گوادر کی ڈائری: بلوچستان کے پہاڑ

ڈاکٹر تہمینہ عباس

بچپن میں طلسم ہوشربا، کوہ قاف اور پریوں کی کہانیاں پڑھی اور سنی تھیں۔ تخیلات کی دنیا میں بارہا جنات اور پریوں کو دیکھا تھا۔ اس دنیا کا ایک الگ طلسماتی رنگ تھا۔ کبھی عمرو عیار کا مشہور کردار کوہ قاف کی پہاڑیوں کی سیر کرتا ہوا نظر آتا تو کبھی نیلی جادوگرنی کسی حسین شہزادی کو ان پہاڑوں میں قید کردیتی۔ حتیٰ کہ دنیا کی حسین ترین لڑکی کو کالا جادوگر ان ہی پہاڑوں میں قید کرکے رکھتا تھا۔ غرض وہ ایک ایسی دنیا تھی کہ جو خوابوں اور تصورات تک محدود تھی۔ تخیل کے پردے پر اس طلسماتی اور جادوئی فضا کے مناظر تبدیل ہوتے رہتے تھے۔ کراچی شہر میں رہتے ہوئے کبھی کبھی منگھوپیر کے علاقے کی سمت جانا ہوتا تھا تو وہاں موجود پہاڑوں کو دیکھ کر یہ خیال آتا تھا کہ شاید یہاں جنات آباد ہیں (یہ الگ بات کہ منگھوپیر میں موجود سیمنٹ فیکٹریز تیزی سے ان پہاڑوں کو کاٹ کر سیمنٹ بنانے کے لیے استعمال کررہی ہیں)۔
۱۹ اکتوبر ۲۰۱۴ء کو ہم گوادر کی جانب گامزن ہوئے۔ اس دن کوسٹل ہائی وے پر سفر کرتے ہوئے جو عجیب و غریب پہاڑ دیکھنے کو ملے۔ ان پہاڑوں نے چند لمحوں کو تحیر میں مبتلا کردیا۔ مطالعہ پاکستان کی کتاب میں پڑھا تھا کہ ”پاکستان کا صوبۂ بلوچستان خشک پہاڑوں چٹانوں اور سمندروں پر مشتمل ہے”۔ کبھی اس بات کا تصور نہ کیا تھا کہ پہاڑ اس قدر خوبصورت بھی ہوسکتے ہیں۔ کوسٹل ہائی وے اس شاہراہ کا نام ہے جو کراچی سے گوادر تک مختلف پہاڑوں کو کاٹ کر بنائی گئی ہے۔ اس شاہراہ پر کئی مقامات پر سمندر ٹھاٹھیں مارتا ہوا نظر آتا ہے۔ پہاڑوں کے درمیان سمندر عجیب شان سے ٹھاٹھیں مارتا ہے۔ اس منظر کو دیکھ کر قدرت کی صناعی کی داد دینے کا دل چاہتا ہے

کوسٹل ہائی وے کے سفر نے یہ ادراک بخشا کہ گوادر اور بلوچستان کا پہاڑوں کااپنا ایک الگ ہی حسن ہے۔ یہ طلسماتی پہاڑ مختلف مقامات پر مختلف صورتوں میں جلوہ گر نظر آئے، کہیں ان پہاڑوں کو دیکھ کر یہ محسوس ہوا کہ یہ کوہ قاف میں موجود جنات کی بستیاں ہیں جہاں قریب، قریب جنات کی جھونپڑیاں بنی ہوئی ہیں، جن میں اس بستی کے مکین محو خواب ہیں، تو کہیں ان پہاڑوں کو دیکھ کر یہ خیال آیا کہ کوہ قاف کی حسین پریاں اپنے پر پھیلا کر اڑنے کے لیے تیار ہیں۔ ہنگول نیشنل پارک میں پہاڑ کاٹ کر سڑک بنائی گئی ہے۔ پہاڑوں کے درمیان بل کھاتی ہوئی اور اوپر کی سمت جاتی ہوئی سڑک دیکھ کر ایک لمحے کو خوف بھی محسوس ہوا کہ کہیں ہماری بس… مگر پھر سفر کی دعا پڑھتے ہوئے محو سفر ہوگئے۔ کند ملیر کے مقام پر پہاڑوں کے درمیان ٹھاٹھیں مارتا، جھاگ اڑاتا، خوبصورت سمندر سیاحوں کے لیے دلکش نظارہ ہے۔ اگر حکومت چاہے تو سیّاحوں کے لیے ان مقامات کو قابل رسائی بناکر کثیر زرمبادلہ کماسکتی ہے۔
اکثر گوادر کا سفر نائٹ کوچ سے کرنے کا بھی اتفاق ہوا۔ چودھویں کے چاند کی روشنی میں یہ پہاڑ اور زیادہ خوبصورت اور مافوق الفطرت نظر آئے۔ کہیں ان پہاڑوں کو دیکھ کر یہ محسوس ہوا کہ یہ خوبصورت محل ہیں۔ کہیں ایسا لگا کہ ان پہاڑوں میں موجود جھونپڑیوں میں حسین شہزادیاں محو خواب ہیں۔ ایک مقام پر ان پہاڑوں کی شکل ایسی نظر آئی کہ جیسے ایک بہت بڑی فوج تلواراور اسلحے کے ساتھ گھوڑوں پر سوار لڑنے کے لیے تیار ہے۔

حب، وندر، اتھل،بیلا، اڑماڑہ، پسنی اور گوادر، ہر جگہ ان پہاڑوں کی کیفیت اور صورت تبدیل ہوجاتی ہے۔ کہیں یہ پہاڑ بھورے ہیں تو کہیں سفید، کہیں ان پہاڑوں کی رنگت سرمئی ہے تو کہیں یہ سرخی مائل ہیں۔ جن لوگوں نے کوہ قاف اور جنات کی کہانیاں پڑھی ہیں۔ یا خوفناک فلمیں دیکھی ہیں وہ چند لمحے ان پہاڑوں کو دیکھ کر ان کے اسیر ہوجاتے ہیں۔ کراچی کے بعد حب خود ایک چھوٹا شہر ہے۔ جہاں کراچی جیسی روشنیاں موجود ہیں۔ پھر وندر، اتھل اوربیلا جیسے جیسے سفر آگے بڑھتا ہے ان ماورائی پہاڑوں کی صورت دیکھنے والی ہوتی ہے اور اس بات کا ادراک بھرپور طریقے سے ہوتا ہے کہ ”کوئی تو ہے، جو نظام ہستی چلارہا ہے, وہی خدا ہے“ قرآن پاک میں پہاڑوں کو زمین میں میخوں کی طرح ٹھونکے جانے کے حوالے سے آیات موجود ہیں۔ بلوچستان کے پہاڑی سلسلے کو دیکھ کر ان آیات کی صداقت من و عن ثابت ہوجاتی ہے۔ کہیں ان پہاڑوں کی اونچائی اور طوالت دیکھ کر دل پر اللہ تعالیٰ کی ہیبت طاری ہونے لگتی ہے اور کہیں ان کے درمیان موجود سمندر کو دیکھ کر یہ خیال آتا ہے کہ اگر یہ پانی اپنی حدود سے نکل جائے تو لمحوں میں یہاں موجود تمام نفس لقمۂ اجل بن جائیں گے

چٹانوں کی کٹائی میں یہاں صدیوں سے جاری کٹاؤ کے مؤثر عمل اور تلچھٹ نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ ان چٹانوں میں امید کی شہزادی اور سفنکس کے مجسمے سب سے زیادہ مشہور ہیں

امید کی شہزادی: ہنگول نیشنل پارک کی ایک پہچان ‘پرنسس آف ہوپ’ نامی ایک چٹان ہے۔ یہ دور سے دیکھنے میں ایک درازقامت خاتون کا مجسمہ معلوم ہوتی ہے، جو دور افق میں کچھ تلاش کر رہی ہے۔ معروف ہالی ووڈ اداکارہ انجلینا جولی سنہ 2004 میں اقوام متحدہ کے ایک خیر سگالی مشن پر پاکستان آئیں تو یہ چٹان ان کی توجہ کا مرکز بنی اور انھوں نے ہی اسے ‘پرنسس آف ہوپ’ یا امید کی شہزادی کا نام دیا۔اس کے بارے میں یہی کہا جاتا ہے کہ یہ انسان کی تخلیق نہیں بلکہ سمندری ہواؤں اور کٹاؤ کے باعث تخلیق ہوئی

سفنکس آف بلوچستان کو مقامی افراد ابولہول کا مجسمہ بھی کہتے ہیں۔ مصر، گیزا میں واقع مشہور اسفنکس کے مجسمے سے بے حد مشابہہ اس چٹان کو سنہ 2004 میں مقامی مزدوروں اور انجینیئروں نے مکران کوسٹل ہائی وے کی تعمیر کے دوران دریافت کیا تھا۔ مکران کوسٹل ہائی وے سے سفر کرتے ہوئے یہ چٹان دور سے نظر آتی ہے اور دیکھنے میں بالکل انسان کا تراشیدہ مجسمہ معلوم ہوتی ہے

پہاڑوں میں مجسموں کو دیکھ کر ہندوستان میں موجود اجنتا کے پہاڑی سلسلے کا خیال ذہن میں آتا ہے، جہاں غاروں میں موجود مجسمے ہزاروں سال قبل انسانوں نے تراشے تھے جبکہ بلوچستان کے پہاڑوں میں موجود مجسمے خالصتاً قدرت کا شاہکار ہیں۔ کوسٹل ہائی وے جیسے جیسے بلندی کا سفر کرتی ہے اوپر سے نیچے رہ جانے والی سڑک، ناگن کی طرح بل کھاتی، اٹھلاتی ایک عجیب طلسماتی منظر پیش کرتی ہے۔ اگر سفر دن کے وقت اور پرائیویٹ یا نجی گاڑی سے کیا جائے تو اس سفر کا حسن دو آتشہ ہوجاتا ہے۔ البتہ کوسٹل ہائی وے جیسے جیسے بلندی کی طرف جاتی ہے تو اکثر مسافروں کو متلی اور الٹی ہونا شروع ہوجاتی ہے۔ سیر گھومنے لگتا ہے اور جب چڑھائی سے اترائی کا سفر شروع ہوتا ہے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انسان لامتناہی گہرائیوں میں ڈوبتا چلا جارہا ہے۔ جیسے ہی سڑک متوازن ہوتی ہے طبیعت خود بہ خود اعتدال پر آنا شروع ہوجاتی ہے۔ اڑماڑہ کے ساحل کے آثار کے ساتھ ہی تازگی کا احساس ہونے لگتا ہے۔

بشکریہ: ہم سب
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close