اسٹاک ہوم کے جنوب میں ایک موٹر وے پر تیزی سے چلتے ہوئے چالیس ٹن وزنی لاری اور ٹریلر کا ڈرائیور موصوف اپنی سیٹ سنبھالے صرف سڑک پر نظر جمائے رکھتا ہے، لیکن اس اسٹیرنگ گھمانے کی ضرورت نہیں پڑتی
ٹرک خود ہی چلتا ہے، تجربہ کار ڈرائیور راجر نورڈ کوسٹ صرف غیر متوقع مسائل کے لیے تیار بیٹھے ہیں
اگرچہ سویڈش ٹرک بنانے والی کمپنی سکینیا واحد آٹو مینوفیکچرر نہیں ہے، جو خودکار (آٹومیٹک) گاڑیاں تیار کرتی ہے، لیکن یہ حال ہی میں تجارتی سامان کی نقل و حمل کے لیے گاڑیاں چلانے والا یورپ کا پہلا ادارہ بن گیا ہے
سکینیا میں آٹونومس سلوشن کے سربراہ پیٹر حفمر نے اسٹاک ہوم کے جنوب میں واقع کمپنی کی ٹرانسپورٹ لیب کے باہر اے ایف پی کو بتایا ”ہم ان کا سامان پوائنٹ اے سے اٹھاتے ہیں، انہیں مکمل طور پر خودکار طریقے سے پوائنٹ بی تک لے جاتے ہیں“
پائلٹ پروجیکٹ کے تحت سیلف ڈرائیونگ ٹرک سویڈن کے جنوب میں سوڈرتالجے اور جونکوپنگ کے درمیان تقریباً تین سو کلومیٹر کے فاصلے پر فاسٹ فوڈ کا سامان پہنچا رہا ہے
باہر سے، ٹرک تقریباً کسی بھی دوسری لاری کی طرح نظر آتا ہے، اس کی چھت پر کیمرے لگے ہوئے ہیں اور اطراف میں بگ اینٹینا سے ملتے جلتے دو سینسر ہیں
ٹرک کے اندر، وہیل اور سیٹوں پر سینسر لگے ہیں، ڈیش بورڈ پر چھوٹے آلات اور اسکرینیں نصب ہیں اور تاروں کا ایک جال نشست کے پیچھے رکھے گئے کمپیوٹر کو چلاتا ہے
انجینیئر گوران فجلیڈ سیفٹی ڈرائیور کے بغل میں مسافر سیٹ پر بیٹھے ہیں، ان کی آنکھیں ان کے لیپ ٹاپ سے چپکی ہوئی ہیں کیونکہ وہ ٹرک کے کیمروں سے وڈیو اور ٹیکسٹ کی صورت میں معلومات موصول کر رہے ہیں کہ گاڑی کیا ’دیکھ‘ رہی ہے
دوسری اسکرین میں سڑک پر ٹرک اور آس پاس کی تمام گاڑیوں کا تھری ڈی ویژولائزیشن دکھایا گیا ہے
لاری مختلف سینسروں کے تمام ان پٹ کو جی پی ایس سسٹم کے ساتھ یکجا کرتی ہے، جس میں مختلف ٹکنالوجیز ایک دوسرے کے لیے بیک اپ کے طور پر کام کرتی ہیں
فجلیڈ نے وضاحت کرتے ہوئے بتایا ”اگر سڑک کے نشانات تھوڑی دیر کے لیے غائب ہوجاتے ہیں، تو یہ جی پی ایس کا استعمال کرتے ہوئے اپنی لین میں رہے گی۔ دستی طور پر چلانے کے مقابلے میں یہ خودکار طریقے سے بہتر چلتی ہے“
لیکن وہ تسلیم کرتے ہیں کہ ٹرک کو اس مقام تک پہنچانے میں بہت سارے ٹرائل اور غلطیاں ہوئیں
ہر بار جب ٹرک کچھ غیر متوقع چیز کرتا ہے، جیسا کہ بغیر کسی واضح وجہ کے بریک لگانا یا رفتار سست کرنا، تو عین اسی وقت فجلڈ وقت نوٹ کرتے ہیں تاکہ لوگز اور اعداد و شمار کی جانچ پڑتال کی جا سکے
روزانہ سڑک پر نکلنے سے قبل لاری کے سینسرز کو بھی کیلیبریٹ کیا جاتا ہے
حفمر بتاتے ہیں ”بغیر ڈرائیور والے ٹرکوں کو سڑکوں پر عام کرنے سے قبل ٹیکنالوجی اور قانون سازی دونوں کے لحاظ سے بھی کچھ رکاوٹوں کو دور کرنا ابھی باقی ہے“
حفمر کو امید ہے کہ 2020ع کی دہائی کے آخر یا 2030 کی دہائی کے آغاز تک یہ ٹرک تیار ہوجائے گا
دوسری جانب سیلف ڈرائیونگ ٹرکوں کی آمد کو ٹرک ڈرائیوروں کی ملازمتوں کے لیے خطرے کے طور پر بھی دیکھا جا رہا ہے، جو دنیا کے سب سے عام پیشوں میں سے ایک ہے
لیکن حفمر کا اصرار ہے کہ عالمی سطح پر ڈرائیوروں کی کمی کو دور کرنے کے لیے خودکار گاڑیوں کی ضرورت ہے
حفمر کے مطابق ”ابتدائی طور پر، سیلف ڈرائیونگ لاریوں کو ممکنہ طور پر طویل فاصلوں کے لیے استعمال کیا جائے گا، لیکن دکانوں اور گاہکوں کو تقسیم انسانی ڈرائیوروں کے ساتھ ہوگی“
جون میں انٹرنیشنل روڈ ٹرانسپورٹ یونین (آئی آر یو) کی ایک رپورٹ کے مطابق، 2021ع میں دنیا بھر میں ٹرک ڈرائیوروں کے لیے تقریباً چھبیس لاکھ ملازمتیں تھیں
حفمر نے دیگر ممکنہ فوائد کی نشاندہی بھی کی: چونکہ کمپیوٹرز کو سونے یا آرام کرنے کی ضرورت نہیں ہے، لہٰذا گاڑیوں کو ایسے اوقات میں شیڈول کیا جا سکتا ہے، جب ٹریفک کم ہوتا ہے
خیال رہے کہ سیلف ڈرائیونگ ٹرک لانچ کرنے کی دوڑ میں کئی دیگر کمپنیاں بھی شامل ہیں۔
اسٹارٹ اپس ارورا، وائیمو، امبارک، کوڈیاک اور ٹورک (ڈیملر کے ساتھ مل کر) امریکہ میں ٹیسٹ کر رہے ہیں، جبکہ چین کے بیدو نے 2021ع کے آخر میں سیلف ڈرائیونگ ٹرک کا اعلان کیا تھا
یورپ میں، آئی وی ای سی او کیلیفورنیا کے اسٹارٹ اپ پلس کے ساتھ کام کر رہا ہے، جسے ایمیزون کی سپورٹ بھی حاصل ہے اور اس نے حال ہی میں سرکٹ ٹیسٹنگ کے اپنے پہلے مرحلے کے اختتام کا اعلان کیا ہے۔ وہ روڈ ٹیسٹ بھی شروع کریں گے۔ سویڈش کمپنی آئن رائیڈ بھی جلد ہی جرمنی میں روڈ ٹیسٹ شروع کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔