بھارت میں نریندر مودی حکومت کی پالیسیوں کے ناقد معروف نشریاتی ادارے ’این ڈی ٹی وی‘ کے بانی ڈائریکٹرز پرنے رائے، ان کی اہلیہ رادھیکا رائے کے چینل کی پروموٹر کمپنی کے بورڈ آف ڈائریکٹر کے عہدے سے اور سینئر ایگزیکٹو ایڈیٹر رویش کمار کی جانب سے اپنے عہدے سے مستعفی ہونے کے بعد ان قیاس آرائیوں میں تیزی آ گئی ہے کہ یہ نشریاتی ادارہ جلد ہی دنیا کی امیر ترین شخصیات میں سے ایک، اڈانی گروپ کے مالک اور بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے انتہائی قریبی دوست گوتم اڈانی کی ملکیت میں چلا جائے گا
پرونائے رائے اور ان کی بیگم رادھیکا رائے ’این ڈی ٹی وی‘ کا آغاز روکھے سوکھے سرکاری ٹی وی دوردرشن پر سنہ 1998ع میں ایک شو کی شکل میں کیا تھا جس کا نام ’دا ورلڈ دِس ویک‘ (اس ہفتے کی دنیا) ہوا کرتا تھا
اس وقت ان کے ذہن میں ’کوئی عظیم منصوبہ‘ نہیں تھا اور شاید انہوں نے تب یہ سوچا بھی نہیں تھا کہ وہ عالمی خبروں کے اس ہفتہ وار پروگرام کے پروڈیوسر سے ایک دن بھارت کے پہلے چوبیس گھنٹے چلنے والے نیوز چینل کے کرتا دھرتا بن جائیں گے
اور پھر تین عشروں سے زیادہ عرصہ گزرنے کے بعد، آج ان دونوں میاں بیوی کا چینل دنیا کے تیسرے امیر ترین شخص، گوتم اڈانی کے ہاتھ فروخت ہونے جا رہا ہے۔ یہ سودا شوروشرابے سے بھرپور ذرائع ابلاغ کی دنیا کی سب سے بڑی مارکیٹ میں ہو رہا ہے اور اسے جو شخص خرید رہا ہے، دنیا کے امیر ترین لوگوں میں اس کا نام ایلون مسک اور جیف بیزوز کے بعد تیسرے نمبر پر آتا ہے
واضح رہے کہ پرنے اور رادھیکا کے پاس اب بھی کمپنی کے پروموٹر کی حیثیت سے 32.26 فی صد شیئرز موجود ہیں
اڈانی گروپ کے مالک گوتم اڈانی نے 23 اگست کو این ڈی ٹی وی لمیٹڈ کے 29.18 فی صد شیئرز خرید لیے تھے اور اعلان کیا تھا کہ وہ کمپنی کے مزید 26 فی صد شیئرز خریدنے کے لیے اوپن آفر دیں گے
انہوں نے 22 نومبر کو اوپن آفر دی جو 5 دسمبر تک کھلی رہے گی، اس دوران اگر وہ 26 فی صد شیئرز حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو ان کے پاس مجموعی طور پر کمپنی کے 55.18 فی صد شیئرز آجائیں گے اور وہ این ڈی ٹی وی کی انتظامیہ پر اپنا کنٹرول حاصل کرلیں گے
تاہم اگر وہ 50 فی صد سے زائد شیئرز حاصل کرنے میں کامیاب رہتے ہیں تو ان کے پاس دیگر ادارہ جاتی سرمایہ کاروں کے شیئرز حاصل کرنے کا متبادل رہے گا
واضح رہے کہ اس سے قبل اگست میں گوتم اڈانی کی جانب سے این ڈی ٹی وی خریدنے کی خبریں آنے کے بعد صحافتی حلقوں میں تشویش کا اظہار کیا گیا تھا
تجزیہ کاروں کا کہنا تھا ”این ڈی ٹی وی پر اڈانی کا قبضہ دراصل بھارت جیسی بڑی جمہوریت میں پریس کی بچی کھچی آزاد آواز کو دبانے کی کوشش ہے“
گوتم اڈانی نے جمعے کو اخبار ’فنانشل ٹائمز‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ این ڈی ٹی وی کی ملکیت کے حصول کو تجارتی مواقع سے زیادہ ذمہ داری سمجھتے ہیں
ان کے بقول بھارت میں کوئی میڈیا ادارہ ایسا نہیں ہے، جس کا موازنہ ‘فنانشل ٹائمز’ یا ‘الجزیرہ’ جیسے نشریاتی ادارے سے کیا جا سکے
انہوں نے کہا ”میں این ڈی ٹی وی کو ایک عالمی میڈیا گروپ بنانا چاہتا ہوں اور میں نے پرنے رائے سے کہا ہے کہ وہ اس کے چیئرپرسن بنیں۔“ اس معاملے پر پرنے رائے کی جانب سے کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے
واضح رہے کہ این ڈی ٹی وی ایک ایسا نشریاتی ادارہ ہے، جو حکومت کی پالیسیوں پر کھل کر تنقید کرتا ہے۔ اس کی اس پالیسی کی وجہ سے ہی اس کو دیکھنے والوں کی بہت بڑی تعداد ہے۔ اس کو پسند کرنے والے متعدد افراد نے ٹوئٹر پر اس کی حمایت کی اور گوتم اڈانی کی جانب سے اسے خریدنے کی مخالفت کی
حکومتی پالیسیوں پر سب سے سخت تنقید اس کے معروف اینکر پرسن رویش کمار کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اس تنقید کی وجہ سے حکومت نے ان کا بائیکاٹ کر رکھا ہے اور اس وجہ سے نہ حکومت اور نہ ہی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کا کوئی عہدیدار ان کے پروگرام میں آتا ہے
تجزیہ کاروں نے گوتم اڈانی کی جانب سے این ڈی ٹی وی کو خریدنے کے فیصلے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ حکومت اختلافی آوازوں کو دبانے کی کوشش کر رہی ہے
سینئر تجزیہ کار اُرملیش کا کہنا ہے کہ یہ بہت افسوسناک ہے۔ حکومت نے نسبتاً ایک آزاد میڈیا ادارے کو بھی برداشت نہیں کیا اور اپنے پسندیدہ کارپوریٹ ادارے کو اسے خریدنے کے لیے کہہ دیا۔ میڈیا کے لیے یہ حیرت ناک ہے
ان کا کہنا تھا کہ اس وقت ملک میں مین اسٹریم میڈیا بچا ہی نہیں ہے۔ اس وقت جو میڈیا ہے، آزادانہ صحافت میں اس کا کوئی کردار نہیں ہے۔ اب اس واقعے سے بھارت جیسے بڑے ملک میں جمہوریت کے بارے میں سوال اٹھتا ہے کہ یہاں کیسی جمہوریت ہے؟
دیگر تجزیہ کاروں نے کئی میڈیا ہاؤسز کے کارپوریٹ اداروں کی ملکیت میں چلے جانے کو انتہائی افسوسناک قرار دیا ہے۔ ان کے مطابق اب نشریاتی ادارے صحافت کرنے کے بجائے اپنے مالکان کے مفادات کے لیے ماحول سازی کرتے ہیں
مبصرین کے مطابق 2014ع کے بعد سے بھارت میں پریس کی آزادی متاثر ہوئی ہے۔حکومت پر تنقید کرنے کی وجہ سے کئی صحافیوں کے خلاف کارروائی بھی کی گئی ہے جب کہ کئی صحافی جیلوں میں بھی بند ہیں۔ اس کے علاوہ کئی صحافیوں پر انتہائی سخت قانون یو اے پی اے لگا دیا گیا ہے، جس کی وجہ سے ان کی ضمانت بھی منظور نہیں ہو پا رہی
بھارت میں ایک وسیع میڈیا انڈسٹری کی موجودگی کے باوجود پریس کی آزادی سے متعلق عالمی درجہ بندی میں بھارت کافی نیچے آگیا ہے۔ صحافیوں کی ایک بین الاقوامی تنظیم ’رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز‘ کے مطابق پریس کی آزادی کے حوالے سے 180 ملکوں کی درجہ بندی میں بھارت 150 ویں نمبر پر آگیا ہے
دوسری جانب حکومت پریس کی آواز دبانے کے الزامات کی تردید کرتی ہے۔حکومت کا مؤقف ہے کہ وہ پریس کی آزادی کی حمایت کرتی ہے اور اسے دبانے کی کوشش نہیں کی جا رہی ہے
واضح رہے کہ گوتم اڈانی کو وزیر اعظم نریندر مودی کا انتہائی قریبی سمجھا جاتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ 2001ع میں مودی کے گجرات کا وزیر اعلیٰ بننے کے بعد اڈانی گروپ کا کاروبار تیزی سے بڑھنے لگا
2014ع کے پارلیمانی انتخابات میں کامیابی کے بعد مودی گجرات سے دہلی گوتم اڈانی کے نجی طیارے سے آئے۔ اس سے قبل انتخابی مہم میں بھی انہوں نے ان کے طیارے استعمال کیے تھے
بھارت میں حزبِ اختلاف کی سب سے بڑی جماعت کانگریس کے سینئر رہنما راہل گاندھی نریندر مودی پر گوتم اڈانی اور مکیش امبانی کی حمایت کرنے اور ان کو تجارتی فائدہ پہنچانے کے لیے ملکی قوانین و ضوابط میں ترمیم کا الزام عائد کرتے رہے ہیں
گوتم اڈانی نے مودی سے قربت کے انہی الزامات کو دھندلانے کے لیے اب حزب اختلاف کے سیاسی رہنماؤں سے بھی اپنے تعلقات بڑھانا شروع کردیے ہیں، جس میں مغربی بنگال کی وزیرِاعلیٰ ممتا بنرجی اور راجستھان کے وزیرِاعلیٰ اشوک گہلوت سر فہرست ہیں
سچ پوچھیں تو مسٹر اڈانی کے سوانح نگار، آر این بھاسکر کے بقول ”بھارت کے تمام سیاسی رہنماؤں اور سماجی شخصیات اور ہر قسم کی پارٹیوں سے اڈانی کے تعلقات ایسے ہیں کہ وہ ہر حکومت کے لیے قابلِ قبول ہیں“
گوتم اڈانی این ڈی ٹی وی کو کیسے چلائیں گے؟
گوتم اڈانی بھارت کے قابل اعتماد اور آزاد چینل این ڈی ٹی وی کو خرید رہا ہے۔ اس سے بھارت کی صحافت میں کیا بدلے گا
این ڈی ٹی وی کی سالانہ محصولات 51 ملین ڈالر ہیں اور اس کا منافع لگ بھگ دس ملین ڈالر سالانہ ہے۔ ایک ایسے شخص کے لیے جس کی دولت 260 ارب ڈالر ہو اس کے لیے دس ملین ڈالر سالانہ منافع والی کمپنی میں کیا کشش ہو سکتی ہے
لیکن این ڈی ٹی وی بھارت کا ایک قابل اعتماد ٹی وی چینل ہے، جس نے ڈیٹا کی بنیاد پر انتخابی تجزیوں کی بنیاد رکھی اور مارننگ شوز اور ٹیکنکل اور لائف اسٹائل پروگرامز کی شروعات کیں۔ اس کے تمام پلیٹ فارمز پر ناظرین کی تعداد ساڑھے تین کروڑ تھی
اڈانی گروپ سمجھتا ہے کہ وہ این ڈی ٹی وی کے ذریعے اپنی سوچ کو لوگوں تک پہنچا سکتے ہیں
بعض لوگ اڈانی گروپ کی جانب سے این ڈی ٹی وی کو کنٹرول کرنے کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں
این ڈی ٹی وی کا شمار بھارت کے چند ایک ایسے میڈیا ہاوسز میں سے ہے، جو اپنے ہم عصروں کے برعکس جنگی جنون سے دور رہا ہے
آکسفورڈ یونیورسٹی اور روائٹر کے انسٹیٹیوٹ آف جرنلزم کے ایک سروے میں ظاہر ہوا کہ 76 فیصد لوگ این ڈی ٹی وی کو ایک قابل اعتماد ٹی چینل سمجھتے ہیں
گوتم اڈانی کے کنٹرول میں این ڈی وی کی ادارتی آزادی کے بارے میں شکوک کا اظہار کیا جا رہا ہے
اڈانی کی میڈیا کمپنی نے اس سال بزنس نیوز پلیٹ فارم بلومبرگ کوئنٹ کو بھی خرید لیا ہے۔’ یہ سب اگست میں کیسے شروع ہوا؟ اس سال اگست میں، اڈانی گروپ نے میڈیا کمپنی این ڈی ٹی وی میں بالواسطہ طور پر 29.18 فیصد حصص خریدے۔
جس طرح سے اڈانی نے ایک نامعلوم کمپنی کے ذریعے این ڈی ٹی وی میں حصہ خریدا ہے اُسے ’ہوسٹائل ٹیک اوور‘ یعنی انتظامیہ کی خواہشات کے خلاف کمپنی پر قبضہ کرنے کی کوشش سمجھا گیا ہے
دراصل، اڈانی گروپ نے ایکسچینج کو بتایا تھا کہ اس نے وشوا پردھان کمرشل پرائیویٹ لمیٹڈ یعنی وی سی پی ایل کو خرید لیا ہے۔ اڈانی نے 100 فیصد حصہ تقریباً 114 کروڑ روپے میں خریدا
میڈیا اور کنسلٹنسی کے کاروبار سے منسلک وی سی پی ایل کے کھاتوں کی جانچ پڑتال کرنے پر پتہ چلا کہ وی پی سی ایل نے این ڈی ٹی وی کی ایک پروموٹر گروپ کمپنی، آر آر پی آر ہولڈنگ پرائیویٹ لمیٹڈ کے 29.18 فیصد ایکویٹی شیئرز گروی رکھے تھے۔