کراچی کی معروف کاروباری شخصیت رضوان احمد موجودہ معاشی حالات میں اپنے کاروبار کے بری طرح متاثر ہونے سے پریشان تو تھے ہی، لیکن جب سے انہوں نے پاکستانی کرنسی کے اگلے بارہ مہینوں میں کریش ہونے کے امکانات کی خبر سنی ہے تو وہ اپنا کاروبار بند کر کے کینیڈا منتقل ہونے کے بارے میں سوچ رہے ہیں
رضوان احمد کہتے ہیں ”کنٹینر کلیئر نہیں ہو رہے ہیں اور مہنگی بجلی کی وجہ سے برآمدات کے آرڈرز نہیں مل رہے۔ پاکستان کا معاشی بحران مستقل ہوتا جا رہا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ فوری طور پر بہتری کی گنجائش نہیں ہے۔ اس صورتحال میں اپنا مزید نقصان نہیں کرنا چاہتا۔ میں اس وقت پاکستان میں سرمایہ واپس لاؤں گا، جب پاکستان کے پاس ڈالرز کی کمی نہیں ہوگی“
کرنسی بحران اور اس کے اثرات کے حوالے سے ماہر معیشت ڈاکٹر فرخ کا کہنا ہے ”جدید دور میں کرنسی بحران کو تمام مالی مسائل کی ماں کہا جاتا ہے۔ کرنسی بحران کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ملک کے پاس بیرونی ادائیگیاں کرنے کے لیے انٹرنیشنل کرنسی خصوصی طور پر ڈالرز موجود نہیں ہیں“
ڈاکٹر فرخ کے مطابق ”پاکستان پچھلے کئی سالوں سے ’بیلنس آف پیمنٹ‘ خسارے کا شکار ہے، جسے پورا کرنے کے لیے پاکستان اب تک 135 ارب ڈالرز قرض لے چکا ہے۔ اسے پورا کرنے کے لیے پاکستان 23 مرتبہ آئی ایم ایف کے پاس جا چکا ہے اور آج بھی آئی ایم ایف کے سہارے کھڑا رہنے کی کوشش کر رہا ہے“
انہوں نے کہا ”جاپانی ادارے نومارا کے مطابق پاکستانی کرنسی اگلے بارہ مہینوں میں کریش کر سکتی ہے۔ اس کے مطابق سو سے زیادہ پوائنٹس کا مطلب یہ ہے کہ ملک کو 64 فی صد تک کرنسی بحران کا سامنا ہو سکتا ہے۔ پاکستان کے پوائنٹس 120 ہیں، جو کہ خطرناک حد تک زیادہ ہیں۔ ماضی میں امداد کی مد میں اربوں ڈالرز آنا معمول کی بات تھی لیکن اب یہ سہولیات پاکستان کے لیے ختم ہو چکی ہیں، جو کرنسی بحران پیدا ہونے کی بڑی وجہ ہے“
فرخ سلیم نے مزید کہا ”کرنسی کے بحران سے مہنگائی مزید بڑھ سکتی ہے۔ پیٹرولیم مصنوعات سمیت ضروریات زندگی کی اشیا کی قلت پیدا ہو سکتی ہے لیکن کرنسی کے بحران کو ڈیفالٹ سے جوڑنا مناسب نہیں ہے۔ آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینکوں نے کبھی ملکوں کو ڈیفالٹ ڈکلیئر نہیں کیا ہے بلکہ قرض کی مدت بڑھا دی جاتی ہے۔ کمرشل بینک اور بانڈز کی ادائیگی نہ کرنے سے ملک ڈیفالٹ ہوتا ہے“
ڈاکٹر فرخ کے بقول ”دسمبر میں ایک ارب ڈالر بانڈز کی ادائیگی ہو رہی ہے، اس کے بعد 2024ع میں بانڈز کی ادائیگی ہونی ہے۔ لہذا اگلے سولہ مہینے تک پاکستان ڈیفالٹ نہیں ہو گا، لیکن کرنسی کا بحران ختم کرنا ضروری ہے جس کے لیے سرکاری اداروں کی نجکاری بہتر حل ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ایک سو نوے سرکاری ادارے ہیں، جن کی نجکاری کر کے ملک میں ڈالرز آ سکتے ہیں اور قرضوں کا تیس فی صد بوجھ کم کیا جا سکتا ہے“
کرنسی بحران کے معاملے پر سابق وزیر خزانہ حفیظ پاشا صاحب کہتے ہیں ”کرنسی کا بحران شدت اختیار کر چکا ہے، اگر فوراً قابو نہ پایا گیا تو چند مہینوں میں نہیں بلکہ چند ہفتوں میں پاکستانی کرنسی کریش کر سکتی ہے۔ صرف بانڈز کی ادائیگی کر دینا کافی نہیں۔ تقریباً دو سے اڑھائی ارب ڈالرز کم از کم ہر ماہ چاہیے ہوں گے۔ بانڈز ادائیگی کے بعد ڈالر ذخائر تقریباً سات ارب ڈالرز رہ جائیں گے، جن میں سے تین ارب ڈالرز سعودی عرب کے ہیں، جنہیں استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ آئی ایم ایف مارچ سے پہلے قرض نہیں دے گی۔ سوال یہ ہے کہ ان تین مہینوں کے لیے ڈالرز کہاں سے آئیں گے“
سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر سلیمان شاہ کہتے ہیں ”پاکستان سے تقریباً 65 ارب ڈالرز درآمدات اور تقریباً 35 ارب ڈالرز قرض کی مد میں ملک سے باہر چلے جاتے ہیں۔ تقریباً 30 ارب ڈالرز کی بیرون ملک پاکستانیوں کی ترسیلات ہیں اور 31 ارب ڈالر برآمدات سے آتے ہیں، یعنی تقریباً 39 ارب ڈالرز کا خسارہ ہے جو کرنسی بحران کی بڑی وجہ ہے۔ موجودہ کرنسی بحران کے شدید ہونے کی سب سے بڑی وجہ سیاسی عدم استحکام ہے۔ فوری الیکشن کروا کر اس بحران کو کم کیا جا سکتا ہے کیونکہ بیرون ملک پاکستانیوں اور سرمایہ کاروں کو موجودہ وفاقی حکومت پر اعتماد نہیں ہے۔ سرکار نے ڈالرز کی قلت کے باعث ڈیفنس سے متعلقہ سامان کی درآمدات کی ادائیگی بھی روک دی ہے“
کرنسی ایکسچینج ایسوسی ایشن آف پاکستان کے جنرل سیکرٹری ظفر پراچہ کے مطابق ”انٹربینک ریٹ سے 30 روپے اوپر گرے مارکیٹ میں ڈالر مل رہا ہے۔ اس کا منفی اثر پاکستان کے ڈالر ذخائر پر پڑا ہے۔ ڈالرز بحران کی بڑی وجہ حکومت کی جانب سے کمپنیوں پر غیر ضروری دباؤ بھی ہے، جس کی وجہ سے لوگ ایکسچینج کمپنیوں کو ڈالر نہیں دے رہے اور گرے مارکیٹ میں بیچ رہے ہیں“
سیالکوٹ چمبر آف کامرس کے سابق صدر میاں نعیم جاوید کہتے ہیں ”ڈالر بحران سے کاروباری اور عام آدمی کی زندگی بھی بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔ کرنسی بحران کا براہ راست تعلق مہنگائی سے ہوتا ہے۔ روپے کی بے قدری سے عام آدمی کی قوت خرید کم ہو رہی ہے اور کاروبار سکڑ رہا ہے۔ اگر کرنسی بحران کم کرنے کے لیے انٹربینک میں ڈالر 260 روپے تک بڑھا دیا گیا تو بزنس کمیونٹی کے مسائل مزید بڑھ جائیں گے“