فلسطین کے حامی عالمی عدالت کے فیصلے سے خوش بھی، غم زدہ بھی۔۔

ویب ڈیسک

نیدرلینڈز کے شہر دا ہیگ میں عالمی عدالت انصاف نے جب جنوبی افریقہ کی درخواست سے اسرائیل کے خلاف نسل کشی کے الزام کے حوالے سے عبوری حکمنامہ دیا تو فلسطین کے حمایتی عدالت کے باہر خوش بھی تھے اور غم زدہ بھی۔

عالمی عدالت انصاف جب ہنگامی اقدامات پر فیصلہ سنا رہی تھی تو عدالت کے باہر ایک بڑی اسکرین پر پوری سماعت نشر کی جا رہی تھی، جسے سن کر فلسطینی حمایتوں نے پہلے خوشی کا اظہار کیا اور پھر افسوس کا

عالمی عدالت انصاف نے اسرائیل کو غزہ میں نسل کشی روکنے، اس پر براہ راست اکسانے کا عمل روکنے اور اپنے اقدامات کے حوالے سے عدالت میں ایک ماہ میں رپورٹ جمع کروانے کا حکم دیا ہے۔

تاہم عدالت نے فلسطین میں جنگ بندی کے حوالے سے کوئی فیصلہ نہیں سنایا، جس کی وجہ سے فلسطینی حمایتوں نے افسوس کا اظہار کیا۔

اس سماعت کو عالمی عدالت کے باہر بڑی اسکرین پر نشر کیا گیا، جسے دیکھنے کے لیے لوگ دنیا بھر سے آئے تھے۔ 11 اور 12 جنوری کو ہونے والی پچھلی دو سماعتوں کے برعکس جمعہ 26 جنوری کی سماعت میں عدالت کے باہر اسرائیلی حمایتی موجود نہیں تھے۔

پچھلی سماعتوں میں عدالت کے باہر دونوں گروپوں کی جانب سے احتجاج کیا گیا تھا، جس کے باعث نیدرلینڈز کی حکومت نے سخت سکیورٹی انتظامات کیے ہوئے تھے۔ تاہم جمعے ہر جگہ صرف فلسطینی جھنڈے ہی لہراتے ہوئے نظر آ رہے تھے۔

فیصلہ سننے کے لیے فلسطینی حمایتی اس قدر پرجوش تھے کے بڑی اسکرین پر لائیو اسٹریم میں جب بھی کسی قسم کا خلل آتا تو لوگ پریشان ہوجاتے اور ’فلسطین بچاؤ‘ کے نعرے بلند کرنے لگتے۔ اسی طرح کسی اچھی بات پر تالیاں گونج اٹھتیں تھیں۔

عدالت نے جب یہ اعلان کیا کہ جنوبی افریقہ کا کیس نسل کشی کنوینشن کی بنیادوں پر مکمل طور پر پورا اترتا ہے، تو فلسطین کے حامیوں میں خوشی اور امید کی لہر دوڑ گئی۔

ایک بزرگ خاتون جو بڑی اسکرین کے سامنے ہاتھ جوڑے کھڑیں تھیں، انہوں نے اطمینان کا سانس بھرا اور اپنے آنسو پونچھے۔۔ یورپی ممالک میں تنہا رہنے والے کئی بزرگوں کی طرح یہ خاتون بھی اس پورے مجمعے میں اکیلی ہی کھڑیں تھی، لیکن جیسے ہی ان کی آنکھوں سے آنسوں چھلکے تو چند لوگوں نے انہیں سینے سے لگا لیا اور فلسطین کی صورت حال بہتر ہونے کی امید دلائی۔

عدالت کے باہر موجود فلسطینی حمایتی اور احتجاجیوں میں صرف نیدرلینڈز کے رہاشی ہی نہیں بلکہ دیگر ملکوں کے لوگ بھی موجود تھے۔

امریکی شہر واشنگٹن ڈی سی سے تعلق رکھنے والی نورین علی خان کا کہنا تھا ”بہت افسوس کی بات ہے کہ تمام دنیا فلسطینیوں کی جانیں جاتے ہوئے دیکھ رہی ہے لیکن پھر بھی عدالت نے جنگ بندی کا فیصلہ نہیں سنایا“

عالمی عدالت انصاف کی طرف سے جاری کردہ فیصلے کے حوالے سے ہیومن رائٹس واچ میں بین الاقوامی انصاف کے ایسوسی ایٹ ڈائریکٹر، بالکیز جراح کا کہنا تھا ”عالمی عدالت کا تاریخی فیصلہ اسرائیل اور اس کے اتحادیوں کو اس بات کا نوٹس دیتا ہے کہ غزہ میں فلسطینیوں کے خلاف نسل کشی اور مزید مظالم کو روکنے کے لیے فوری کارروائی کی ضرورت ہے“

انہوں نے کہا ”حکومتوں کو فوری طور پر عالمی عدالت کے حکم پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کے لیے اسرائیل پر دباؤ ڈالنے کی ضرورت ہے۔ آئی سی جے کا فوری فیصلہ غزہ کی سنگین صورتحال کا اعتراف ہے، جہاں شہریوں کو فاقہ کشی کا سامنا ہے اور جہاں لوگ روزانہ کی بنیاد پر اس طرح مارے جا رہے ہیں کہ حالیہ تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی“

پچھلی سماعتوں کی طرح اس بار بھی فلسطینی حمایتی کئی گھنٹوں تک عدالت کے باہر اپنا احتجاج ریکارڈ کرواتے رہے۔ تاہم عدالت کے فیصلے نے جہاں انہیں امید دلائی، وہیں اسرائیل کی جانب سے اس فیصلے پر عمل درآمد کرنے کے معاملے پر تشویش میں مبتلا کر دیا۔

اگر ماضی کی مثالیں دیکھیں تو 2020 میں میانمار کے خلاف گامبیا کے نسل کشی مقدمے اور 2022 میں روس کے خلاف یوکرین کی جانب سے دائر کردہ نسل کشی مقدمے میں کچھ اسی طرح کی صورت حال تھی۔

دونوں مقدموں کے حوالے سے عدالت نے تاحال کوئی حتمی فیصلہ نہیں سنایا ہے۔ میانمار اور روس نے عالمی عدالت کے ہنگامی اقدامات کو نظر انداز کرتے ہوئے روہنگیا مسلمانوں اور یوکرین کے رہائشیوں پر مظالم جاری رکھے۔

فلسطین اور اسرائیل کے مقدمے میں بھی عالمی عدالت اپنی تحقیقات جاری رکھے گی، جس کے حوالے سے یہ کہنا مشکل ہے کہ عدالت اسرائیل کے خلاف جنوبی افریقہ کے نسل کشی کے الزامات پر حتمی فیصلہ کب سنائے گی۔

بوسنیا میں 1992 سے 1995 کے دوران جاری جنگ میں بوسنیا ہرزیگوینا نے سربیا اور مونٹی نیگرو کے خلاف عالمی عدالت میں نسل کشی کا مقدمہ دائرکیا تھا۔ اس مقدمے میں عدالت نے جنگ ختم ہونے کے 12 سال بعد 2008 میں اپنا فیصلہ سنایا تھا۔

’کوئی ریاست قانون سے بالاتر نہیں ہے‘، عالمی عدالت کے فیصلے پر فلسطین و دیگر کا ردعمل

عالمی عدالت نے اپنے فیصلے میں اسرائیل کو حکم دیا ہے کہ وہ فلسطینیوں کے خلاف نسل کشی کو روکے اور شہریوں کی مدد کے لیے مزید اقدامات کرے، تاہم اپنے فیصلے میں عدالت نے جنوبی افریقہ کی درخواست کے برعکس جنگ بندی کا حکم دینے سے گریز کیا

خبر رساں ایجنسی رائٹرز کے مطابق عالمی عدالت کے اس فیصلے میں جنگ بندی کا ذکر نہ ہونے سے جہاں فلسطینیوں کو مایوسی ہوئی، وہیں یہ اسرائیل کے لیے بھی قانونی طور پر بڑا دھچکا ہے جسے امید تھی کہ نسل کشی کے کنونشن کے تحت لائے گئے اس کیس کو برطرف کر دیا جائے گا۔

عدالت نے کہا کہ فلسطینیوں کو کنونشن کے تحت تحفظ حاصل ہے اور اس بارے میں مقدمہ سنا جائے گا کہ آیا اس لڑائی میں ان کے حقوق کی پامالی کی جا رہی ہے جس میں بڑے پیمانے پر انسانی نقصان ہو رہا ہے۔

عدالت نے فلسطینی گروپوں سے 7 اکتوبر کے حملوں میں گرفتار کیے گئے یرغمالیوں کو رہا کرنے کا بھی مطالبہ کیا۔

اس فیصلے کا جہاں فلسطین اور جنوبی افریقہ کے حکام نے خیر مقدم کیا، وہیں اسرائیل کے وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو نے بھی اس فیصلے کو اسرائیل کے حق میں قرار دیا۔

فلسطینی وزارت خارجہ نے کہا کہ یہ فیصلہ اس بات کی یاد دہانی ہے کہ کوئی ریاست قانون سے بالاتر نہیں ہے۔

حماس کے ایک سینئر عہدیدار سامی ابو زہری نے رائٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ فیصلہ غزہ میں قبضے کے خاتمے اور اسرائیلی جرائم کو بے نقاب کرنے میں مددگار ثابت ہوگا

تاہم اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے کہا کہ عدالت نے اسرائیل کو سیز فائر کا حکم دینے اور اپنے ’دفاع کے بنیادی حق‘ سے محروم کرنے کے ’اشتعال انگیز مطالبے‘ کو مسترد کر دیا۔

انہوں نے کہا کہ یہ دعویٰ کہ اسرائیل فلسطینیوں کی نسل کشی کر رہا ہے، نہ صرف غلط بلکہ اشتعال انگیز ہے اور عدالت کی اس معاملے پر بحث پر آمادگی ایک ایسی رسوائی ہے، جسے نسلوں تک مٹایا نہیں جا سکے گا۔

دوسری جانب جنوبی افریقی وزارت خارجہ نے اپنے بیان میں کہا کہ جنوبی افریقہ کو پوری امید ہے کہ اسرائیل اس حکم نامے کے اطلاق کے حوالے سے مایوس نہیں کرے گا بلکہ وہ اس کی مکمل تعمیل کرتے ہوئے اس پر عمل کرے گا کیونکہ وہ اس کا پابند بھی ہے۔

جنوبی افریقہ کی بین الاقوامی تعلقات کی وزیر نے کہا کہ اگر اسرائیل عالمی عدالت کے احکامات پر عمل کرنا چاہتا ہے تو اسے محصور غزہ کی پٹی میں لڑائی روکنی ہوگی۔

وزیر نیلیڈی پنڈور نے کہا کہ آپ جنگ بندی کے بغیر امداد اور پانی کیسے فراہم کر سکتے ہیں؟ اگر آپ حکم کو پڑھتے ہیں تو اس سے اصل معنی یہی اخذ ہوتے ہیں کہ جنگ بندی ہونی چاہیے۔

سعودی عرب نے اسرائیل کی جانب سے غزہ میں نسل کشی کے خلاف جنوبی افریقہ کے مقدمے میں عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہوئے بین الاقوامی برادری سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ عالمی قوانین کی ’خلاف ورزیوں‘ کے لیے اسرائیل کو جوابدہ ٹھہرائے۔

قطر کی وزارت خارجہ نے بھی عالمی عدالت انصاف کے فیصلوں کا خیرمقدم کیا اور اسے انسانیت اور انصاف کی فتح قرار دیا۔

کویت نے بھی عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کو ’اہم قدم‘ قرار دیتے ہوئے اس کا خیرمقدم کیا۔ کویت نے اس فیصلے کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی قانون، انسانی حقوق اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے اصولوں کا احترام کرنے پر بھی زور دیا۔

دوسری جانب عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کے بعد اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس آئندہ ہفتے ہوگا۔

بدھ کو ہونے والا اجلاس الجزائر کی طرف سے طلب کیا گیا ہے۔ الجزائر کی وزارت خارجہ نے کہا کہ اجلاس میں اسرائیل کو بین الاقوامی عدالت انصاف کے فیصلے کی پاسداری کے لیے پابند کیے جانے پر غور کیا جائے گا۔

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل پریذیڈنسی نے کہا ہے کہ کونسل کا اگلے ہفتے ہونے والا اجلاس عالمی عدالت انصاف کے اس فیصلے پر ہوگا، جس میں اسرائیل سے غزہ میں نسل کشی بند کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

واضح رہے کہ عالمی عدالت انصاف نے اسرائیل کو غزہ میں نسل کشی روکنے کے کنوینشن کے تحت اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے کی ہدایت بھی کی۔ عدالت نے اسرائیل سے کہا کہ وہ اپنی فوج کے نسل کشی والے اقدامات کی تحقیقات کرے۔ اسرائیل فوری طور پر غزہ میں انسانی امداد پہنچانے کے راستے کھولے۔

عدالتی فیصلے کے مطابق ’اسرائیل عالمی عدالت کے دیے گئے احکامات پر عمل کر کے رپورٹ جمع کرائے۔‘

عدالت نے مقدمے کی سماعت نہ کرنے اور جنوبی افریقہ کی درخواست خارج کرنے کی اسرائیل کی استدعا مسترد کر دی تھی۔

عالمی عدالت انصاف نے فیصلے میں کہا ہے کہ جنوبی افریقہ کو یہ درخواست دائر کرنے کا اختیار تھا۔

عالمی عدالت کی صدر جون ای ڈونوغیے نے فیصلے پڑھتے ہوئے کہا کہ ’عدالت علاقے میں رونما ہونے والے انسانی المیے سے آگاہ ہے اور وہاں مسلسل انسانی جانوں کے ضیاع پر تحفظات رکھتی ہے۔‘

نیدرلینڈز کے شہر دی ہیگ میں قائم عالمی عدالت نے جنوبی افریقہ کی درخواست پر دلائل سننے اور اسرائیل کا جوابی مؤقف سامنے آنے کے بعد فیصلہ محفوظ کیا تھا۔
عالمی عدالت انصاف کے مطابق جنوبی افریقہ کی جانب سے غزہ میں نسل کشی کے حوالے سے کافی مواد جمع کرایا گیا۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں اقوام متحدہ کی مختلف رپورٹس کا بھی حوالہ دیا، جن میں سے ایک کے مطابق غزہ بمباری کے بعد رہائش کے قابل نہیں رہا۔

عالمی عدالت انصاف نے جنوبی افریقہ کی جانب سے عبوری اقدامات کیے جانے کے مطالبے کو بھی درست قرار دیا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close