارے سے سر اٹھایا، جو آدھا سوکھ چکا تھا، اور اداس لہجے میں بولا ”دل تو بہت چاہتا ہے لیکن اب تو جیسے سوچوں پر پہرہ لگ چکا ہے ـ دماغ میں کولہو ، تھان اور چارے کے سوا کچھ آتا ہی نہیں ـ مالک شروع میں جب چابک مارتا تھا تو جی چاہتا تھا اسے ٹکر مار کر دور پھینک دوں لیکن اب۔۔۔! اب تو چابک کھا کھا کر رفتار تیز کرنا عادت بن چکی ہے ـ اب بھی کبھی کبھار دل میں ابال اٹھتا ہے، جی چاہتا ہے ٹکر مار کر مالک کی کھوپڑی توڑ دوں لیکن اب۔۔۔! اب چابک بہت تکلیف دیتا ہے“ بیل نے بے اختیار اپنی ادھڑی ہوئی کھال کو دیکھتے ہوئے جواب دیا

”یہی تو المیہ ہے، تمہارے مالک کو تمہارے آرام کا ذرا خیال نہیں، سارا دن تمہیں جوتتا ہے اور تمہیں کھلانے کو کھل نہ چوکر، صرف چارہ۔۔۔! زیادہ گاہک، زیادہ تیل؛ بس یہ دو چیزیں اس کے دماغ میں گھس چکی ہیں“

”سچ کہتے ہو! آواز اٹھائیں بھی تو ہماری کون سنے گا ـ نقار خانے میں طوطی کی آواز کون سنتا ہے؟“

”تمہاری گرتی ہوئی صحت اور نکلی ہوئی ہڈیاں مجھے ہولا رہی ہیں ـ تمہاری نرم و ملائم جلد کھردری اور بھدی ہو چکی ہے ـ گردن پر جوے کی رگڑوں سے اوپری کھال پھٹ کر موٹی اور سیاہی مائل ہو چکی ہے ـ رانوں کا گوشت لٹک چکا ہے ـ گردن کے گوشت کی جھالر جھریوں سے بھر کر اپنا حسن کھو چکی ہے ـ کولہے کی ہڈیاں دو ابھاروں کی صورت بین کر رہی ہیں“

برگد کے الفاظ بیل پر بم بن کر گرے اور اس نے بمشکل ایک نظر اپنے سراپے پر ڈالی اور مایوسی سے سر جھکا لیا

”سچ کہتے ہو! وقت سے پہلے ہی بوڑھا ہو رہا ہوں، اب تو مالک کبھی کبھار میرے گبھرو بیٹے کو بھی آنکھوں پر پٹی باندھ کر تربیت دینے کی کوشش کرتا ہے ـ اسے دیکھ کر مجھے اپنی جوانی یاد آتی ہے کہ کیسے میں بھی شروع شروع میں اڑیل تھا، ٹانگیں اٹھا اٹھا کر زمین پر دے مارتا تھا، گویا زلزلہ آ جاتا تھا، دس بیس چابک تو اثر ہی نہیں کرتے تھے ـ لیکن آہستہ آہستہ دم خم نکلتا گیا بالکل اسی طرح، جیسے غبارے سے آہستہ آہستہ ہوا نکل جانے پر وہ ڈھیلا اور پلپلا ہو جاتا ہے ـ اب تو بغیر کہے گول چکر میں چلنا شروع کر دیتا ہوں ـ تھان پر کھڑا ہوں، تب بھی یہی محسوس ہوتا ہے گویا جُوا میری گردن پر ہے اور میں گول گھوم رہا ہوں ـ“

ان کے درمیان چند لمحے خاموشی کی نذر ہو گئے۔۔ گمبھیر خاموشی؛ جس میں وسوسوں کے ناگ پلتے ہیں اور اندیشوں کے سنپولیے سر سراتے ہیں

”میرے دوست برگد!“ بیل کی آواز نے برگد کو خاموشی کے جنگل سے نکالا ”تم کتنے اچھے ہو! سالہا سال سے مجھے سایہ فراہم کرتے رہے ہو۔۔ تھکا ہارا آتا ہوں تو تمہارے سائے تلے ماں کی آغوش جیسا سکون محسوس کرتا ہوں“

”میرا تو کام ہی سایہ فراہم کرنا ہے۔۔ تھکے ہارے لوگ چند لمحے میری گھنی چھاؤں میں بیٹھ کر تازہ دم ہوتے ہیں اور دوبارہ سفر کے لیے نکل کھڑے ہوتے ہیں۔۔ رنگا رنگ پرندے شدید گرمی میں میری شاخوں پر بسیرا کرتے ہیں اور بہار کے موسم میں تو میلے کا سماں ہوتا ہے لیکن۔۔۔“

”بہار کی خوب کہی پیارے برگد! تمہارے پرانے زرد پتے جھڑ جاتے ہیں اور نمو پاتی کونپلوں اور نرم و نازک پتوں کی اٹھان ہی نرالی ہوتی ہے ـ سرخی مائل گولیں نگینوں کی طرح چمکتی ہیں ـ مجال ہے جو دھوپ چوڑے پتوں سے چھن کر زمین تک پہنچے ـ ایسے بزرگ کی مانند لگتے ہو، جس کی گھنی چھاؤں میں بچے پل کر جوان ہوتے ہیں ـ چڑیاں، طوطے، کوے اور بلبلیں ایسی رونق لگاتے ہیں کہ روح سرشار ہو جاتی ہے“

”اب تو بہار بھی ایسے نوالے کی مانند لگتی ہے جسے دو دن کے بھوکے کو دے کر کہا جائے، لو بھئی عیش کرو! بہار کے دن بھی خزاں کے اندیشوں کی نذر ہو جاتے ہیں“

برگد کی بات سن کر بیل مزید اداس ہو گیا ـ اچانک بیل کی نظر برگد کے موٹے تنے پر پڑی اور وہ بے اختیار بولا ”برگد بھائی! تمہارے بدن کو کون ادھیڑتا رہا ہے؟“

”ایک ضرورت مند تھا، جسے شاید دوا کے لیے میری چھال چاہیے تھی۔۔ چلو درد تو جھیلا لیکن کسی کے کام تو آیا“

”اور تمہارا یہ موٹا ٹہنا بھی مالک نے کاٹ ڈالا ـ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے تمہارا دایاں بازو کندھے سے کاٹ ڈالا گیا ہو۔۔۔“

”ضرورت کا کھیل ہے پیارے! ہم جیسے دوسروں کی ضروریات پوری کرنے کے لیے ہوتے ہیں ـ جس کا جب جی چاہا، چھیل کاٹ کر لے جائے۔۔ ہم تو خامشی کا چولا پہنے اندر ہی اندر گھلتے رہتے ہیں“ برگد پر گمبھیر اداسی چھا گئی

”سچ کہتے ہو، ہماری مرضی کون پوچھتا ہے؟ ہم بے زبانوں کو جس کا جدھر جی چاہے، ہانک دیتا ہے“

”میرا جی چاہتا ہے میں پرندہ ہوتا، جدھر جی چاہتا اڑتا پھرتا۔۔ چمکیلے آسمان کے نیچے کھلی فضاؤں میں اڑانیں بھرتا۔۔“

”اور کسی شکاری کی بندوق سے نکلی گولی کا شکار ہو جاتا“ بیل نے قہقہہ لگایا، بالکل اپنے آپ کی طرح بوڑھا قہقہہ!

”ویسے تم نے کبھی سوچا کہ یہاں سے کسی اور جگہ ہجرت کی جائے؟ آخر ایک ہی جگہ اور مرکز سے اکتاہٹ تو ہوتی ہے“

”تم بھی تو ایک ہی مرکز کے گرد گھوم رہے ہو۔۔ درخت ہجرت نہیں کیا کرتے، اگرچہ دل میں کبھی کبھار خیال سر اٹھاتا ہے کہ نئے ماحول کا لطف لیا جائے، تبدیلی سے ہمکنار ہوا جائے لیکن ہمارا مرکز تو یہی زمین ہے، اگر چھوڑ دی تو منہ کے بل گرنا مقدر بن جائے گا۔۔۔“

بیل نے سر ہلایا گویا بات اچھی طرح سمجھ گیا ہے

خاموشی کا وقفہ ہوا تو برگد اور بیل نے تیسرے فریق کی طرف دیکھا، جو اب تک ان کی باتیں خاموشی سے سن رہا تھا۔ شکل سے مسافر لگتا تھا۔ بال گرد سے اٹے ہوئے اور چہرہ دھوپ سے سنولایا ہوا تھا۔ برگد اس سے مخاطب ہوا ”تم بھی کچھ سناؤ۔۔۔“

تیسرے فریق نے ہنکارا بھرا اور بولا ”میں ں۔۔۔! بھلا میرا اور تمہارا کیا موازنہ؟ میں آدمی ہوں اور تم۔۔۔!“

برگد اور بیل کی آنکھیں چار ہوئیں اور انہوں نے دل ہی دل میں سوچا کہ چلو اک نیا قصہ سننے کو ملے گا۔ وقتی ہی سہی لیکن منہ کا ذائقہ تو بدلے گا۔۔ چنانچہ اب بیل اشتیاق سے بولا ”اپنی زندگی کا کوئی قصہ، کوئی واقعہ، کچھ تو ہوگا تمہارے پاس سنانے کے لیے“

”تم بضد ہو تو ضرور کچھ سناتا ہوں۔۔۔“

اس نے فقرے ترتیب دیے، کھنکار کر گلا صاف کیا اور بولنے کی کوشش کی، لیکن یہ۔۔۔ یہ کیا؟ کوئی لفظ نہیں، کوئی فقرہ نہیں۔۔۔ اس کی آواز جیسے گلے میں ہی بیٹھ گئی!

اس نے دوبارہ حوصلہ جمع کیا، الفاظ اور جملے ترتیب دیے لیکن زبان گنگ ہو گئی اور الفاظ ساتھ چھوڑ گئے۔۔ اس کی گردن پر رکھا جوان چہرہ ایک دم بوڑھا ہو گیا ـ
کیونکہ یہ ساری کہانی اور قصہ تو وہی تھا، جو بیل اور برگد سنا چکے تھے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close