اپنے اقدامات سے مسلم اور عرب شناخت کا اظہار کرنے والے قطر نے فٹبال ورلڈکپ میں عالمی مقابلے دیکھنے کے لیے آنے والے لاکھوں تماشائیوں کے اسلام سے متعلق تصورات تبدیل کرنے کا مثبت عمل بھی جاری رکھا ہوا ہے
قدرتی گیس کی دولت سے مالا مال قطر فٹبال کی میزبانی کرنے والا پہلا مسلمان ملک ہے۔ یہاں انتہائی خوب صورت مساجد تعمیر کی گئی ہیں، جو فٹبال ورلڈ کپ دیکھنے کے لیے آنے والوں کی توجہ بھی حاصل کر رہی ہیں
کینیڈا سے ورلڈکپ دیکھنے کے لیے آنے والے ڈورنیل اور کلارا پوپا کا جوڑا بھی ان ہزاروں شائقین میں شامل ہیں، جو ورلڈ کپ دیکھنے کے لیے قطر آئے ہیں اور یہاں انہیں پہلی بار مغرب کے متعصبانہ رویے کے برعکس اسلام کے بارے میں بہت کچھ جاننے کا موقع مل رہا ہے
یہ دونوں دوحہ میں بنائے گئے ایک ثقافتی ڈسٹرکٹ ’کتارا‘ کی سیر کے لیے آئے ہوئے تھے اور جب انہوں نے یہاں قائم جامع مسجد سے آنے والی اذان کی آواز سنی تو وہ مسجد دیکھنے کے لیے گئے
قطر کے دارالحکومت دوحہ میں واقع کتارا کلچرل ولیج کی مسجد عالمی کپ کے شائقین کی توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہے، جو اسلام کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں
مسجد میں کثیر لسانی مرد اور خواتین مبلغین سیاحوں کو اسلام کے مذہب اور رواداری کی وضاحت کر رہے ہیں
دروازے پر تیس سے زائد زبانوں میں اسلام کے بارے میں الیکٹرانک بورڈز لگائے گئے ہیں تاکہ زائرین انہیں اپنے فون پر دیکھ سکیں۔ اور مختلف زبانوں میں اسلام کا تعارف کروانے والے کتابچے چاہنے والوں میں تقسیم کیے جاتے ہیں
یہ مسجد سلطنتِ عثمانیہ کے دور کے طرزِ تعمیر پر بنائی گئی ہے اور اسی وجہ سے اسے ’بلیو ماسک‘ یعنی نیلی مسجد کا نام دیا گیا ہے۔ یہاں رہنمائی کے لیے موجود ایک گائیڈ نے انہیں مسجد کے طرزِ تعمیر کے بارے میں معلومات فراہم کیں
کینیڈا سے آئے ڈورنیل اور ان کی اہلیہ کلارا پوپا کے لیے اسلام کو قریب سے دیکھنے کا یہ پہلا موقعہ تھا، جس پر چون سالہ ڈورنیل پوپا نے، جو پیشے کے اعتبار سے اکاؤنٹنٹ ہیں، اعتراف کیا کہ ”ہم قریب سے دیکھنے کا موقعہ نہ ملنے کی وجہ سے اس ثقافت اور اس کے لوگوں کے بارے میں تعصب رکھتے تھے“
پوپا کی چون سالہ اہلیہ کلارا ڈاکٹر ہیں، قطر آنے کے تجربے کو بیان کرتے ہوئے ان کا کہنا ہے ”ہمارے دماغ میں کئی خیالات تھے، جن میں ممکن ہے بعض تبدیل ہوجائیں۔“
قطر گیسٹ سینٹر اس مسجد کے انتطامات کی نگرانی کرتا ہے۔ اس مرکز نے دنیا بھر سے درجنوں مسلمان مبلغین کو قطر میں جمع کیا ہے
اس کے علاوہ مسجد کے باہر سیاحوں کو عربی قہوے اور کھجوروں کے ساتھ مختلف زبانوں میں اسلام اور پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق کتابچے بھی پیش کیے جاتے ہیں
اس مرکز کے لیے کام کرنے والے ایک شامی رضا کار زید فتح کا کہنا تھا ”ورلڈکپ لاکھوں لوگوں کو اسلام سے روشناس کرانے اور اس کے بارے میں مغرب میں پائی جانے والی غلط فہمیوں کو دور کرنے کا سنہری موقع ہے۔“
زید فتح نے بتایا کہ مسجد اور کتارا مرکز آنے والے لوگوں کو اسلام کی اخلاقی تعلیمات، خاندانی رشتوں کی اہمیت، پڑوسیوں اور غیر مسلموں کے ساتھ اچھے سلوک کے متعلق احکامات کے بارے میں بتایا جاتا ہے
مسجد کے قریب ہی ایک خاتون رضا کار نے ایک میز بھی لگا رکھی ہے، جس پر ایک تختی لگی ہوئی ہے اور اس پر لکھا ہے ”مجھ سے قطر کے بارے میں پوچھیے“
لوگ بھی یہاں رکتے ہیں انہیں عربی قہوہ پیش کیا جاتا ہے
فلسطینی رضا کار سمیہ کا کہنا ہے کہ ان کے پاس آنے والے اکثر سیاح پردے، ایک سے زائد سے شادیوں اور اسلام میں خواتین سے سلوک کے بارے میں سوالات کرتے ہیں
واضح رہے کہ ورلڈکپ کے دوران خواتین اور ہم جنس پرست کمیونٹی کے ساتھ سلوک کے حوالے سے قطر کے بارے میں کئی سوال اٹھائے جارہے ہیں
ثقافتی مرکز کے تحت بنائے گئے پرل ڈسٹرکٹ میں کیفے اور ریستوران بنائے گئے ہیں۔ یہاں پر اچھے اخلاق کے بارے میں پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث خطاطی کی صورت میں درج کی گئی ہیں
بڑے بڑے شاپنگ مالز میں بھی اسلام کی ترویج پر مبنی اشتہارات آویزاں ہیں
سوق واقف نامی مارکیٹ میں روزانہ ہزاروں فٹبال شائقین جمع ہوتے ہیں۔ اس مارکیٹ میں ان کے لیے مفت کتابیں اور پمفلٹ رکھے گئے ہیں۔ جہاں یہ مواد رکھا گیا ہے، وہاں اطلاعی بورڈز بھی لگائے ہیں جن پر درج ہے: ’’اگر آپ خوشی کی تلاش میں ہیں۔۔۔تو وہ آپ کو اسلام میں ملے گی۔‘‘
اس مارکیٹ کے قریب ہی شیخ عبد اللہ بن زید اسلامک کلچرل سینٹر دن میں بارہ گھنٹے کھلا رہتا ہے
قطر یونیورسٹی میں شرعی قوانین کے پروفیسر اور ’وائس آف اسلام‘ نامی ریڈیو اسٹیشن کے سربراہ سلطان بن ابراہیم ہاشمی کا کہنا ہے کہ ورلڈ کپ کے موقع پر اسلاموفوبیا کے مقابلے کے ساتھ ساتھ لوگوں کو اسلام میں داخل ہونے کی دعوت بھی دینی چاہیے
خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وہ غیر ملکی فٹبال فینز سے ملاقاتوں میں اسلام قبول کرنے کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں
ان کا کہنا ہے کہ ان ملاقاتوں میں اگر انہیں اسلام کی دعوت پیش کرنے کا مناسب موقع ملتا ہے، تو وہ ملنے والوں کو تبلیغ کرتے ہیں اور ایسا نہ ہو سکے تو وہ انہیں صرف یہ بتاتے ہیں کہ وہ ان کے مہمان اور انسانیت کے رشتے سے ان کے بھائی ہیں
سلطان بن ابراہیم ہاشمی زور دیتے ہیں کہ اسلام میں جبراً تبدیلیٔ مذہب قابلِ قبول نہیں ہے
ایسی خبریں بھی آئیں کہ فیفا ورلڈ کپ کے دوسرے دن ہی دوحہ کے کٹارا ثقافتی گاؤں کی ایک مسجد میں میکسیکو کے ایک مداح نے اسلام قبول کر لیا۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر بڑے پیمانے پر شیئر کی جانے والی وڈیوز میں میکسیکو کے مداح کو مبلغ حیان ال یافی کے ذریعہ شہادت کا اعلان کرتے ہوئے دیکھا گیا۔ ال یافی نے اس وڈیو کو اپنے فیسبک پیج پر پوسٹ کیا، جس میں مداح کے اسلام قبول کرنے کی کہانی کے بارے میں بات کی گئی
ال یافعی نے لکھا ”یہ شخص مسلمانوں کی ثقافت کے بارے میں جاننے کے لیے مسجد میں داخل ہوا، پھر میں نے اسے ایمان کے ستونوں کے بارے میں بتایا، اور یہ کہ اسلام تمام انبیاء کا مذہب ہے۔ پھر اس شخص نے انبیاء کے دین پر رہنا چاہا اور اسلام قبول کرنے کا انتخاب کیا، اور میں نے اس سے کہا، کیا کسی نے تمہیں اس پر مجبور کیا ہے؟ اس نے تصدیق کی کہ اسے کسی نے مجبور نہیں کیا
مذہبی امور سے متعلق قطر کی وزارت کے ایک عہدے دار کا کہنا ہے کہ ان کی حکومت کا مقصد لوگوں کے مذہب تبدیل کرا کر مسلمانوں کی تعداد بڑھانا نہیں ہے بلکہ ہمارے لیے اسلام کے بارے میں لوگوں کی رائے تبدیل کرنا اہم ہے۔