بلوچستان: غربت کے باعث پڑھائی نامکمل چھوڑنے والا فاروق، جو اب دور دراز علاقوں میں تعلیم کی روشنی پھیلا رہا ہے

ویب ڈیسک

فاروق احمد کا تعلق بلوچستان کے ضلع خضدار کی تحصیل نال سے ہے۔ فاروق اپنی پڑھائی مکمل نہ کر سکنے کی محرومی کو مایوسی کی وجہ بنانے کی بجائے اسے امید کی کرن میں تبدیل کر رہا ہے

لیکن یہ اتنا آسان بھی نہیں ہے۔ اس مقصد کے لیے فاروق کو جس دشوار گزار راستے سے گزرنا پڑتا ہے، وہ کسی اذیت سے کم نہیں اور فاروق کو روزانہ اس اذیت کو جھیلنا پڑتا ہے

لیکن فاروق کے حوصلے بلند اور غزم پختہ ہے، انہوں نے ان تمام تر مشکلات کے باوجود گذشتہ دس ماہ سے اس تیس کلومیٹر پر محیط مشکل سفر کو ترک نہیں کیا

فاروق احمد کہتے ہیں ”اگر میں یہ سفر نہ کروں تو ضلع خضدار کی تحصیل نال کے علاقے اکّروکبّڑی کی نئی نسل اپنے آباؤ اجداد کی طرح تعلیم سے محروم رہ جائے گی“

گذشتہ سال فاروق احمد نے مقامی لوگوں کی مدد سے ایک جھگی میں اسکول قائم کیا تھا، جہاں وہ خود روزانہ پڑھانے کے لیے بھی جاتے ہیں

قیام پاکستان سے لے کر اب تک کسی حکومت نے سنگلاخ پہاڑوں پر مشتمل اس دشوارگزار علاقے میں اسکول قائم کرنے کے لیے کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا تاہم فاروق احمد پُرعزم ہیں کہ حکومتی سرپرستی نہ ہونے کے باوجود بھی وہ اس اسکول کو بند نہیں ہونے دیں گے

فاروق احمد کوئی امیر کبیر شخص نہیں ہیں وہ تحصیل نال میں کوئٹہ کراچی شاہراہ پر واقع چند کچے گھروں پر مشتمل علاقے رستم آباد کے رہائشی ہیں اور اپنے بھائی کے ساتھ اس شاہراہ پر واقع ایک ہوٹل کے ساتھ چھوٹی سی دکان چلاتے ہیں

فاروق احمد کو خود مڈل تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد سکول چھوڑنا پڑا تھا۔ اپنی کہانی سناتے ہوئے انہوں کہا ”ہمارے علاقے میں صرف پرائمری اسکول تھا۔ مڈل کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے ہمیں روزانہ ضلع لسبیلہ جانا پڑتا تھا۔ مڈل کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے ہمیں روزانہ پچاس کلومیٹر بس میں جانا پڑتا تھا۔ صبح ہم ایک بس میں جاتے تھے۔ شام کو اسی بس میں واپس گھر پہنچتے تھے۔ میرے والد بیمار ہوئے تو مڈل کے بعد مجھے اسکول چھوڑنا پڑا“

تاہم اسکول چھوڑنے کے بعد بھی انہوں نے اپنے طور پڑھائی نہیں چھوڑی۔ وہ بتاتے ہیں ”میں نے میٹرک پرائیویٹ کیا اور اب کوشش ہے کہ پرائیویٹ انٹر اور پھر بی اے کروں“

فاروق احمد کا کہنا ہے ”میری خواہش تھی کہ زیادہ سے زیادہ تعلیم حاصل کروں لیکن غربت اور والد کی بیماری کی وجہ سے زیادہ نہیں پڑھ سکا“

فاروق کہتے ہیں ”میں نے محسوس کیا کہ علم میں بہت بڑی طاقت ہے اس لیے کسی بھی انسان کو علم کی طاقت سے محروم نہیں ہونا چاہیے۔ ہمارے ہاں بہت سے علاقے ایسے ہیں جہاں کے لوگ علم سے محروم ہیں، اس لیے میں نے سوچا کہ علم کی شکل میں جو تھوڑی بہت طاقت اور نعمت میرے پاس ہے، اس سے دوسروں کو فائدہ پہنچاؤں“

وہ بتاتے ہیں ”میرے ذہن میں اکّروکبّڑی کا خیال آیا کیونکہ اس علاقے میں کسی نے اسکول قائم کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ یہ بہت زیادہ پسماندہ علاقہ بھی ہے“

اگر یہ کہا جائے کہ اکّروکبّڑی کے لوگ اب بھی پتھر کے دور میں رہ رہے ہیں تو اس میں کوئی مبالغہ نہیں ہوگا۔ یہ ایسا علاقہ ہے، جہاں انسانوں، مویشیوں، پہاڑوں اور پتھروں کے سوا کوئی اور قابل ذکر چیز نہیں

اکّروکبّڑی کے جس علاقے میں سکول قائم کیا گیا ہے، وہاں دور دور تک زراعت کا نام و نشان بھی نظر نہیں آتا۔ اس علاقے میں نہ حکومت کی جانب سے کوئی ڈسپنسری بنائی گئی نا اسکول اور نا ہی پینے کے صاف پانی کی کوئی اسکیم دی گئی ہے

سنگلاخ پہاڑی علاقوں پر مشتمل اس علاقے میں مال مویشی پالنا ہی لوگوں کے معاش کا ذریعہ ہے، لیکن طویل قحط سالی کی وجہ سے یہ کام بہت زیادہ منافع بخش نہیں رہا۔ لوگوں کو یہاں زندگی سے اپنا رشتہ برقرار رکھنے کے لیے سخت مشقت سے گزرنا پڑتا ہے اور اب یہاں کے نوجوان سینکڑوں میل دور محنت مزدوری کے لیے جاتے ہیں

فاروق احمد علاقے کے لوگوں کو تعلیم کے حصول کے لیے قائل کرنے کے حوالے سے بتاتے ہیں ”میں نے پہلے علاقہ سربراہان کو اکٹھا کیا۔ میں نے ان کو بتایا کہ آپ لوگ علم سے محروم ہو کر برباد ہو گئے۔ میں نے ان کو بتایا کہ اگر آپ لوگوں نے بچوں کو پڑھانے کے لیے کوئی کوشش نہیں کی تو آپ کی آئندہ نسلیں بھی برباد ہو جائیں گی۔ وہ اس بات پر قائل ہو گئے۔ پھر ہم نے ایک جھونپڑی میں اسکول قائم کیا“

فاروق کا کہنا ہے ”بلوچستان کے قبائلی معاشرے کے باعث بچیوں کی تعلیم کی شرح انتہائی کم ہے لیکن میری حیرت کی اس وقت انتہا نہیں رہی جب بچیوں کی بڑی تعداد نے اسکول کا رخ کیا“

سب سے زیادہ حیرت انگیز بات یہ تھی کہ ان سنگلاخ پہاڑوں میں اسکول میں داخل ہونے والی بچیوں کی تعداد لڑکوں سے زیادہ ہے

فاروق احمد نے بتایا ”اس علاقے میں لوگوں کے گھر بھی دور دور واقع ہیں. پہاڑی علاقہ ہونے کی وجہ سے مجھے تھوڑا سا یہ خدشہ تھا کہ شاید بچوں کی تعداد بہت زیادہ نہ ہو۔ میرے خدشات کے برعکس شروع سے ہی اس اسکول میں 105 بچوں اور بچیوں نے داخلہ لیا“

اس اسکول میں بچیوں کی تعداد پچپن جبکہ بچے پچاس ہیں۔ ان میں سے بعض کو بڑے بڑے اور دشوار گزار سنگلاخ پہاڑوں سے گزر کر آنا پڑتا ہے۔ فاروق احمد نے بتایا کہ اسکول کے طلبا میں سے بعض کو پانچ کلومیٹر دور سے پیدل چل کر آنا پڑتا ہے

اس اسکول میں اگرچہ اکثریت کم عمر بچوں اور بچیوں کی ہے لیکن آغاز میں بڑی عمر کے بچوں اور بچیوں نے بھی داخلہ لیا

فاروق احمد نے بتایا ”جن کی عمریں زیادہ تھیں، ان کو کہا گیا کہ وہ زیادہ محنت کریں۔ ان بچوں اور بچیوں نے خوب محنت کی اور مجھ سے کہا کہ وہ چھٹی نہیں کریں گے۔ ان کا امتحان لیا گیا اور ان کی قابلیت کے مطابق ان کو ترقی دی گئی“

سنگلاخ پہاڑوں میں قائم اس اسکول میں شروع سے ہی انگریزی کی وہ کتابیں بھی پڑھائی جا رہی ہیں، جو بلوچستان میں پرائمری نصاب کا حصہ ہیں

عمر فاروق نے بتایا کہ انگریزی میں تعلیم وقت کی ضرورت ہے۔

یہاں جب بعض بچوں اور بچیوں کی قابلیت جانچنے کی کوشش کی تو مشاہدے میں یہ بات آئی کہ انہوں نے کم عرصے میں ہی بہت کچھ سیکھ لیا ہے

اسکول قائم کرنے اور اس میں داخل بچوں پر محنت کرنے کے ساتھ ساتھ فاروق احمد نے ایک اور کامیابی بھی حاصل کی۔ مختصر عرصے میں ہی وہ اسکول کے لیے ایک پختہ عمارت کے حصول میں کامیاب ہو گئے

یہ اس لیے حیران کن ہے کیوں کہ شاید یہ صدیوں بعد اس علاقے کی پہلی پختہ عمارت ہے، جو بلوچستان کے کئی سرکاری قسکولوں کی عمارتوں سے بہتر ہے اور یہاں بچوں کے لیے واش رومز کی سہولت بھی موجود ہے

اسکول کی نئی عمارت کے ساتھ بچوں کے کھیل کھود کے لیے ایک چھوٹا سا پارک بھی بنایا گیا ہے، جبکہ ایک چھوٹی سی مسجد بھی تعمیر کی گئی ہے

فاروق احمد نے بتایا ”اس پختہ عمارت کی تعمیر میں ایک غیر سرکاری فلاحی ادارے نے اہم کردار ادا کیا۔ اس فلاحی ادارے کی یہ شرط تھی کہ اسکول کی پختہ عمارت کی تعمیر کے لیے علاقے کے لوگ بھی حصہ ڈالیں گے۔ جب یہ بات میں نے علاقے کے لوگوں کے سامنے رکھی تو انہوں نے کہا کہ ہم اپنے بچوں کے لیے کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ لوگوں نے کہا ہمارے پاس کوئی سرکاری ملازمت نہیں اور نا ہی کوئی کاروبار ہے لیکن ہمارے پاس جو مویشی ہیں، ہم وہ بیچ کر اپنے حصے کی رقم دیں گے۔ انہوں نے بکریاں بیچ کر چار سے ساڑھے چار لاکھ روپے اسکول کی پختہ عمارت کے لیے دیے“

فلاحی ادارے نے ایک کنواں کھود کر دو سولر پلیٹس کی مد سے پینے کے پانی کا بھی انتظام کیا

بلوچستان میں سرکاری اسکولوں کے حوالے سے غیر سرکاری تنظیموں کی جانب سے جو رپورٹس پیش کی جاتی رہیں ہیں، ان کے مطابق بلوچستان میں سرکاری اسکولوں کی بڑی تعداد پانی اور واش رومز کی سہولیات سے محروم ہیں

بچوں کے لیے کتابوں کے انتظام کے حوالے سے فاروق احمد نے بتایا ”علاقے کے لوگوں نے کہا کہ وہ اپنے بچوں کے لیے کاپیاں اور پینسل وغیرہ دکانوں سے خریدیں گے لیکن قرب وجوار میں یہ سامان دستیاب نہیں تھا۔ پھر ہم نے کتابوں کے حصول کے لیے نال اور وڈھ کے ہائی اسکولوں کے ہیڈ ماسٹر صاحبان سے رابطہ کیا۔ ایک کرسی، ایک میز اور کچھ کتابیں وڈھ ہائی اسکول کے ہیڈ ماسٹر نے دیں۔ کچھ کتابیں نال کے ہائی اسکول کے ہیڈ ماسٹر نے دیں۔ اس طرح ہم نے کتابوں کا انتظام کیا اور پڑھانے کا سلسلہ شروع کیا“

یہ اسکول فاروق احمد کے گھر، رستم آباد، سے اندازاً مغرب میں پندرہ کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ اس طرح انہیں روزانہ تیس کلومیٹر کا سفر کرنا پڑتا ہے

فاروق احمد نے بتایا کہ روزانہ آمدورفت بہت مشکل ہے لیکن ایک علاقے میں لوگ جدید علوم سے بہرہ ور ہو رہے ہیں

وہ کہتے ہیں کہ ان مشکلات کو خاطر میں نہیں لائیں گے اور بچوں کو پڑھانے کا سلسلہ جاری رکھیں گے

یہاں اس بات کا تذکرہ بھی ضروری ہے کہ بلوچستان کے دوردراز علاقوں کے اکثر سرکاری اسکولوں کے اساتذہ کے بارے یہ شکایت عام ہے کہ ان کی بڑی تعداد باقاعدگی سے ڈیوٹی نہیں دیتی حالانکہ سرکاری اسکولوں کے اساتذہ کی تنخواہیں پرائیویٹ اسکولوں کے اساتذہ کی تنخواہوں اور مراعات کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ ہیں

فاروق احمد کسی تنخواہ اور مراعات کے بغیر باقاعدگی سے اس مشکل راستے سے اپنی آمدورفت کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ وہ ان تمام مشکلات کو خندہ پیشانی سے برداشت کر رہے ہیں لیکن ان کی زبان پر ایک شکایت تھی۔ انہوں نے اپنی گفتگو کے درمیان جو واحد شکایت کی، وہ وزیراعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو سے تھی

ان کا کہنا تھا ”سوشل میڈیا پر جب ان کے اسکول کے حوالے سے وڈیوز اور خبریں آئیں تو وزیر اعلیٰ کی جانب سے یہ بیان سامنے آیا کہ وہ اسکول کو سرکاری حیثیت دیں گے۔ کئی مہینے گزر گئے مگر تاحال اس حوالے سے کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔“

فاروق نے کہا ”تعلیم دینا ریاست کی بنیادی ذمہ داریوں میں شامل ہے اس لیے حکومت کو چاہیے کہ وہ اس اسکول کو سرکاری حیثیت دے تاکہ بچوں کو مفت کتابیں اور دیگر سہولیات مل سکیں اور آگے چل کر ان کو تعلیم کی حصول میں کسی مشکل کا سامنا نہ کرنا پڑے۔‘

وہ یہ بھی چاہتے ہیں کہ وقت گزرنے کے ساتھ اسکول کو اپ گریڈ بھی کیا جائے کیونکہ قریب میں کوئی مڈل اسکول نہ ہونے کی وجہ سے پانچویں کے بعد یہاں کے بچے مزید نہیں پڑھ سکیں گے

تاہم فاروق نے اس عزم کا اظہار کیا کہ اگر حکومت نے اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کیں، تب بھی وہ پیچھے نہیں ہٹیں گے خواہ اس کے لیے انہیں کتنی قربانی کیوں نہ دینی پڑے ”اس ویرانے میں علم کی شمع روشن کرنے پر میں انتہائی خوش ہوں۔“

فاروق کہتے ہیں ”کچھ لوگ محنت کرتے ہیں، لیکن جب اس کا نتیجہ نظر نہیں آتا ہے تو وہ پریشانی اور مایوسی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ لیکن میں نے جو محنت کی اس کا نتیجہ نظر آ رہا ہے جسے دیکھ کر میری خوشی کی انتہا نہیں رہتی اور بچوں کا شوق دیکھ کر مجھے امید ہے کہ یہاں سے مستقبل کے ڈاکٹر، انجینیئر اور ٹیچر نکلیں گے“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close