دنیا میں کوئی اور ایسی قومی اور فوجی شناخت نہیں ہے، جو یہ کام کر سکے مگر ٹی وی پر ایک اشتہار دیکھ کر اچانک اسرائیل یاد آتا ہے
اس اشتہار میں ایک بچہ بڑے ہی بھلے انداز میں کہتا ہے: جو کوئی نہیں کر سکتا وہ ’چیمپیئن‘ کر سکتا ہے۔ پھر یہی بات اس بچے کی ماں اور دادی وغیرہ بھی دہراتی ہیں
جب بھی یہ اشتہار دیکھتا ہوں تو فوراً اسرائیل یاد آتا ہے، بین یامین نتن یاہو یاد آتا ہے
ہاں اِس ’چیمپیئن‘ کا کام تو بڑا مثبت ہے۔ داغ دھونے والا، دھبے دور کرنے کا کام۔۔ لیکن اسرائیل کی یاد اس لیے نہیں آئی کہ اسرائیل سے کوئی مثبت کام یاد آنے لگتا ہے۔ اس کی موجودگی ہی اثبات کے انکار اور نفی کی دلیل ہے۔ بس اسرائیل کی انتہائی صلاحیت اور اس ’چیمپیئن‘ کی انتہائی صلاحیت باہم مشترک ہے۔ ٹی وی پر چلنے والا اشتہار ’چیمپیئن‘ مثبت کاموں کے لیے انتہائی کارآمد بتایا جاتا ہے جبکہ اسرائیل اور اس کے سپوت سموتریتش، بن گویر اور نتن سے سجنے والا اسرائیل منفی اور کریہہ کاموں کے لیے انتہائی طور پر بروئے کار ہے
اسرائیل کی یہ شناخت آج کی نہیں ہے، شروع سے ہے۔ اگر بہت احتیاط کی جائے تو جس چیز کا آج ان سطور میں ذکر کیا جانے لگا ہے، ان کا ریکارڈڈ حوالہ کم از کم 1967ع کی عرب اسرائیل جنگ سے ضرور موجود ہے
وہی چھ روزہ جنگ، جو دنوں کے اعتبار سے تو بہت لمبی نہ تھی مگر اس جنگ نے مشرق وسطیٰ کی تاریخ میں اور عربوں کی نئی نسل کے مستقبل پر ایک ایسا چھرا گھونپا کہ فلسطین آج بھی لہو لہو ہے، فلسطین آج بھی زخم زخم ہے
اسی لہو کی فراوانی سے اسرائیل اپنے نارملائزیشن کے پودے کو سیراب کر رہا ہے
اسے یقین ہے کہ اس ’آب سرخ‘ سے مشرق وسطیٰ میں ترقی وخوشحالی کے لالہ و گل ابھریں گے۔ سیاحت فروغ پذیر ہو گی اور پھر سماج اور ثقافت کی رنگینیوں میں جام لنڈھائے جا سکیں گے
بات اسرائیل کے اس کام کی ہو رہی تھی، جو اسے عالمی نقشے پر اور زیادہ کریہہ، جابر اور غیر انسانی شناخت دیتا ہے، وہ انسانوں کو اغوا کرنا یا انہیں بے دردی، بے رحمی اور پوری درندگی سے قتل کرنا ہی نہیں رہا ہے۔ نہ ہی یہاں زندہ اور مردہ انسانوں کے جسموں کو بلڈوزروں سے کچلنے کا تذکرہ سمیٹا جا سکتا ہے
یہ ایک غیر معمولی اور انتہائی منفرد کام ہے۔ ایک ایسا کام جو دہشت گردی اور انسانیت سوزی کا کوئی چمپئین یعنی اسرائیل ہی کر سکتا ہے۔ اس صنعت کا سرائیل مہذب دنیا میں بانی ہے۔ ایک زمانے میں ہلاکو خان سے یہ منسوب تھا کہ وہ انسانوں کی کھوپڑیوں کے مینار بناتا تھا۔ آج اسرائیل دہائیوں تک فلسطینیوں کی لاشوں کے انبار لگائے رکھتا ہے۔ ہلاکو اور چنگیز کے ادوار میں یہ کام ان کے انسان کشی کے ’انفرادی ذوق‘ کے مرہون منت تھا۔ مگر اسرائیل میں یہ ریاستی شغل ہے، اسلوب ہے، حکمت عملی ہے
یہ پہلی اور دوسری جنگ عظیم کی ظلم کہانیوں سے زیادہ دردناک اور شرمناک واردات ہے۔ اگر اسے ایک ’مسلسل ہولوکاسٹ‘ کا نام بھی دیا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ بلکہ قوانین، پابندیوں اور سزاوں کے سہارے تخلیق اور برقرار رکھے گئے ’ہولوکاسٹ‘ کے یہودی تصور سے کہیں زیادہ سنگین یہ ‘ہولوکاسٹ’ تو اسرائیلی افواج، حکومت، سیاسی جماعتوں اور درندگی کی علامات لیے ہوئے ہے۔ یہ اسرائیلی وصہیونی سماج میں یہ کام 1967 سے جاری ہے۔ انسانوں کی لاشیں ان کے ورثاء یا والدین، خاندان یا بچوں کے حوالے نہ کرنے کا کام
مگر ایسا ہر گز نہیں ہے ‘چیمپئین اسرائیل’ کے بارے میں ان سطور میں کوئی انکشاف کیا جا رہا ہے۔ اسرائیل کی فلسطینیوں اور ان کے معصوم بچوں اور عورتوں کے خلاف بپا کردہ اس ‘ہولوکاسٹ’ کو ‘ہولوکاسٹ’ کہے بغیر انسانی حقوق کے ادارے بیان بھی کر چکے ہیں۔ اس بارے میں رپورٹس بھی مرتب کر چکے ہیں۔ رہی بات اقوام متحدہ کی اور عالمی طاقتوں خصوصاً امریکہ اور مغربی ممالک کی تو یہ سب کچھ ان کی ناک کے توعین نیچے ہو رہا ہے۔ ان سب نے اسرائیل کے ساتھ مل ملا کر جرمنی میں ہونے و الے مبینہ ‘ہولو کاسٹ’ کو شاید عالمی سطح پر ‘پیٹنٹ’ کرا رکھا ہے
امریکہ اور مغربی دنیا کے اسرائیل کے ساتھ تعلق کو دیکھا جائے تو یہ کہا جا سکتا ہے یہ انہی کی آشیرباد سے ممکن ہے۔ انہی کی آشیرباد سے تو اسرائیل کے لیے ممکن ہے کہ اس نے انسانی معاشرے کے مہذب اور متمدن ہو جانے کے تمام تر دعوؤں کے باوجود جنگلی معاشرے کی ایک جیتی جاگتی دنیا اسرائیل میں بسا رکھی ہے۔ جو بالآخر کسی سرمایہ کار کے لیے ٹکنے کی جگہ رہے گی نہ کسی کے بچوں کے لیے رہنے کی جا
ان سطور کے لکھنے کی وجہ شاید فوری پیش نہ آتی لیکن واشنگٹن، نیو یارک، کینبرا اور تل ابیب ہی نہیں پاکستان کے بعض شہروں سے اخبارات کو سترہ سالہ اسرائیلی ‘تیران فیرو’ کے بارے میں ایک خبر بڑی شد ومد اور تواتر کے ساتھ شائع کرتے دیکھا تو خیال آیا کہ ان فلسطینیوں کی لاشوں کا بھی تذکرہ ہونا چاہیے جنہیں اسرائیل نے کم از کم 1967 سے یرغمال یا قید رکھنے کا معاملہ شروع کر رکھا ہے اور اس جانب کوئی بین الاقوامی سطح پر عدل بانٹنے والی عدالت آئی نہ امریکہ، برطانیہ، فرانس، اور جرمنی کی رگ انسانیت پھڑکی
جبکہ نہیں معلوم کہ 1967ع سے اسرائیل ان فلسطینیوں کو سمندر میں پھینک چکا ہے، اجتماعی قبروں کے نام پر گڑھوں ڈال چکا ہے یا ابھی تک ہسپتالوں کے مردہ خانوں میں رکھے ہوئے ہے
حتیٰ کہ ناروے، سویڈن، آسٹریا اور سوئٹزرلینڈ ایسے ممالک جنہیں انسانی حقوق اور انسانیت کے حوالے سے بڑے ہمدرد طبع اور نازک خیال بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ جن کے فنڈز انسانیت یا انسانی حقوق کے بیانے کے زور پر چلنے والی تنظیمیں بظاہر انسانی عظمت کو بحال کرانے عرب وعجم میں ماری ماری پھرتی ہیں۔ وہ بھی اس نام نہاد مہذب دنیا میں اسرائیل کی ہلاکو خانی اور فرعونیت کو چنداں زیر بحث نہیں لا پاتیں
گویا اسرائیل کو ان سب نے ایک نئی ‘ہولوکاسٹ کا لائسنس، ٹھیکہ، یا باقاعدہ طور پر کوئی بین الاقوامی معیار کا ‘این او سی’ دے رکھا ہے۔ یا خدانخواستہ معاملہ اس سے بھی آگے کا ہے اور ان سب نے مل کر اسرائیل کو فلسطینی عربوں پر اندھا دھند مظالم کی اسائنمنٹ تفویض کر رکھی ہے۔ کہ بس تیل کی دولت سے مالا مال مشرق وسطیٰ میں امن نہیں رہنے دینا
ہاں تو عرض کیا تھا کہ ایک تازہ خبر، جس کا تذکرہ اسی نومبر کے آخری ہفتے میں مسلسل دیکھنے کو اخبارات میں ملا ہے، یہ ایک 17 سالہ اسرائیلی ‘تیران فیرو’ کی لاش کے حوالے سے ہے۔ ‘تیران فیرو’ اپنے ایک دوسرے اسرائیلی دوست کے ساتھ مقبوضہ مغربی کنارے کے علاقے میں اپنی فراٹے بھرتی گاڑی پر سوار تھا اور ڈرائیونگ کے مزے لے رہا تھا۔ اچانک گاڑی اس سے بے قابو ہو کر حادثے کا شکار ہو گئی اور گاڑی پر گھومنے نکلے یہ دونوں اسرائیلی دوست شدید زخمی ہو گئے
‘تیران فیرو’ اور اس کے دوست کو زخمی حالت میں فوری طور پر ہسپتال پہنچا دیا گیا۔ یہ علاقہ چونکہ فلسطینی آبادی کا علاقہ تھا، اس لیے ان دونوں اسرائیلی لڑکوں کو زخمی حالت میں ہسپتال پہنچانے کا کام بھی فلسطینیوں نے کیا ہوگا۔ کیونکہ جس ہسپتال میں ان کو لے جایا گیا، اس کے نام سے بھی فلسطینی شناخت کا پتہ چلتا ہے۔ اسی ہسپتال میں ‘تیران فیرو’ جانبر نہ ہو سکا البتہ اس کے ساتھی اور دوست کی زندگی خطرے سے باہر بتائی گئی
‘تیران فیرو’ کی لاش کے ساتھ تقریباً تیس گھنٹوں کے ساتھ وہ سلوک ہوا، جو فلسطینیوں کی کم از کم 80 لاشوں کے ساتھ اسرائیل 1967 سے لے کر اب تک مسلسل کرتا آ رہا ہے اور اسرائیل نے کم از کم 80 فلسطینیوں کی لاشوں کو برسہا برس سے اپنی حراست میں رکھا ہوا ہے۔ جی ہاں انہیں جان سے مار دینے اور ان کی لاشوں کو کچل دینے کے بعد بھی بھی حراست میں رکھا ہوا کہیں یا یرغمال بنا کر رکھا ہوا۔ ان کی لاشیں اسرائیل نے ان کے ورثا کے حوالے نہیں کی ہیں۔
دنیا بھر کی مہذب تاریخ میں صدیوں سے لاشوں کے حقوق کئی حوالوں سے زندہ انسانوں کے مقابلے میں بڑھ کر رائج رہے ہیں۔ لیکن اسرائیل اور اس کے سرپرستوں کا مہذب دنیا سے کیا لینا دینا۔ اسرائیل جو زندہ فلسطینیوں کو انسان سمجھنے اور ان کے بنیادی حقوق کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہے۔ ان 80 فلسطینیوں کی لاشوں کے لیے اسرائیل کیوں اپنی روایات کو پس پشت ڈالے۔ کیوں ایک زندہ وجاوید اور جاری وساری ‘ہولوکاسٹ’ کو بپا کرنے میں رخنہ ڈالے، کیوں؟ اس کا تو جنم ہی ‘ہولو کاسٹ’ کے مرہون منت ہو سکا۔ ’ابن ہولوکاسٹ۔۔۔!!‘
بہرحال ‘تیران فیرو’ کی لاش ہسپتال سے فلسطینیوں کا ایک گروہ اٹھا کر لے گیا کہ اسے اپنے پاس رکھے گا اور تب تک واپس نہیں کرے گا، جب تک اسرائیل ان کے پیاروں کی لاشیں جو سالہا سال سے اسرائیلی قبضے یا حراست میں ہیں، انہیں واپس نہیں کرتا۔ اپنے پیاروں کی لاشوں تک سے محروم فلسطینی اسے اپنے لیے جائز سمجھ سکتے ہیں، لیکن پسندیدہ نہیں
فلسطینی عوام کا خمیر جس مٹی سے اٹھا تھا، اس نے یہ گوارا نہ کیا کہ اس عمل کو تیس گھنٹوں سے بھی آگے بڑھائے۔ بہت سارے فلسطینیوں اور ان کی تنظیموں نے فوراً ہی اس گروہ کو اسرائیلی نوجوان کی لاش واپس کرنے کے لیے کہنا شروع کر دیا۔ حتیٰ کہ اسرائیلی اور بین الاقوامی میڈیا رپورٹس میں بھی یہ رپورٹ کیا گیا کہ حماس اور اس طرح کی دیگر مزاحمتی تحریکوں نے بھی پس پردہ رابطوں میں اسرائیلی نوجوان کی فوری واپسی میں تعاون کیا۔ جبکہ ‘تیران فیرو’ کے دوست کو زخمی حالت میں پہلے ہی واپس کیا جا چکا تھا۔ فیرو کی لاش بھی تیس گھنٹوں کے اندر اندر واپس کر دی گئی
تاہم ایک مروج اصول یہ بھی ہے کہ ہر عمل کا ایک رد عمل ہوتا ہے۔ اس لیے اسرائیل کو اپنے عمل کا جائزہ لینا ہوگا، بصورت دیگر فطری رد عمل کو کون روکتا رہے گا
یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ بین الاقوامی سطح پر، میڈیا میں، سفارتکاری کی سطح پر اور اسرائیل کے اندر سخت احتجاج اور احتجاجی مظاہروں کے نتیجے میں دباؤ کی ایسی فضا پیدا کر دی گئی کہ یہ ممکن نہ رہا کہ اسرائیلی نوجوان کی لاش زیادہ دیر اپنے پاس رکھی جا سکتی
مگر سوال یہ ہے کہ کیا بین الاقوامی طاقتیں، بین الاقوامی سفارتکار، عالمی ادارے اور بین الاقوامی میڈیا سب ہی موشے دایان کی طرح ایک آنکھ والا چشمہ لگاتے ہیں۔ کہ انہیں بھی ایک آنکھ بینائی کا کوئی ایشو ہے۔ کیا بین الاقوامی میڈیا بھی اپنی بائیں آنکھ سے موشے دایان کی طرح مسلسل محروم چلا آ رہا ہے
آئیں ان ایک آنکھوں والوں کو دھیرے دھیرے ان فلسطینیوں کی لاشوں کی طرف لے کر چلتے ہیں جن کی جانب دیکھنے والی ان کی آنکھ ہمیشہ بینائی سے محرومی کی حالت میں رہتی ہے۔ اس کے باوجود یہ بین الاقوامی میڈیا اور اس کے ساتھ جڑنے کی سعادت و اعزاز پانے والا تیسری دنیا کا میڈیا ہی ہمیشہ ‘مین سٹریم میڈیا’ قرار پاتا ہے۔ حالانکہ ایک آنکھ سے دیکھنے والا پوری ندی کا کبھی احاطہ کر ہی نہیں سکتا۔ وہ تو صرف ایک طرف کا ‘ویو’ ایک جانب کی موج کے ساتھ موج بر موج رہ سکتا ہے
اس اسرائیلی نوجوان ‘تیران فیرو’ کی طرح کا ایک فلسطینی تھا۔ اس کا نام احمد اریکات تھا۔ اس کی گاڑی کو بھی حادثہ پیش آیا تھا۔ اس حادثے سے محض چند گھنٹے بعد اس کی بہن کی شادی کی تقریب سجنے والی تھی۔ وہ تیاریوں میں ہمہ تن مصروف تھا۔ بس فرق یہ تھا کہ یہ چھبیس سالہ احمد اریکات فلسطینی تھا، مسلمان تھا۔ گاڑی پر سوار تھا کہ اس کی گاڑی کو حادثہ پیش آیا تھا۔ حادثے کا شکار ہونے پر اسرائیلی قابض فوجیوں نے اسے روکا۔ یہ گاڑی سے نیچے اترا۔ ان کے سامنے ان کے سوالوں کے جواب دینے کے لیے اسے کوئی اعتراض نہ تھا۔ مگر اسے جائے حادثہ پر کھڑے کھڑے گولی مار دی گئی۔ اس کے باوجود کہ وہ بھاگا نہیں تھا۔ کوئی بات نہیں یہ تو فلسطینیوں کا معمول ہے۔ اسی طرح جینا اور مر مر کے جینا
مگر ذکر صرف احمد اریکات کی لاش کا ہے۔ جو اس کے والد کو اس روز دینے سے یہ کہہ اسرائیلی قابض فوج نے انکار کر دیا کہ کل آئیے گا، لاش کل ملے گی۔ وہ کل نہ آ سکی، حتیٰ کہ 80 دن تک احمد اریکات کی لاش فوجی چیک پوائنٹ پر ہی رکھے رکھی اور والدین یا خاندان کو واپس نہ کی گئی۔ البتہ 80 دن کے بعد واپس کر دی۔ یہ فلسطینیوں کی ان 80 لاشوں میں سے ایک لاش تھی یا ان کے علاوہ تھی، اس بارے میں مصدقہ طور پر کہنا مشکل ہے
کہا جا سکتا ہے کہ سترہ سالہ اسرائیلی لڑکے اور اور اس چھبیس سالہ فلسطینی میں فرق تھا۔ نو سال کی عمر کا فرق تھا۔ اسرائیلی نوعمر تھا۔ درست ہے مگر یہ بھی کافی فرق ہے کہ اس کی لاش 80 دن تک فوجی چوکی پر پڑی رہنے کی ظالمانہ سوچ مسلسل 80 دن تک بروئے کار رہی۔ جبکہ اسرائیلی نوجوان کی لاش محض 30 گھنٹوں میں واپس کر دی گئی۔ ‘تیران فیرو’ کی لاش چند فلسطینی افراد کا فعل تھا۔ یہ اسرائیل کی سرکاری اور قابض فوج کی باضابطہ حکمت عملی کا شاخسانہ تھا
یروشلم لیگل ایڈ اینڈ ہیومن رائٹس سنٹر کی رپورٹ کے مطابق 2015 سے 2017 یا 2018 کے درمیان تک اسرائیل نے 67 کی لاشیں اسی طرح یرغمال بنا کر رکھیں یا لاشوں کو قید میں ڈالے رکھا گیا ہے۔ بعد ازاں کیا ہوا، یہ ہر گز نہیں کہا جا سکتا کہ اسرائیل نے انسانی انداز واطوار اختیار کر لیے یا تہذیب کے دائرے میں آ کر یہ سب لاشیں واپس کر دیں۔ بس یہ ہوا کہ این جی اوز نے بھی میڈیا کی طرح موشے دایان کا اسلوب بصارت اختیار کر لیا
ایک فلسطینی بچی اسریٰ خذیمیہ تھی۔ اس کی عمر 14 سال تھی۔ یہ ستمبر 2021 میں اسرائیلی فائرنگ سے شہید ہوئی تھی۔ اس کی لاش بھی فوری واپس نہیں کی گئی تھی بلکہ نومبر 2021 میں کسی وقت جا کر واپس کی گئی۔ اس 14 سالہ فلسطینی عرب بیٹی کی لاش بھی تقریباً دو ماہ اسرائیل نے قید میں رکھی
ایک فلسطینی باپ کی بات بھی سنیں۔ اس کا نام اسامہ ابو سلطان ہے۔ اس کے بیٹے کو بھی شہید کر دیا گیا جس کی عمر 14 سال تھی۔ مگر لاش واپس نہ کی گئی۔ اس کی لاش کئی ہفتے کے احتجاج کے بعد واپس کی گئی مگر اسامہ ابو سلطان کہتے ہیں ‘یہ لاش ان کے 14سالہ بیٹے کے بجائے کسی 40 سال کے قریب کی عمر کے فلسطینی کی تھی۔’ اس پر اسرائیلی انتظامیہ نے بس اتنا کہا ‘غلطی سے لاش بدل گئی ہوگی۔’
یہ اور اس طرح کے کئی واقعات اسرائیل کے خونی نہیں بلکہ درندگی پر مبنی طرز فکر و عمل کے عکاس ہیں۔ مگر گلہ اسرائیل سے نہیں۔ اسے ایک ‘نارمل’ ریاست سمجھنے والوں سے، اسے’ نارمل’ ریاست کے طور پر لینے والوں اور اس کے ساتھ ایک نارمل ریاست کے طور پر ڈیل کرنے والوں سے ہے۔ ان بین الاقوامی طاقتوں، ریاستوں اور اداروں سے ہے جو اس کے بارے میں موشے دایان بن کر بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کو بھی صرف اسی صورت ‘مین سٹریم میڈیا’ ہونے کی سند دیتے ہیں جب وہ خود کو پوری طرح ‘موشے دایانی میڈیا’ ثابت کرتا ہے
یقیناً یہ سب کچھ کرنے کی اہلیت اور صلاحیت کسی عام آدمی اور نارمل ریاست میں نہیں ہو سکتی۔ یہ سب کام ایک ‘چیمپیئن’ ہی کر سکتا ہے۔ ہاں آپ اسے ‘چیمپیئنوں’ کا ‘چیمپیئن’ کہہ سکتے ہیں۔ اسرائیل جسے گویر، سموتریتش اور نتن کو اس سے بھی کریہہ راستے پر آگے بڑھانے کا حلف اٹھا رکھا ہے، قسم کھا رکھی ہے
بشکریہ: انڈپینڈنٹ اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)