یورپی یونین نے روسی تیل کی قیمت کی حد متعین کی، جس سے جی سیون ممالک نے بھی اتفاق کر لیا ہے۔ امریکہ کا کہنا ہے اس اقدام سے ‘پوٹن کی آمدن کے سب سے اہم ذرائع میں فوری طور پر کمی ہونے کا امکان ہے۔’
امریکی حکام کے مطابق مہینوں کی کشمکش کے بعد بالآخر دو دسمبر جمعے کے روز مغربی اتحادی ممالک نے روسی تیل کی قیمت کی حد مقرر کرنے پر اتفاق کر لیا۔ متعین کی گئی قیمت کے مطابق روسی خام تیل کی برآمدات کے لیے اب 60 ڈالر فی بیرل سے زیادہ کی قیمت نہیں ادا کی جائے گی
اس کا نفاذ 5 دسمبر پیر کے روز سے ہوگا اور اس سے روس کی آمدن میں کافی کمی کا امکان ہے۔ اس فیصلے سے جہاں یوکرین میں جنگ کی مالی اعانت کے حوالے سے ماسکو کی صلاحیت متاثر ہوگی، وہیں کم آمدن والے یورپی ممالک کو کافی راحت ملنے کا بھی امکان ہے
سب سے پہلے یورپی یونین نے اس پر اتفاق کیا اور اس کے فوری بعد جی سیون گروپ میں شامل امریکہ، کینیڈا، جرمنی، جاپان، برطانیہ، فرانس، اٹلی اور آسٹریلیا جیسے ممالک نے بھی اس کی توثیق کر دی
پولینڈ مقرر کردہ 60 ڈالر سے بھی کم کی قیمت مقرر کرنے پر کافی دنوں سے اصرار کر رہا تھا۔ تاہم یورپی یونین نے بالآخر اسے اپنی تجویز کے لیے قائل کر لیا اور اس طرح پولینڈ نے اپنا اعتراض واپس لے لیا۔ اس کے بعد یورپی بلاک نے معاہدے پر اتفاق رائے کا اعلان کیا
فیصلے کے فوری بعد اسٹونیا کی وزیر اعظم کاجا کالز نے ٹویٹر پر اپنی ایک پوسٹ میں کہا ”روسی توانائی سے حاصل ہونے والی آمدن کو کمزور کرنا، روس کی جنگی مشین کو روکنے کے مترادف ہے“
امریکی وزیر خزانہ جینٹ ایلن کا کہنا ہے کہ اس معاہدے سے پوٹن کے لیے یوکرین میں غیر قانونی جنگ کے لیے آمدن کا جو بنیادی ذریعہ ہے، اس کو محدود کرنے کے مقصد میں جہاں کامیابی ملے گی، وہیں عالمی توانائی کی فراہمی کے استحکام کو بھی محفوظ رکھنے میں مدد ملے گی“
انہوں نے کہا ”یہ اعلان ہمارے اتحاد کی مہینوں کی کوششوں کا نکتہ اختتام ہے، اور اس نتیجے کو حاصل کرنے میں ہمارے شراکت داروں نے جو محنت کی ہے، میں اس کی تعریف کرتی ہوں“
یورپی یونین، جی سیون ممالک اور آسٹریلیا نے ایک مشترکہ بیان میں کہا ہے کہ تیل کی قیمتوں کی حد مقرر کرنے کا فیصلہ اس لیے کیا گیا ہے تاکہ ”روس کو یوکرین کے خلاف جارحانہ جنگ میں فائدہ اٹھانے سے باز رکھا جا سکے“
یورپی یونین، جی سیون ممالک اور آسٹریلیا نے 5 دسمبر پیر کے روز سے روسی خام تیل پر اس پابندی کو عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے
پولینڈ کا کہنا ہے کہ یوکرین پر روسی حملے کے جواب میں یہ اب تک کی سب سے اہم پابندی ہے۔ اس کے مطابق یورپی یونین ”پابندیوں کے ایک ایسے اگلے پیکج پر کام کر رہی ہے، جو روس کے لیے مزید تکلیف دہ اور مہنگا ثابت ہوگا“
واضح رہے کہ جب سے یوکرین میں جنگ شروع ہوئی ہے، تبھی سے مغربی حکومتوں کا بنیادی ہدف یہ رہا ہے کہ وہ توانائی کی برآمدات سے ہونے والی روس کی آمدن کو محدود کریں
روس کا رد عمل
روس نے یورپی ممالک کی جانب سے روسی تیل کی قیمت کی حد مقرر کرنے کے اقدامات کو مسترد کر دیا ہے
یورپی ممالک کی جانب سے یوکرین میں جاری جنگ میں روس کے لئے بنیادی مالی وسیلے کی حیثیت رکھنے والے روسی تیل کی قیمتوں کی حد مقرر کرنے والے اقدامات کے جواب میں جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا ہے کہ روس اپنے تیل کی قیمت کی حد مقرر کیے جانے کے فیصلے کو قبول نہیں کرے گا، معاملات کا جائزہ لینے کے بعد مناسب جواب دیا جائے گا
روسی میڈیا کے مطابق کریملن کے ترجمان دمیتری پاسکوف نے کہا ہے کہ روس نے جی سیون، یورپین یونین اور آسٹریلیا کی جانب سے پرائس کیپ کے اعلان کا بھرپور جواب دینے کی تیاری کر لی ہے
میڈیا کے مطابق دمیتری پاسکوف نے کہا ہے کہ ہم روسی تیل کی قیمت کی حد مقرر کرنے کے فیصلے کو کبھی قبول نہیں کریں گے، روس کی جانب سے معاملات کا جائزہ لینے کے بعد اس اعلان کا بھرپور جواب دیا جائے گا
غیر ملکی میڈیا رپورٹ کے مطابق ویانا کی عالمی تنظیم کے لئے روسی سفیر میخائیل الینوف کی جانب سے ایک بار پھر روسی موقف کو دہرایا گیا ہے کہ روس اپنے تیل پر قیمت کی حد کی پابندی لاگو کرنے والے ممالک کو تیل کی فروخت معطل کر دے گا
انہوں نے کہا ہے کہ آئندہ سال کے آغاز سے یورپ کو روسی تیل کے بغیر جینا ہوگا۔