ضلع خیبر اب چوری ہونے والی گاڑیوں کے لیے محفوظ نہیں رہا

نیوز ڈیسک

چوری شدہ گاڑیوں کو ٹھکانے لگانے کا بڑا ٹھکانہ خیبرپختونخوا کا ضلع خیبر اب چوری شدہ گاڑیوں کے لیے محفوظ نہیں رہا

قبائلی اضلاع میں زیر استعمال چوری شدہ گاڑیوں کا سراغ لگانے اور انہیں ریکور کرنے کے مقصد سے قائم ضلع خیبر کا پہلا اینٹی کار لفٹنگ سیل اب تک 57 گاڑیاں ان کے حقیقی مالکان کو واپس کر چکا ہے

یہ سیل رواں سال فروری میں تحصیل باڑہ میں قائم کیا گیا تھا۔ اس سیل کی مدد سے چوری کے بعد یہاں لائی جانے والی 57 گاڑیاں ریکور ہوئی ہیں۔ برآمد ہونے والی گاڑیوں میں سے بعض ایسی ہیں جو دس سال پہلے چوری ہوئی تھیں

ان چوری شدہ گاڑیوں میں الٹو، جی ایل آئی، سوزوکی پک اپ اور کیری وین سمیت مختلف گاڑیاں شامل تھیں

انڈپینڈنٹ اردو کی ایک رپورٹ کے مطابق ضلع خیبر میں چوری شدہ گاڑیوں کے استعمال کے متعلق ایک سوال کے جواب میں ڈی پی او خیبر وسیم ریاض کا کہنا ہے کہ وہ یہ عذر نہیں دیں گے کہ اُس وقت کے لوگ ٹھیک نہیں تھے بلکہ سسٹم اس طرح کا تھا کہ اس میں ایسی گاڑیوں کے استعمال کی قبولیت تھی۔ دوسرا یہ کہ یہاں کے لوگ بہت غریب ہیں

انہوں نے کہا کہ یہاں پر پہلے ٹیکسز کی چھوٹ کے علاوہ بہت سارے معاملات میں قوانین موجود نہیں تھے لیکن قبائلی اضلاع میں پولیس کا نظام آنے کے بعد ہم نے کارروائیاں کرتے ہوئے چوری شدہ گاڑیاں ریکور کیں ہیں

انہوں نے کہا کہ پہلے فاٹا میں رائج قوانین شاید اتنے سخت نہیں تھے، کہیں نہ کہیں ان کے لاگو ہونے سے متعلق بھی مسائل تھے کیونکہ یہاں پر دہشت گردی رہی ہے

ان کا کہنا تھا کہ اُس وقت قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کی کارروائیوں میں مسائل تھے لیکن علاقے میں امن قائم ہونے کے بعد اب یہاں ہر جگہ پولیس موجود ہے جس کی وجہ سے بھی گاڑیاں برآمد ہوئی ہیں

ڈی پی او خیبر وسیم ریاض نے بتایا کہ اینٹی کارلفٹنگ سیل کی ٹیم 12 پولیس اہلکاروں پر مشتمل ہے جن کے پاس کمپیوٹر ٹیبلٹ میں پورے ملک سے چوری شدہ گاڑیوں کا ڈیٹا بیس ہوتا ہے، جو چوری شدہ ہر گاڑی کی ایف آئی آر درج ہونے کے ساتھ ہی اپ ڈیٹ ہو جاتا ہے

انہوں نے بتایا کہ ٹیم مختلف مقامات پر سنیپ چیکنگ کے دوران گاڑیوں کے انجن اور چیسس نمبر چیک کرتی ہے اور اگر اس کا ڈیٹا کمپیوٹر میں موجود ڈیٹا سے میچ کر جائے تو وہ متعلقہ پولیس سٹیشن اور گاڑی کے اصل مالک کو آگاہ کر دیتے ہیں. الحمدللہ یہی وجہ ہے کہ ان لوگوں کا انتہائی مثبت فیڈ بیک آیا جن کی گاڑیاں دس، دس یا پانچ سال پہلے چوری ہوئی تھیں. وہ تقریبا ًبھول چکے تھے لیکن جب ان کو اپنی گاڑی واپس ملی تو ان کی خوشی کی کوئی حد نہیں تھی

ضلع خیبر میں اینٹی کار لفٹنگ سیل کے انچارج انسپکٹر عابد آفریدی نے بتایا کہ یہ قبائلی اضلاع میں پہلا سیٹ اپ ہے جو خیبر پختونخوا پولیس نے قائم کیا۔ ہم نے پانچ مہینوں میں 57 گاڑیاں ریکور کر کے اصل مالکان کے حوالے کیں

انہوں نے بتایا کہ اپریل 2021 میں سی سی پی او عباس احسن نے ستائیس ریکور شدہ گاڑیوں کی چابیاں ان کے حقیقی مالکان کے حوالے کیں پھر جون میں سابق آئی جی ثناءﷲ عباسی آئے اور انہوں نے مزید تیس گاڑیاں مالکان کے حوالے کیں

انہوں نے بتایا کہ ان میں سے زیادہ تر گاڑیاں صوبہ پنجاب کی تھیں اور پشاور کی بھی۔ پہلے خیبر کا تاثر تھا کہ یہاں پر چوری کی گاڑیاں مل جاتی ہیں تو انشااللہ ہم اس تاثر کو ختم کر رہے ہیں۔ اب خیبر چوری شدہ گاڑیوں کے لیے محفوظ جگہ نہیں

تقریباً ایک سال پہلے پشاور میں ایک گھر کے سامنے چوری ہونے والے گاڑی کے مالک حامد شہزاد نے بتایا کہ وہ خوش ہیں کہ ان کی گاڑی واپس مل گئی

لاہور سے تعلق رکھنے والے رستم کے مطابق ان کی خوشی کی انتہا نہیں تھی جب انہیں کال کے ذریعے بتایا گیا کہ ان کی نو سال قبل چوری شدہ گاڑی ریکور ہوئی ہے.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close