پاکستان کے دیوالیہ ہونے کے خدشات میں اضافہ، معاشی ماہرین کیا کہتے ہیں؟

ویب ڈیسک

پاکستان کی معیشت سے متعلق ڈیفالٹ کے خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے اور ایسے میں معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ موجودہ سخت مالی حالات سے نکلنے کے لیے حکومت کو قرضوں کی ادائیگی کو مؤخر کرانے یا انہیں ری شیڈول کرانے پر دھیان دینا ہوگا

زرِمبادلہ کے انتہائی کم ذخائر، حالیہ عالمی معاشی سست روی کے باعث درپیش چیلنجز، تباہ کن سیلاب اور ملک میں موجود سیاسی عدم استحکام نے بیرونی قرضوں کی بروقت ادائیگی کا خطرہ بڑھا دیا ہے

پاکستان کی معیشت سے متعلق ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق آئندہ تین سال میں پاکستان کے ذمے 73 ارب امریکی ڈالرز کے غیر ملکی قرضوں کی ادائیگیاں ہیں اور اس وقت ملک کے پاس زرِمبادلہ کے ذخائر صرف سات سے آٹھ ارب امریکی ڈالر ہیں

واضح رہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے خاتمے کے وقت سابق وزیر مملکت اور پی ٹی آئی رہنما فرخ حبیب نے بتایا تھا کہ ان کی حکومت قومی خزانے میں 22 ارب ڈالر چھوڑ کر گئی تھی۔ جبکہ اس بارے میں اسٹیٹ بینک کے اعداد و شمار کے مطابق بھی 4 مارچ کو ملک کے مجموعی زرمبادلہ کے ذخائر بائیس ارب ڈالر تھے، جن میں سے 16.21 ارب ڈالر اسٹیٹ بینک کے پاس، جبکہ 6.45 ارب ڈالر کمرشل بینکوں کے پاس موجود تھے

لیکن ن لیگ کی سربراہی میں قائم ہونے والی پی ڈی ایم حکومت کے بعد یہ ذخائر اب سات سے آٹھ ارب ڈالر بچے ہیں

بڑے بیرونی قرضے لینے اور سابقہ واجبات کی وجہ سے قرضوں کا مجموعی حجم 65 ارب ڈالر سے 130 ارب ڈالرز تک جا پہنچا ہے

آئندہ تین برس میں آئی ایم ایف پروگرام کے ساتھ قرضوں کی تنظیم نو کے باعث ملک میں سخت قسم کی مالیاتی پالیسیاں رہنے کا امکان ہے، جس کی وجہ سے شرح سُود بلند رہے گی، روپیہ دباؤ کا شکار نظر آئے گا اور پاکستان کی اقتصادی ترقی کی رفتار بھی تین فی صد تک رہنے کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے

قرضوں کی ادائیگی ممکن بنانے کے لیے رواں مالی سال میں پاکستان کو 28 ارب ڈالر درکار ہیں، جب کہ مالی سال 2024 میں یہ رقم بڑھ کر 32 ارب ڈالر اور 2025 میں بھی مزید 29 ارب ڈالرز درکار ہوں گے

ایسے میں تجزیہ کار اور معاشی ماہرین حکومت کو اپنے اخراجات کو کم کرنے کا بھی مشورہ دے رہے ہیں

ڈاکٹر سلمان شاہ کہتے ہیں اٹھارہویں ترمیم کے بعد کئی شعبوں میں صوبائی اور وفاقی حکومتیں ایک ہی طرح کے کام کر رہی ہیں، جس سے اخراجات زیادہ ہو رہے ہیں۔ حالانکہ بہت سے کام آئینی طور پر صوبائی حکومتوں کے حوالے کیے جا چکے ہیں، لیکن اس کے باوجود بھی وفاقی حکومت یہ کام کرنے کے ساتھ اپنے اخراجات کم کرنے کو تیار نہیں

ان کے خیال میں بیرونی قرضے ہوں یا اندرونی قرضے، یہ زیادہ تر سرکاری شعبے نے ہی حاصل کر رکھے ہیں اور ایسے میں پبلک فنانشل مینجمنٹ سسٹم میں بہتری لاکر محصولات کو بڑھانا ہوگا اور اخراجات کو ہر صورت گھٹانا ہوگا، تاکہ پرائیویٹ سیکٹر پر ٹیکسوں کے بوجھ کو کم کیا جا سکے

ڈاکٹر خاقان نجیب کے مطابق حکومت کو اپنے وسائل ایسے ترقیاتی منصوبوں پر خرچ کرنے کی ضرورت ہے، جو مکمل ہونے کے قریب ہیں تاکہ ان کی تکمیل سے ایک جانب عوام کو فائدہ ہو سکے، وہیں ایسے منصوبوں کے مکمل ہونے سے ملک میں مزید بیرونی سرمایہ کاری کے مواقع پیدا ہوں گے

مالیاتی امور کے تجزیہ کار خرم شہزاد کے خیال میں مالیاتی خسارے کو کنٹرول کرنے کے لیے حکومت کو اپنے اخراجات میں کم از کم تیس سے چالیس فی صد کمی کرنے کی ضرورت ہے اور اس رقم کو ترقیاتی اسکیموں میں لگانے کی ضرورت ہے

ماہرین معیشت کے خیال میں پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور اسے زرعی پیداوار اور مینوفیکچرنگ میں اضافے کے لیے نہ صرف اقدامات بلکہ سنجیدگی کے ساتھ اس شعبے پر کام کرنے کی بھی ضرورت ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close