بلوچستان: میڈیکل کالج میں مزدوری سے، اسی ہسپتال کا سرجن بننے کا سفر۔

ویب ڈیسک

ارادہ، محنت، لگن اور مسلسل جدوجہد وہ ہتھیار ہیں، جو پہاڑ سے بھی نہر نکال لیتے ہیں۔ محنت و لگن سے کام کرنے والے انسان کی یہ دلی خواہش اور سوچ ہوتی ہے کہ وہ اپنی زندگی کی منزلیں پاتا ہوا کامیابی کے بام عروج پر پہنچ جائے اور کامیاباں سمیٹتا جائے

کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر اعظم بنگلزئی کی زندگی ایسی ہی جہدِ مسلسل کی ایک حوصلہ افزا داستان ہے، جنہوں نے بولان میڈیکل کالج میں مزدوری کرنے سے لے کر اسی کالج میں سرجن بننے تک کا سفر طے کر کے ایک مثال قائم کر دی ہے

وکیپیڈیا پر موجود معلومات کے مطابق ڈاکٹر اعظم بنگلزئی 12 دسمبر 1960ع کو کوئٹہ میں حاجی محمد عالم کے ہاں پیدا ہوئے آپ کا قبائلی تعلق بنگلزئی قبیلے سے ہے اردو اور براہوئی میں شاعری کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ پشتو، فارسی؛ انگریزی زبانیں جانتے ہیں انہوں نے ماسٹر آف سرجری کیا ہے اور گولڈ میڈلسٹ ہیں۔ ان کا تعلق انتہائی غریب گھرانے سے ہے

ڈاکٹر اعظم بنگلزئی نے بولان میڈیکل کالج کی تعمیر میں ایک مزدور کی حیثیت سے کام کیا اور اسی درس گاہ سے ایم بی بی ایس کی ڈگری حاصل کی اور پھر سرجری کے میدان میں اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے بطور سرجن بھی اسی کالج اور ہسپتال میں خدمات سر انجام دیں

ڈاکٹر اعظم بنگلزئی بتاتے ہیں ”میں نے 1981ع میں بولان میڈیکل کالج میں داخلہ لیا تھا اور تعلیم حاصل کرنے کے دوران مجھے اخراجات پورے کرنے کی غرض سے پارٹ ٹائم ملازمت کی تلاش تھی۔ کسی نے مجھے بتایا کہ میرے اپنے ہی کالج کی عمارت میں کام چل رہا ہے اور وہاں لوگوں کی ضرورت ہے“

وہ کہتے ہیں ”میں وہاں گیا اور ٹھیکے دار سے نوکری کے لیے پوچھا اور مجھے رات کی شفٹ میں تیس روپے دیہاڑی کے حساب سے ملازمت مل گئی“

ڈاکٹر اعظم بنگلزئی نے ٹھیکے دار کو نہیں بتایا کہ وہ اسی کالج میں ایم بی بی ایس کے طالب علم ہیں ”میں آج بھی جب اس عمارت کی طرف جاتا ہوں، جس میں مَیں نے مزدوری کی تھی تو ماضی کی یادوں سے لطف اندوز ہوتا ہوں۔“

ڈاکٹر اعظم کو اب بھی یاد ہے کہ سردیوں کی ایک رات میں بجری کی ریڑھی گر جانے کی وجہ سے انہیں اس نوکری سے فارغ بھی کر دیا گیا تھا۔ انہیں ٹھیکے دار کے وہ الفاظ بھی نہیں بھولے، جو اس نے بجری کی ریڑھی گرنے پر انہیں کہے تھے: ”تم چھوڑ دو کام۔۔ تمہیں کام نہیں آتا“

وہ بتاتے ہیں ”میری منت سماجت کے باوجود بھی ٹھیکے دار نے مجھے آدھی دیہاڑی ادا کر کے فارغ کر دیا تھا۔“

اور پھر وہ کچھ ہوا جو اکثر فلموں میں دیکھنے کو ملتا ہے۔۔ ایک دن ژوب سے تعلق رکھنے والا وہ ٹھیکے دار کئی برس گزرنے کے بعد بیمار ہوا اور علاج کی خاطر ڈاکٹر اعظم بنگلزئی کے پاس آیا

ان لمحات کو یاد کرتے ہوئے ڈاکٹر اعظم بتاتے ہیں ”میری بولان میڈیکل کالج میں او پی ڈی چل رہی تھی کہ اچانک ایک بوڑھا مریض اپنے بیٹے کے ساتھ کمرے میں داخل ہوا۔ جیسے ہی میں نے دیکھا تو میں ماضی میں چلا گیا اور سوچا کہ اس شخص کو میں نے کہیں دیکھا ہے اور ذہن پر زور ڈالنے پر یاد آیا کہ یہ تو وہی ٹھیکے دار ہے۔۔ اس وقت میں بڑا جذباتی ہوگیا اور جب میں نے ان کا نام لیا تو انہوں نے کہا کہ ’آپ مجھے جانتے ہیں؟‘ میں نے کہا: ’جی! میرا آپ سے گہرا رشتہ ہے۔‘“

ڈاکٹر اعظم کے مطابق ”پھر میں نے خود اس ٹھیکے دار کی سرجری کی لیکن وہ بار بار مجھ سے پوچھ رہے تھے کہ ’ڈاکٹر صاحب میرے اوپر اتنی مہربانی آپ نے کیوں کی؟‘ تو میں نے کہا کہ ’آپ کا بہت احسان ہے مجھ پر، میں آپ کا احسان چکانا چاہ رہا ہوں کیونکہ آپ نے برے دنوں میں میرا ساتھ دیا تھا۔‘“

ڈاکٹر اعظم کے بقول ”اس نے مجھے سے پوچھا کہ ’آپ کو کیسے پتہ چلا کہ میں ٹھیکے دار ہوں؟‘ میں نے کہا: ’یاد ہے آپ کے ساتھ ایک غریب سا لڑکا ریڑھی بجری کا کام کرتا تھا۔ وہ لڑکا میں تھا، جس نے آپ کے ساتھ بطور مزدور کام کیا اور اسی مزدوری کے بعد میں نے اسی کالج میں اپنی پڑھائی جاری رکھی اور الحمد اللہ آج میں اس ہسپتال میں بطور سرجن اپنے فرائض ادا کر رہا ہوں“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close