حکومتِ سندھ نے پروین رحمٰن قتل کیس میں سزا پانے والے پانچ مجرمان کو رہا نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے، جن کی سزائیں 21 نومبر 2022 کو سندھ ہائی کورٹ نے کالعدم قرار دے دی تھیں
واضح رہے کہ کراچی میں اورنگی پائلٹ پراجیکٹ کی سربراہ پروین رحمٰن قتل کیس کے پانچ ملزمان کی سندھ ہائی کورٹ نے سزائیں کالعدم قرار دیں تھیں اور کسی اور مقدمے میں مطلوب نہ ہونے کی شرط پر رہا کرنے کا حکم دیا تھا
محکمہ داخلہ سندھ نے جمعرات کو پروین رحمٰن کے خاندان کی جانب سے دائر درخواست پر سندھ مینٹیننس آف پبلک آرڈر (ایم پی او) آرڈینینس 1996 کی دفعہ تین کی شق ایک کے تحت پانچوں سزا یافتہ افراد کو گرفتار کر کے نوے دن کے لیے مزید جیل میں رکھنے کا حکم جاری کر دیا ہے
محکمہ داخلہ سندھ کے حکم نامے کی موصول شدہ نقل کے مطابق: ’سندھ حکومت کو انٹیلیجنس ذرائع سے معلوم ہوا کہ اگر ملزمان کو رہا کیا گیا تو پروین رحمٰن کے خاندان والوں خاص طور پر ان کی بہن عقیلہ اسماعیل کی زندگی کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔ اس لیے ملزمان کو گرفتار کرکے نوے دن تک حراست میں رکھا جائے۔‘
پچپن سالہ سماجی کارکن پروین رحمٰن کو 13 مارچ 2013 کو کراچی میں منگھو پیر روڈ پر واقع بنارس پل کے قریب اس وقت موٹر سائیکل پر سوار دو مسلح افراد نے فائرنگ کر کے قتل کر دیا تھا جب وہ اپنے دفتر سے گھر جارہی تھیں
انہیں گردن میں گولیاں ماری گئیں تھیں۔ ان کے ڈرائیور نے پروین رحمٰن کو شدید زخمی حالت میں عباسی شہید ہسپتال پہنچایا تھا جہاں وہ ابتدائی علاج کے دوران دم توڑ گئی تھیں
ان کے قتل کے مقدمے میں 21 نومبر 2022 کو سندھ ہائی کورٹ نے شواہد مکمل نہ ہونے کی بنیاد پر سزا یافتہ مجرمان کی سزائیں کالعدم قرار دے کر انہیں رہا کرنے کا فیصلہ سنایا تھا
اس پر ان کے خاندان نے خدشہ ظاہر کیا کہ ملزمان کی رہائی سے خاندان اور اورنگی پائیلٹ پراجیکٹ میں کام کرنے والے افراد کو شدید خطرہ ہوسکتا ہے
پروین رحمٰن کی بہن عقیلہ اسماعیل نے بتایا تھا کہ ’اگر ملزمان رہا ہوئے تو نہ صرف خاندان کے افراد بلکہ اورنگی پائیلٹ پراجیکٹ میں کام کرنے والے افراد کو خطرہ ہوسکتا ہے۔‘
عقیلہ اسماعیل نے مطالبہ کیا کہ ملزمان کو ’ایم پی او آرڈیننس 1960 یا ایسے کسی دوسرے قانون کے تحت حراست میں رکھا جائے۔‘
پروین رحمٰن کون تھیں؟
کراچی شہر میں واقع ایک بڑی کچی آبادی سمجھے جانے والے اورنگی ٹاؤن کے باسیوں کو گھروں کی سرکاری رجسٹریشن، پانی کی لائن اور نکاسی آب کا نظام سکھانے کے لیے مشہور آرکیٹیکٹ اور سماجی رہنما پروین رحمٰن سابق مشرقی پاکستان اور موجودہ بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکہ میں 22 جنوری 1957 میں پیدا ہوئیں۔ تعلق ایک بہاری خاندان سے تھا
سال 1971 سقوط ڈھاکہ کے بعد بھی ان کا خاندان بنگلہ دیش میں ہی تھا
پروین رحمان کی بہن عقیلہ اسماعیل کے مطابق ان کا خاندان فروری 1972 تک بنگلہ دیش میں تھا۔ جب نئے بننے والے ملک کے سپاہیوں نے تینوں بہن بھائیوں کو والدین سمیت گھر سے بے دخل کر کے ایک میدان میں بھیج دیا تھا۔ جہاں مردوں کو جیل اور عورتوں کو ’شیتا لکھیا‘ کے پاس ایک کیمپ میں بھیجا جا رہا تھا اور ان کا خاندان کسی طرح نقل مکانی کرکے کراچی پہنچ گیا تھا
پروین رحمان نے ابتدائی تعلیم ڈھاکہ میں حاصل کی تھی۔ کراچی آنے کے بعد انہوں نے 1981 میں کراچی کے ڈاؤد کالج آف انجینیئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی سے آرکیٹیک انجئیرنگ میں بیچلرز کی ڈگری حاصل کی تھی
پروین رحمان نے 1986 میں نیدرلینڈ کے شہر روٹرڈم سے ہاؤسنگ سٹڈیز انسٹی ٹیوٹ سے رہائش، عمارت سازی اور شہری منصوبہ بندی میں پوسٹ گریجویٹ ڈپلوما کیا
پروین رحمان نے 1983 میں اورنگی پائلٹ پراجیکٹ کی جوائنٹ ڈائریکٹر بن گئیں، 1988 میں جب او پی پی کو چار تنظیموں میں تقسیم کیا گیا تو پروین رحمٰن اورنگی پائلٹ پراجیکٹ ریسرچ اینڈ ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ کی ڈائریکٹر بن گئیں
1983 سے 2013 تک تین دہائیوں تک پروین رحمٰن کراچی کی کچی آبادیوں اور قدیم گوٹھوں میں واقع سرکاری زمینوں پر قبضے اور تجاوزات کرنے والے گروہوں، غیرقانونی پانی کے ہائیڈرنٹس چلانے والوں پر تحقیق ان کو عوام کے سامنے لے آئیں۔