رات کے اندھیرے میں گھنے جنگل میں چھاپے مارنے والی ’جانوروں کی محافظ‘ خاتون کی سرگزشت

ویب ڈیسک

مخبر کی اطلاع پر رضوانہ عزیز اپنی ٹیم کے اہلکاروں کے ساتھ سردیوں کی ایک یخ بستہ رات شہر کے قریب ہی ایک جنگل میں چھاپہ مارنے کی غرض سے موجود تھیں۔ رات کے تقریباً ایک بجنے والے تھے لیکن دور دور تک اس تاریک جنگل میں کسی کا نام و نشاں نہ تھا

وائلڈ لائف افسر ہونے کی حیثیت سے رضوانہ عزیز کے لیے اس طرح کے چھاپے کوئی نئی بات نہیں تھی۔ وہ جانوروں کے غیر قانونی شکار اور کاروبار کو روکنے کے لیے کئی کامیاب کاروائیاں کر چکی ہیں

اس روز وہ پورا دن شہر میں فیلڈ ڈیوٹی پر تھیں، ڈیوٹی ختم ہونے سے تھوڑی دیر پہلے انہیں جنگل میں خرگوش کے غیر قانونی شکار کی اطلاع موصول ہوئی

ان دنوں شہر کے آس پاس والے جنگلوں میں رات کے وقت خرگوش کے غیر قانونی شکار کی بہت شکایات موصول ہو رہی تھی، اس لیے رضوانہ عزیز اپنی ٹیم کے ساتھ اسی وقت جنگل کی طرف نکل آئیں لیکن اب کئی گھنٹے گزرنے کے بعد دور دور تک انہیں اندھیرے کے سوا کچھ نظر نہیں آ رہا تھا

ان کو خبر تو مل گئی تھی کہ اس رات جنگل میں شکار ہونے والا ہے لیکن وہ کہاں ہوگا، یہ بات مخبر کو بھی معلوم نہیں تھی۔ اس لیے جنگل میں داخل ہونے کے بعد انہیں دو تین مرتبہ ٹارچ کی روشنی نظر آئی اور جتنی بار انہیں روشنی نظر آئی وہ اپنی ٹیم کے ساتھ اسی طرف چل پڑیں لیکن چند گھنٹوں میں ہی انہیں اندازہ ہو گیا کہ وہ لوگ خود بھی راستہ بھٹک گئے ہیں

رضوانہ کو اب یہ فکر ہونے لگی کہ کس طرح واپسی کا راستہ ڈھونڈیں۔ اسی کشمکش میں انہیں ایک پگڈنڈی نظر آئی تو وہ سب اسی طرف چل پڑے اور پھر وہاں سے ایک کیری ڈبہ نکلا

انہوں نے گاڑی رکوا کر ان سے پوچھا کہ کسی مشکوک شخص کو دیکھا ہے؟ تو اس بندے نے پنجابی میں جواب دیا۔ ”نہیں جی، ہم تو شکاری ہیں، ہم تو خرگوش کا شکار کرنے آئے تھے۔ ہم تو پکا کر کھانے کے بعد دوستوں کو چھوڑ کر واپس آ رہے ہیں“

لوہی بھیر وائلڈ لائف پارک راولپنڈی میں جنگلات کے بیچوں بیچ وائلڈ لائف دفتر کے لان میں انہوں نے ہنستے ہوئے بتایا ”لوگ ہمیں اکثر پولیس والے سمجھ لیتے ہیں۔ جس گاڑی میں ہم چھاپہ مارنے جاتے ہیں اکثر لوگ اسے پولیس کی گاڑی سمجھتے ہیں اور ہمارے ہاں ویسے بھی وائلڈ لائف ڈپارٹمنٹ کے بارے میں لوگ اتنا جانتے بھی نہیں۔ تو اس رات جنگل میں جب ہم نے کیری ڈبے والے سے پوچھا کہ کسی مشکوک شخص کو نہیں دیکھا تو وہ ہمیں پولیس والے سمجھ رہے تھے۔۔ اس لیے انہوں نے فوراً کہہ دیا کہ ’نہیں ہم تو شکاری ہیں‘ اور انہیں یہ بات نہیں پتا تھی کہ ہمیں انہی لوگوں کی تلاش تھی“

اس طرح غیر قانونی شکار کرنے والے ان چھ شکاریوں کو رضوانہ اور ان کی ٹیم نے پکڑ کر جرمانہ کیا

رضوانہ عزیز پچھلے پندرہ سال سے پنجاب وائلڈ لائف ڈپارٹمنٹ کے ساتھ کام کر رہی ہیں۔ وہ اس ڈپارٹمنٹ میں پہلی خاتون تھیں

ان کی فیلڈ ڈیوٹی کا آغاز 2012ع سے ہوا اور اب تک وہ ان گنت غیر قانونی کاروبار پر چھاپے مار کر انہیں یا تو جرمانہ، یا پھر ضرورٹ پڑنے پر سیل کر چکی ہیں

تونسہ شریف سے تعلق رکھنے والی رضوانہ عزیز کے لیے محکمہ وائلڈ لائف کے افسر کے طور پر کام کرنا کبھی بھی آسان نہیں رہا، کیونکہ یہ دفتر میں بیٹھ کر کام کرنے سے یکسر مختلف تجربہ ہے

رضوانہ کو ہر علاقے اور ڈپارٹمنٹ میں اپنی جگہ بنانے مشکلات بھی پیش آئیں اور وقت بھی لگا۔ وہ فیلڈ افسر کے طور اپنے پہلے کیس کو یاد کرتے ہوئے بتاتی ہیں ”میں نے وائلڈ لائف ڈسٹرکٹ افسر کے طور پر پہلی بار گوجرانوالہ میں کام شروع کیا تھا۔ میں نے صدقے کے نام پر گوشت بیچنے والوں پر چھاپہ مارا اور ملزموں کو پکڑ کر دفتر لے گئی۔ ڈسٹرکٹ افسر کے طور پر یہ میرا پہلا کیس تھا“

وہ بتاتی ہیں ”جب میں دفتر گئی اور گرفتار ہونے والے کاریگروں کے مالکان میرے دفتر میں آئے تو مجھے تھوڑا خوف محسوس ہوا کیونکہ بڑی بڑی مونچھوں والے قد آور مردوں کے بیچ اپنے آپ کو دیکھ کر میں سوچ میں پڑ گئی کہ ان لوگوں کو میں کس طرح ڈیل کروں گی۔ جب ان لوگوں نے مجھ سے بات کرنا شروع کی تو میں نے اپنے اعصاب پر قابو پاتے ہوئے ان سے بھی زیادہ اونچی آواز میں بات کرنا شروع کر دی۔ پھر بڑے اچھے طریقے سے میں نے معاملہ سنبھال لیا اور ان کو جرمانہ بھی کیا“

رضوانہ کو وہ وقت بھی یاد ہے جب پندرہ سال پہلے انہیں محکمہ وائلڈ لائف میں نوکری کا لیٹر ملا تھا۔ رضوانہ نے ہنستے ہوئے بتایا ”جس دن مجھے لیٹر ملا تو رات کو خواب میں شیر کے دھاڑنے کی آوازیں سنائی دیتی رہیں، کیونکہ ذہن میں ایک خوف تھا لیکن جوائن کرنے کے بعد وقت کے ساتھ خوف بھی ختم ہو گیا“

رضوانہ کہتی ہیں کہ اس ڈپارٹمنٹ میں اب ان کا دل لگ گیا ہے کیونکہ اس کام میں ایڈوینچر بھی ہے

انہوں نے کہا ”وائلڈ لائف افسر ہونے کی حیثیت سے آپ قدرت کے بڑے قریب ہوتے ہیں۔ شاید ایک عام بندے نے قدرت کو اتنا قریب سے نہیں دیکھا ہوتا، جتنا ہم دیکھ رہے ہوتے ہیں“

رضوانہ اپنے شعبے کے بارے میں مزید بتاتے ہوئے کہتی ہیں ”جنگلی جانوروں کا غیر قانونی شکار یا قانون توڑنے والے دو طرح کے لوگ ہوتے ہیں: ایک وہ، جن کے پاس بہت پیسے اور اثر و رسوخ ہوتا ہے اور دوسرے وہ کاروباری لوگ ہوتے ہیں، جو اس کام سے پیسہ بناتے ہیں یا وہ مزدور، جو روزانہ کی بنیاد پران کاروباری حضرات سے اجرت لیتے ہیں“

انہوں نے اس معاملے کو بڑی آسانی سے سمجھاتے ہوئے کہا ”کاروباری یا اپنا پیٹ بھرنے کے لیے یہ کام کرنے والے کبھی باز نہیں آئیں گے، چاہے ہم جتنا بھی جرمانہ کر لیں۔ دوسری طرف وہ ایلیٹ کلاس ہے، جو غیرقانونی کام کرنے کے بعد یا تو ہمیں صرف دھمکیاں دیتے ہیں یا پھر ہمارے اوپر کسی نہ کسی طریقے سے دباؤ ڈالتے ہیں“

لیکن رضوانہ عزیز کا ماننا ہے کہ جب آپ کا اس طرح کا کام ہو تو ایسی چیزیں تو ہوتی رہیں گی اور اس میں مرد یا خاتون ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا

شکاریوں اور غیر قانونی کاروبار کرنے والوں کے لیے یہ محکمہ کسی ولن سے کم نہیں لیکن رضوانہ کے بقول اب وہ تنقید کرنے والوں کی باتوں کو سنی ان سنی کر دیتی ہیں، کیونکہ منفی باتوں کے ساتھ ساتھ انہیں مثبت باتیں بھی بہت سننے کو ملتی ہیں

وہ کہتی ہیں ”میں نے کام کرتے ہوئے یہ سیکھا کہ جب تک آپ خود ثابت قدم ہیں تو آپ کو کوئی کچھ بھی نہیں کہہ سکتا۔ مجھے تو لوگوں کی طرف سے بہت مثبت ردعمل بھی ملا۔ ایسے ایسے شکاری بھی ملے ہیں، جب میں ان کو جرمانہ کرتی ہوں تو وہ جرمانے کے ساتھ ساتھ مجھے سیلوٹ مار کر جاتے ہیں۔ یہ چیزیں ذہن سے نکالنے کی ضرورت ہے کہ جنس کی وجہ سے کسی کام میں بہتری یا خرابی آتی ہے“

اپنے کام کی نوعیت کے حوالے سے بات کرتے ہوئے رضوانہ عزیز نے بتایا کہ ان کا کام چوبیس گھنٹے اور ہفتے کے سات دن چل رہا ہوتا ہے

”ہمیں کسی بھی وقت شکایت موصول ہو سکتی ہے، اس لیے ہم ہمیشہ فون کالز پر موجود ہوتے ہیں۔ ہر کال ہم نے ریسیو کرنی ہوتی ہے۔ دفتری کام کے ساتھ ساتھ گھر کی ذمہ داریوں کو بھی دیکھنا ہوتا ہے“

پاکستان میں خواتین کا ان شعبوں میں کام کرنا اکثر اوقات صرف اس صورت میں ممکن ہے جب گھر والوں کی مکمل حمایت حاصل ہو۔ رضوانہ کے گھر والے، ان کے شوہر اور بچوں نے بھی اب تک بہت قربانیاں دی ہیں

رضوانہ کہتی ہیں ”اکثر اتوار والے دن بھی مجھے کام پر جانا پڑ جاتا ہے تو پیر والے دن چھٹی کرتی ہوں۔ میں جب پیر والے دن چھٹی کرتی ہوں اور بچے جب اسکول سے واپس آتے ہیں تو انہیں سب سے بڑا سرپرائز ملتا ہے اور ان کے چہرے پر جو چمک آتی ہے، وہ میرے لیے سکون کا باعث ہے کیونکہ اکثر میں چھٹی والے دن بھی گھر پر نہیں ہوتی“

اس معاملے میں ان کے شوہر، جو ایک پروفیسر ہیں، نے بھی ان کی بہت مدد کی اور رضوانہ بھی یہ بات جانتی ہیں کہ گھر والوں کی مدد کے بغیر ان کا اس شعبے میں رہ کر کام کرنا بہت مشکل ہے

رضوانہ عزیز نے پچھلے پندرہ سال میں اس ڈپارٹمنٹ میں اپنی جگہ بنا لی ہے اور راولپنڈی ڈسٹرکٹ، جس میں پانچ تحصیلیں شامل ہیں، میں ڈپٹی ڈائریکٹر کے طور پر اپنے فرائض انجام دے رہی ہیں

رضوانہ نے اپنی گفتگو ختم کرتے ہوئے کہا ”یہ کام مشکل بھی ہے، کیونکہ اکثر بہت غریب لوگ بھی مل جاتے ہیں، جن کا روزگار ہی یہی ہے۔ وہ رو بھی رہے ہوتے ہیں، لیکن ہمارا کام ہی غیر قانونی شکار کو روکنا ہے۔ اس لیے مجھے سب سے زیادہ فخر اور خوشی اس وقت ہوتی ہے، جب ہم جال میں پھنسے پرندوں کو آزاد کرواتے ہیں“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close