جرمنی میں ’بغاوت کی سازش‘ ناکام، درجنوں گرفتاریاں

ویب ڈیسک

جرمنی میں پولیس نے حکومت کا تختہ الٹنے کی مبینہ سازش کے الزام میں ایک خود ساختہ شہزادے، ریٹائرڈ فوجی اور ایک سابق جج سمیت انتہائی دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے درجنوں افراد کو گرفتار کیا ہے

تاہم امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق یہ واضح نہیں ہوا کہ حکومت کا تختہ الٹنے کا یہ مبینہ منصوبہ کتنا ٹھوس تھا

جرمن پولیس کے مطابق گرفتار ہونے والے کارکن ایک مقامی شدت گرد تنظیم کےاراکین یا حامی ہیں، جو جرمن ریاست کا تختہ الٹنے اور اس کے قوانین و ضوابط تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہیں

واضح رہے کہ جرمنی دائیں بازو کے گروپوں کے کسی بھی خطرے کو سنجیدگی سے لیتا ہے، یہی وجہ ہے کہ اس سازش کا پتہ چلنے کے بعد ہزاروں پولیس اہلکاروں نے ملک کے بیشتر حصوں میں بدھ کی شب چھاپے مارے

جرمن وزیر انصاف مارکو بوش من کا کہنا تھا ”تحقیقات کی ہدایات دراصل ایک مشتبہ دہشت گرد نیٹ ورک کے خلاف کی گئی جس کا تعلق Reichsbürger موومنٹ یا ’رائش سیٹیزنز موومنٹ‘ سے ہے۔ مارکو بوش من نے بتایا چھاپے ایسے افراد کے خلاف مارے گئے، جن پر ریاستی اداروں پر مسلح حملے کی منصوبہ بندی کا شبہ ہے

مارکو بوش من کے بقول ”یہ شبہ پایا جاتا ہے کہ آئینی اداروں پر مسلح حملے کی منصوبہ بندی کی گئی تھی‘‘

چیف فیڈرل پراسیکیوٹر پیٹر فرینک نے صحافیوں کو بتایا ”اس گروپ نے حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد ملک کا چارج سنبھالنے کے لیے ایک ’کونسل‘ کا قیام کر لیا تھا اور ساتھ ہی عسکری تنظیم بھی، جس نے ایک نئی جرمن فوج تیار کرنا تھی“

فرینک نے کہا ”اس دہشت گرد تنظیم کے کچھ ارکان نے جرمن پارلیمنٹ میں داخل ہونے کے لیے طاقت کے استعمال پر بھی غور کیا“

بعد میں انہوں نے اے آر ڈی براڈکاسٹر کو بتایا ”گروپ کی تیاریاں پہلے ہی ایک اہم مرحلے میں تھیں حالانکہ بغاوت کی کوئی حتمی تاریخ طے نہیں کی گئی تھی“

اے ایف پی کے مطابق تقریباً تین ہزار سکیورٹی افسران، جن میں ایلیٹ اینٹی ٹیرر یونٹس بھی شامل تھے، نے چھاپوں میں حصہ لیا اور ایک سو تیس سے زائد مقامات کی تلاشی لی۔ جرمن میڈیا نے اسے انتہائی دائیں بازو کے انتہا پسندوں کے خلاف ملک کی تاریخ کی اب تک کی سب سے بڑی پولیس کارروائیوں میں سے ایک قرار دیا ہے

وفاقی استغاثہ نے کہا کہ اس گروپ پر الزام ہے کہ وہ ’سازشی نظریات‘ پر یقین رکھتا ہے، جس میں نام نہاد ’رائخ شہری تحریک‘ (ریچس بورگیو) کے بیانیے کے ساتھ ساتھ امریکہ کا سیاسی ’کیو اے نان‘ سازشی نظریہ بھی شامل ہے

استغاثہ کے حکام کے مطابق گرفتار ملزمان کا تعلق نومبر 2021ع کے آخر میں قائم ہونے والی ایک دہشت گرد تنظیم سے ہے، جس نے خود کو جرمنی کے موجودہ ریاستی نظام سے انحراف کرتے ہوئے اس پر قابو پانے اور اس کی جگہ ریاست کی اپنی شکل دینے کا ہدف مقرر کیا ہے۔ اس پورے منصوبے کا خاکہ پہلے ہی تیار کیا جا چکا ہے۔جرمنی کی قومی انٹیلیجنس ایجنسی کا اندازہ ہے کہ اس تحریک کے تقریباً اکیس ہزار پیروکار ہیں

گرفتار کیے گئے 25 مردوں اور عورتوں میں سے 24 کا تعلق جرمنی سے ہے اور ایک مشتبہ حامی کا تعلق روس سے ہے۔ اس سلسلے میں ایک گرفتاری آسٹریا اور ایک اٹلی میں بھی عمل میں آئی ہے۔ وفاقی پراسیکیوٹر کے دفتر نے بتایا کہ ان کی نگاہ 27 دیگر مشتبہ افراد پر بھی ہے

دوسری جانب حکومت کی اتحادی گرین پارٹی کی قانون ساز سارہ نینی کا ماننا ہے کہ یہ گروپ بغاوت کرنے کی طاقت نہیں رکھتا

نینی نے سوشل میڈیا پر جاری ایک پوسٹ میں کہا ”مزید تفصیلات سامنے آ رہی ہیں جو اس بارے میں شکوک پیدا کرتی ہیں کہ آیا یہ لوگ اتنے ہوشیار تھے کہ اس طرح کی بغاوت کی منصوبہ بندی اور اسے انجام دے سکیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ ان کے خیالات کتنے ہی غیر پختہ ہوں اور ان کے منصوبے کتنے ہی نا امیدی پر مبنی ہوں لیکن یہ کوشش بھی خطرناک ہے“

جرمن نشریاتی ادارے ڈی ڈبلیو کے مطابق رائش سیٹیزنز موومنٹ بہت سی چھوٹی تنظیموں اور افراد پر مشتمل ہے، خاص طور پر جرمن ریاست برانڈنبرگ، میکلنبُرگ-ویسٹرن پومیرینیا اور باویریا میں۔ اس تحریک کے اراکین اور حامی نہ تو وفاقی جمہوریہ جرمنی اور نہ ہی اس کے کسی سرکاری حکام اور اداروں کی قانونی حیثیت کو تسلیم کرتے ہیں۔ ان افراد کا استدلال ہے کہ دوسری عالمی جنگ سے پہلے کےجرمن آئین کو کبھی مکمل طور پر کالعدم قرار نہیں دیا گیا تھا نہ ہی اسے منسوخ یا مسترد کیا گیا تھا، اس لیے 1949 ء میں مغربی جرمنی کی تشکیل اور اب دوبارہ متحد جرمنی کی قانونی حیثیت درست نہیں ہے

یعنی رائش سیٹیزنز موومنٹ سے وابستہ تمام افراد وفاقی جمہوریہ جرمنی کی موجودہ قانونی حیثیت کو چیلنج کرتے ہیں

واضح رہے کہ Drittes Reich کی اصطلاح تاریخ میں جرمن نیشنل سوشلسٹوں کے دور کے لیے استعمال ہوتی رہی ہے۔ 1920ء کے عشرے میں قومی تحریک چلانے والے اور نازی سوشلسٹوں نے اسے اپنے سیاسی پروپگینڈا کے لیے بطور قومیت پرستی بھی استعمال کیا۔ یہ دور ہٹلر کا نازی دور تھا اس لیے دوسری عالمی جنگ کے خاتمے کے بعد اس اصطلاح کو انتہای تنقید کی نگاہ سے دیکھا جانے لگا اور اسے ترک کر دیا گیا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close