پاکستان کی جانب سے ملتان ٹیسٹ میں ڈیبیو کرنے والے ’مسٹری اسپنر‘ ابرار احمد نے اپنے بارے میں ماہرین کے دعووں کو اپنے پہلے ہی میچ میں سات وکٹیں حاصل کر کے درست ثابت کر دیا ہے
”خواہش تو میری یہی ہے کہ میں انگلینڈ کے پانچ سے چھ کھلاڑی آؤٹ کروں لیکن جو روٹ اور بین اسٹوکس میرا ہدف ہوں گے۔“ یہ بات ابرار نے میچ سے پہلے کہی، اور اس سے بڑھ کر کر دکھایا
انگلینڈ کے خلاف دوسرے ٹیسٹ میچ میں ہی ابرار احمد نے اپنی انگلیوں کا جادو دکھاتے ہوئے ڈیبیو ٹیسٹ میچ کی پہلی اننگز میں 7 کھلاڑی آؤٹ کرنے کی خواہش نہ صرف پوری کر لی بلکہ ان چھ میں سے بین اسٹوکس اور روٹ بھی شامل ہیں، جو ان کے ہدف پر تھے
ابرار احمد ٹیسٹ ڈیبیو کرتے ہوئے پہلے سیشن میں پانچ وکٹیں لینے والے پہلے پاکستانی بولر بن گئے ہیں، جبکہ پاکستان کی جانب سے ڈیبیو ٹیسٹ میں سات وکٹیں لینے والے تیسرے بولر ہیں
انگلینڈ کے خلاف سیریز کے لیے پاکستان ٹیم کے اسکواڈ کا اعلان ہوتے ہی ابرار احمد خاص طور پر سب کی توجہ کا مرکز بنے ہوئے تھے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ روایتی اسپنر نہیں بلکہ وہ لیگ بریک گگلی کے ساتھ ساتھ کیرم بال بھی کر لیتے ہیں
ابرار احمد کو ’مسٹری‘ سپنر کہا جاتا ہے یعنی بلے باز ہمیشہ سے سرپرائز میں رہتے ہیں کہ وہ کس قسم کی گیند کروائیں گے۔ انہوں نے نہ صرف انگلش بلے بازوں بلکہ متعدد کرکٹ شائقین کو بھی سرپرائز دیا
انہوں نے انگلینڈ کے جارحانہ بیٹنگ کرنے والے ٹاپ فائیو بلے بازوں کو اپنی مسٹری اسپن خصوصاً کیرم بال سے بیٹ کیا اور ان کی جانب سے کاؤنٹر اٹیک کے باوجود اپنی لینتھ پر بولنگ کرتے رہے
خیال رہے کہ ابرار احمد کو راولپنڈی ٹیسٹ میں شامل نہ کرنے پر پاکستان کی مینجمنٹ کو خاصی تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ابرار احمد نے اس سیزن کی قائداعظم ٹرافی میں 43 وکٹیں حاصل کی ہیں، جو اس سال کسی بھی بولر کی سب سے زیادہ وکٹیں ہیں اور یہی کارکردگی ان کی پاکستانی ٹیم میں پہلی بار شمولیت کی وجہ بنی ہے
ان پر زاہد محمود کو ترجیح دینے کے حوالے سے جب ایک پریس کانفرنس میں ثقلین مشتاق سے سوال پوچھا گیا تھا تو انہوں نے کہا تھا ”ابرار نے ڈومیسٹک کرکٹ میں اچھا پرفارم کیا ہے تاہم ہم لائن نہیں توڑنا چاہتے تھے اور کسی کو فاسٹ ٹریک نہیں کرنا چاہتے تھے جب ایک کھلاڑی ایک سال سے انتظار کر رہا ہے۔ زاہد ویٹنگ لسٹ میں تھا، اس لیے ہم نے اس کے ساتھ انصاف کرنے کا فیصلہ کیا“
دلچسپ بات یہ ہے کہ ابرار نے اس سیزن میں 43 میں سے 40 وکٹیں راولپنڈی کرکٹ اسٹیڈیم میں 17 کی اوسط سے حاصل کی تھیں
ان کی پانچ وکٹوں میں زیک کرالی، بین ڈکٹ، جو روٹ، اولی پوپ اور ہیری بروک کی وکٹیں شامل ہیں اور ان میں جو روٹ کے علاوہ تمام ہی بلے باز پنڈی ٹیسٹ میں سنچری اسکور کر چکے ہیں
ابرار احمد ہیں کون ہیں؟
چوبیس سالہ ابرار احمد کے والد کا تعلق خیبر پختونخوا کے ضلع مانسہرہ کے چھوٹے سے قصبے شنکیاری سے ہے، جبکہ ان کی والدہ لاہور سے تعلق رکھتی ہیں
والد کا ٹرانسپورٹ کا کام ہے اور یہ فیملی کافی عرصے سے کراچی میں مقیم ہے
ابرار احمد کی پیدائش کراچی کی ہے۔ انہوں نے کرکٹ اپنے علاقے جہانگیر روڈ کے گلی محلے کی ٹینس بال سے شروع کی
ابرار احمد بتاتے ہیں ”میرے بڑے بھائیوں کو کرکٹ کا شوق تھا۔ وہ نشتر پارک اور دوسرے میدانوں میں جا کر کھیلا کرتے تھے، میں وہاں جا کر بیٹھ جاتا اور انہیں کھیلتے ہوئے دیکھا کرتا تھا۔ پھر وہ وقت بھی آ گیا جب میں کھیل رہا تھا اور بھائی مجھے دیکھ رہے تھے۔“
کراچی کے کئی نوجوان کرکٹرز کی طرح ابرار احمد کے ابتدائی کریئر میں کوچ محمد مسرور کا عمل دخل نمایاں ہے، جنہوں نے ان میں چھپا ہوا ٹیلنٹ دیکھ کر کھیلنے کا موقع فراہم کیا
محمد مسرور کے کہنے پر ہی راشد لطیف نے ابرار احمد کو اپنی کرکٹ اکیڈمی میں بھی شامل کیا تھا
ابرار احمد کہتے ہیں ”میں نے سنا تھا کہ جب آپ کسی اکیڈمی میں جا کر کھیلتے ہیں تو آپ کو فیس وغیرہ کے پیسے دینے پڑتے ہیں لیکن ڈسٹرکٹ کی سطح پر میری بولنگ اتنی اچھی تھی کہ اس زمانے میں مجھ سمیت تین چار کرکٹرز ایسے تھے، جنہیں راشد لطیف اکیڈمی کی طرف سے ہر ماہ سات ہزار روپے ملتے تھے“
ابرار احمد بتاتے ہیں ”اگرچہ میرے بڑے بھائی بھی کرکٹ کھیلتے تھے اور مجھے بھی بہت شوق تھا لیکن میرے والد چاہتے تھے کہ میں پڑھائی پر توجہ دوں مگر میں کرکٹ میں کچھ کرنا چاہتا تھا۔ جب میرا نام ڈسٹرکٹ کی ٹیم میں آیا تو میں نے اپنے کزن شفیق سے کہا کہ آپ میرے والد سے بات کریں کہ وہ مجھے کھیلنے کی اجازت دے دیں۔ میرے کریئر کا وہ سب سے اہم لمحہ تھا، جب میرے کزن نے والد کو قائل کر لیا۔ انہوں نے میرے والد سے کہا کہ ابرار کو ایک سال دے دیں، اس دوران اگر وہ کچھ کرلیتا ہے تو ٹھیک ہے، ورنہ وہ آپ کے کہنے پر عمل کر لے گا“
ابرار احمد کے بارے میں عام تاثر یہی تھا کہ وہ صرف محدود اوورز کی کرکٹ میں کامیاب ہو سکتے ہیں لیکن یہ کوچ مسرور ہی تھے، جنہیں اس بات کا یقین تھا کہ ابرار احمد ریڈ بال کرکٹ میں بھی کامیاب ثابت ہو سکتے ہیں، تاہم کراچی کے ایک سلیکٹر انہیں موقع دینے کے بارے میں تذبذب کا شکار تھے اور انہوں نے راشد لطیف سے رابطہ کیا تو ان کا جواب تھا کہ محمد مسرور جو کہہ رہے ہیں، وہ صحیح ہے، چنانچہ وہ ریڈبال کی ٹیم میں بھی جگہ بنانے میں کامیاب ہو گئے
ابرار احمد کی ڈومیسٹک کرکٹ میں عمدہ کارکردگی سے کوچ مکی آرتھر بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے تھے
ابرار احمد بتاتے ہیں ”میں سنہ 2017 کی پاکستان سپر لیگ میں کراچی کنگز کی طرف سے دو میچ کھیلا تھا اگرچہ میں کوئی وکٹ لینے میں کامیاب نہیں ہو سکا تھا لیکن پشاور زلمی کے خلاف میچ میں اوئن مورگن کے خلاف میرے اسپیل سے مکی آرتھر، کمار سنگاکارا اور مہیلا جے وردھنے بہت متاثر ہوئے تھے۔ بدقسمتی سے میری کمر میں ہیئر لائن فریکچر ہو گیا اور میں تقریباً دو سال کرکٹ سے دور رہا لیکن اس عرصے میں مکی آرتھر نے مجھ پر بہت توجہ دی اور مجھے چالیس روز نیشنل کرکٹ اکیڈمی میں رکھ کر میری فٹنس کی بحالی پر کام کروایا“
ابرار احمد کہتے ہیں ”وہ دو سال بہت مشکل تھے لیکن میں نے خود سے یہی کہہ رکھا تھا کہ مجھے صرف فٹ ہونا ہے کیونکہ جو کرنا ہے وہ انگلیوں نے کرنا ہے“
ابرار احمد کا کہنا ہے ”میں نے پروفیشنل کرکٹ میں آنے کے بعد ویسٹ انڈیز کے سنیل نارائن اور سری لنکا کے اجانتھا مینڈس کی وڈیوز باقاعدگی سے دیکھی ہیں کہ یہ دونوں بولرز کس طرح بیٹسمینوں کو ٹریپ کرتے ہیں“
ابرار کے بارے میں کوچ محمد مسرور کہتے ہیں ”ان کی انگلیوں میں بڑی جان ہیں اور وہ یکساں مہارت سے گیند کو اندر بھی لے آتے ہیں اور باہر بھی نکالتے ہیں جیسا کہ اجانتھا مینڈس اور افغانستان کے مجیب الرحمن کرتے رہے ہیں۔ وہ ایک مکمل پیکج ہیں انہیں وکٹیں لینے کا فن خوب آتا ہے“