امریکہ کی ایک عدالت نے گزشتہ ہفتے پاکستانی نژاد امریکی شہری رمیش سنی بلوانی کو ہیلتھ ٹیکنالوجی کمپنی ‘تھیرانوس’ کی طرف سے جعلی ہیلتھ ڈیوائس بنانے کے جرم میں تیرہ سال قید کی سزا سنائی
پاکستان کے صوبے سندھ میں پیدا ہونے والے رمیش بلوانی نے سن 1984ع تک لاہور کے ایچی سن کالج میں تعلیم حاصل کی تھی۔ بعد ازاں وہ اپنے خاندان کے ہمراہ بھارت میں جا بسے تھے، جہاں سے وہ امریکہ منتقل ہوئے
رواں برس جولائی میں رمیش بلوانی پر دھوکہ دہی کی فردِ جرم عائد ہوئی تھی۔ انہوں نے اپنی محبوبہ اور کمپنی کی بانی الزبتھ ہومز کے ساتھ مل کر یہ دعویٰ کیا تھا کہ کمپنی نے ایسی ڈیوائس تیار کی ہے، جس سے کسی بھی فرد کے خون کے چند قطروں سے سینکڑوں بیماریوں کو اسکین کیا جا سکتا ہے
یہ کہانی ہے ایک امریکی بائیو ٹیک اسٹارٹ اپ کمپنی کے عروج و زوال کی۔۔ یہ قصہ امریکہ کی سلیکون ویلی کے سب سے بڑے فراڈ کا ہے
یہ داستان ہے ‘تھیرانوس’ کی اور اس داستان کے مرکزی کردار ہیں تھیرانوس کی بانی الزبتھ ہومز اور ان کے نائب، چیف آپریٹنگ آفیسر رمیش بلوانی
الزبتھ ہومز نے رمیش بلوانی کے ساتھ مل کر امیر سرمایہ کاروں سے تقریباً ایک بلین ڈالر اکٹھے کیے تھے
رمیش عمر میں الزبتھ سے انہس برس بڑے ہیں اور پیشہ ورانہ تعلقات کے علاوہ دونوں میں محبت کا رشتہ بھی تھا جسے برسوں خفیہ رکھا گیا
تھیرانوس کیا ہے؟
تھیرانوس کیا ہے کے بجائے کیا تھی کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کیوں کہ ستمبر 2018 میں یہ کمپنی ہمیشہ کے لیے بند کر دی گئی تھی۔
تھیرانوس ایک ایسا اسٹارٹ اپ تھا، جس کی آمد نے ہیلتھ سائنسز کی دنیا میں ہلچل مچا دی تھی
اس کمپنی نے ایڈیسن نام کی ایک چھوٹی سی مشین تیار کی، جو ہیلتھ کیئر کی دنیا میں مختلف بیماریوں کی تشخیص کے لیے خون کے نمونے حاصل کرنے کے طریقے کو ہمیشہ کے لیے تبدیل کرنے والی تھی
کمپنی کا دعویٰ تھا کہ کہ ایڈیسن نام کی یہ مشین محض چند قطرے خون سے 200 سے زائد مختلف اقسام کے ٹیسٹ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ ان میں کئی ایسے ٹیسٹس بھی شامل تھے جو بیماریوں کے لاحق ہونے سے قبل ہی ان کی تشخیص میں مدد دیتے
یہ بھی پڑھیں:
دنیا کی ’کم عمر ترین ارب پتی خاتون‘ کی لوگوں سے فراڈ کی تہلکہ خیز کہانی
فوربز میگزین کے مطابق ’دنیا کی سب سے کم عمر خود ساختہ ارب پتی خاتون‘ اور صحت کے متعلق جدید ٹیکنالوجی بنانے کی دعویدار کمپنی تھیرانوس کی سابق چیف ایگزیکٹیو الزبتھ ہومز پر سرمایہ کاروں کے ساتھ فراڈ کا جرم ثابت ہو گیا ہے
ایلزبتھ ہومز کچھ برس قبل تک تو سیلیکون ویلی کی ایک ’ڈارلنگ‘ تھیں اور وہ کچھ غلط تو کر ہی……
یہ سائنس اور ٹیکنالوجی کی دنیا میں ایک انقلابی تبدیلی کی پیش گوئی تھی۔ ایسا لگ رہا تھا تھیرانوس کی آمد سے امریکہ میں 60 ارب ڈالرز کی روایتی لیب ٹیسٹنگ صنعت کا خاتمہ ہو جائے گا
مگر حقیقت میں ایڈیسن نامی مشین چند ہی ٹیسٹس کرنے کے قابل تھی اور ان ٹیسٹس کے نتائج بھی حتمی نہیں کہے جا سکتے تھے
وفاقی تحقیقات کے دوران کمپنی کے سابقہ ملازمین کا کہنا تھا کہ الزبتھ اور رمیش عرف سنی دونوں جانتے تھے کہ کمپنی کے پاس وہ صلاحیتیں اور ٹیکنالوجی نہیں، جس کا وہ دعویٰٰ کر رہے تھے۔ ملازمین کے مطابق سرمایہ کاروں اور ’وال گرینز‘ فارمیسی جیسے قد آور کلائنٹس کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے بہت سے ٹیسٹس دیگر کمپنیوں کی مشینز پر کیے جاتے تھے اور ان کے نتائج کو ایڈیسن سے حاصل کیے گیے نتائج کے طور پر پیش کیا جاتا تھا
اکتوبر 2015 میں ’وال اسٹریٹ جرنل‘ میں چھپنے والی تحقیقاتی رپورٹس میں کمپنی کی ان بے ضابطگیوں اور غلط بیانیوں پر سوال اٹھائے گئے جسے الزبتھ ہومز نے بڑے اعتماد کے ساتھ میڈیا پر یکسر مسترد کر دیا تھا
یاد رہے وال اسٹریٹ جرنل کے مالک میڈیا ٹائیکون روپرٹ مرڈوخ ہیں، جو الزبتھ ہومز کی تھیرانوس میں بذات خود ساڑھے بارہ کروڑ ڈالرز کی سرمایہ کر چکے تھے
اپنے زوال سے پہلے تھیرانوس کمپنی کی مالیت کا تخمینہ نو ارب ڈالرز لگایا گیا تھا
سال 2014 میں ’فوربز میگزین‘ نے الزبتھ ہومز کی نیٹ ورتھ یا اثاثوں کی کل مالیت ساڑھے چار ارب ڈالرز بتائی اور تیس سالہ الزبتھ ہومز کو ’اپنے بل بوتے پر ارب پتی بننے والی سب سے کم عمر خاتون‘ قرار دیا۔
تھیرانوس کے مرکزی کردار الزبتھ ہومز اور رمیش سنی بلوانی
سلیکون ویلی میں بڑی تعداد میں نوجوان اپنے اسٹارٹ اپس کے لیے سرمایہ کار تلاش کر رہے ہوتے ہیں۔ ان میں سے اکثریت کو مہینوں اور سالوں کی کوشش کے بعد بھی ناکامی کا منہ دیکھنا پڑتا ہے
ایسے میں الزبتھ ہومز میں ایسا کیا تھا، جس سے بڑے سرمایہ کار ہوں، ملک کے صدر ہوں یا پھر نائب صدر سب ہی مرعوب ہو جاتے تھے؟
اس کے لیے الزبتھ ہومز کی شخصیت جاننا ضروری ہے
الزبتھ ہومز 1984ع میں امریکی دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں پیدا ہوئیں، جہاں ان کے والدین سرکاری عہدوں پر کام کرتے رہے ہیں۔ ان کے ایک پڑوسی نے نیوز چینل ’اے بی سی‘ کی ایک پوڈ کاسٹ میں بتایا کہ الزبتھ کے والد کرسچیئن ہومز اور والدہ نوئل ہومز دونوں کو اپنے مضبوط خاندانی پس منظر پر بڑا فخر تھا اور وہ اکثر اپنے آباؤ اجداد کی کامیابیوں کا ذکر کرتے تھے
کوئی بعید نہیں کہ ایسے ماحول میں پلنے والا بچہ جہاں شخصیتی کامیابی کو فخر و ناز کا باعث سمجھا جاتا ہو اور اس کے قصے دوسروں کو مثال کے طور پر سنائے جاتے ہوں، ایسے ہی خواب آنکھوں میں لے کر پروان چڑھے
جریدے ’دا نیویارکر‘ کو دیے گیے ایک انٹرویو میں خود الزبتھ ہومز کا کہنا تھا کہ وہ ایک ایسے گھر میں پلی بڑھیں، جہاں کچھ بڑا کرنے پر زور دیا جاتا تھا، جہاں یہ بتایا جاتا تھا کہ زندگی کو بے مقصد طور پر گزارنے کا فیصلہ کرنے والوں کے ساتھ کیا ہوتا ہے اور وہ مستقبل میں کیسی زندگی بسر کرتے ہیں
الزبتھ ہومز یقیناً اچھی طالبِ علم رہی ہوں گی، تب ہی امریکہ کی معتبر ترین یونیورسٹیوں میں سے ایک اسٹینفورڈ میں داخلہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی تھیں
امریکی نیوز ادارے ’انسائیڈر‘ نے ہومز کے رشتہ داروں کے حوالے سے تحریر کیا کہ نو سال کی عمر میں جب الزبتھ سے پوچھا گیا کہ وہ کیا بننا چاہتی ہیں، تو انہوں نے کہا کہ وہ ارب پتی بننا چاہتی ہیں
انہی رشتہ داروں کے حوالے سے مزید بتایا گیا کہ وہ بچپن میں اپنے خاندان کے بچوں کے ساتھ بورڈ گیم منوپلی اس وقت تک کھیلتی رہتی تھیں، جب تک وہ گیم کی ساری جائیدادیں حاصل نہ کر لیتیں۔ جب انہیں لگتا آج قسمت ساتھ نہیں دے رہی تو وہ گیم چھوڑ کر چلی جاتی تھیں
سن 2015ع میں کی گئی ایک ٹوئٹ میں الزبتھ نے خود لکھا تھا ”کوئی ایسا خواب نہیں جو آپ نہ پا سکیں، کسی کو اجازت نہ دیں کہ وہ آپ کو کہہ سکے کہ آپ ایسا نہیں کر پائیں گے“
ان معلومات سے الزبتھ ہومز کی شخصیت کے بارے میں یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان کی نظر آسمان کی اونچائیوں پر تھی اور اپنی منزل پانے کے راستے میں وہ کوئی رکاوٹ قبول نہ کرتیں
میڈیا رپورٹس کے مطابق اسٹینفورڈ میں تعلیم شروع کرنے سے پہلے وہ موسمِ گرما کی چھٹیوں میں مینڈرن زبان سیکھنے چین گئیں اور وہیں ان کی ملاقات رمیش بلوانی سے ہوئی جو اسٹینفورڈ ہی میں کمپیوٹر سائنسز میں ڈگری حاصل کر رہے تھے
تھیرانوس کا دوسرا اہم کردار رمیش سنی بلوانی ہے۔ الزبتھ کے نمبر دو کہلانے والے رمیش، جنہیں سنی کے نام سے پکارا جاتا ہے، برطانوی اخبار ’گارڈیئن‘ کے مطابق پاکستان کے صوبے سندھ میں ایک ہندو خاندان میں پیدا ہوئے
رمیش بلوانی 1986ع میں امریکہ چلے گئے تھے، جہاں انہوں نے یونیورسٹی آف ٹیکساس ایٹ آسٹن سے انفارمیشن سسٹمز میں کالج ڈگری حاصل کی۔ ’گارڈیئن‘ اخبار کے مطابق ان کا خاندان بعد میں پاکستان سے بھارت ہجرت کر گیا تھا، جس کے بعد وہ بھی امریکہ منتقل ہو گئے
میڈیا رپورٹس کے مطابق سن 2002ع میں چین میں ملاقات کے بعد (اُس وقت) اٹھارہ سالہ الزبتھ اور سینتیس سالہ رمیش میں مبینہ طور پر محبت کا رشتہ قائم ہوا
’وال اسٹریٹ جرنل‘ میں بے نقاب ہوئی تھیرانوس کی کہانی میں یہ بھی دعویٰ کیا گیا تھا کہ الزبتھ اور رمیش دونوں نہ صرف ایک دوسرے سے محبت کرتے تھے بلکہ رہتے بھی ساتھ ہی تھے۔ دونوں نے خود عدالت میں اس رشتے کا اعتراف کیا اور اس کا بھی کہ یہ بات انہوں نے سرمایہ کاروں سے خفیہ رکھی
نشریاتی ادارے ’اے بی سی نیوز‘ کے پوڈکاسٹ The Dropouts کی جانب سے عدالت سے حاصل کیے گئے رمیش کے بیان کے مطابق انہوں نے عدالت کو بتایا کہ جب تھیرانوس کو پیسوں کی کمی کا سامنا تھا اور چونکہ وہ کمپنی کی صلاحیتوں پر یقین رکھتے تھے، اس لیے انہوں نے کمپنی کو ایک کروڑ تیس لاکھ ڈالرز دیے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کا یہ قدم خلوص اور نیک نیتی پر مبنی تھا
رمیش انٹرنیٹ اور ڈاٹ کام کے عروج کے زمانے میں اپنے کمپنی حصص فروخت کرکے چار کروڑ ڈالرز کما چکے تھے اور جس وقت ان کے اور الزبتھ کے درمیان محبت کا رشتہ قائم ہوا، وہ مضبوط مالی حیثیت کے مالک تھے
آگے جا کر یہی رمیش بلوانی 2009ع میں تھیرانوس کے چیف آپریٹنگ آفیسر کا عہدہ سنبھالتے ہیں
رمیش یا سنی بلوانی کے نام کو اگر آپ انٹرنیٹ پر تلاش کریں تو تھیرانوس کے عروج و زوال کی کہانی، فراڈ اور عدالتی کیس کے علاوہ ان کی کوئی معلومات نہیں ملیں گی
’وال اسٹریٹ جرنل‘ کے صحافی جان کیریرو جنہوں نے تھیرانوس کے جھوٹ کو بے نقاب کیا تھا، کا کہنا ہے ”سنی بلوانی نے ممکنہ طور پر اپنا تمام ڈجیٹل ریکارڈ تلف کرا دیا تھا، کیونکہ جو شخص خود سافٹ ویئر اور انٹرنیٹ ٹیکنالوجی کی دنیا میں نام اور پیسہ دونوں بنا چکا ہو، ممکن نہیں کہ اس کے بارے میں انٹرنیٹ پر کچھ بھی نہ ملے
جان کیریرو کے مطابق کمپنی میں کام کرنے والے ملازمین نے انہیں بتایا کہ الزبتھ اگر کمپنی کی بانی تھیں تو ان کے طریقۂ کار کو لاگو کرنے والی شخصیت رمیش کی ہی تھی۔ ملازمین کے مطابق رمیش نے کمپنی میں خوف کی ایک فضا قائم کی ہوئی تھی۔ وہ ملازمین کے کام کے اوقاتِ کار نوٹ کرتے اور وڈیو کیمروں سے ان پر نظر رکھتے
ایک بار وہ ایک ملازم کی یہ سرزنش کرتے ہوئے پائے گئے کہ اس نے محض آٹھ گھنٹے کیوں کام کیا اور یہ کہ وہ انہیں ’ٹھیک‘ کر دیں گے۔ ملازم نوکری چھوڑ کر دروازے کی طرف بڑھا تو رمیش نے اس پر پولیس بلوا لی
ملازمین کے مطابق رمیش بد زبان اور گرم مزاج شخصیت کے مالک تھے
تھیرانوس کیسے سرمایہ کاروں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے میں کامیاب ہوئی؟
سیلیکون ویلی میں Creative Chaos اسٹارٹ اپس اور فورچیون پسنچ سو کمپنیوں کو کاروباری حکمت عملی اور پراڈکٹ ڈویلپمنٹ میں مدد فراہم کرتی ہے۔ اس کے بانی شاکر حسین دو اہم وجوہات بتاتے ہیں، جن کی بنا پر تھیرانوس تیزی سے اپنی جگہ بنا پائی
شاکر حسین کہتے ہیں کہ امریکہ میں سرمایہ کار کم شرح منافع کی وجہ سے بینکوں کو ترجیح نہیں دیتے۔ ان کے لیے کاروباری ریس کے ایک ایسے گھوڑے پر رقم لگانا زیادہ فائدہ مند ہے جو چند برس بعد ان کی رقم کو کئی گنا کردے۔ اس لیے یہاں سرمایہ کار اسٹارٹ اپس میں دلچسپی رکھتے ہیں
شاکر حسین کے مطابق سلیکون ویلی ہمیشہ سے سرمایہ کاروں کے لیے کشش کا باعث رہی ہے مگر سرمایہ کار عموماً بغیر تحقیق اور اپنے مشیروں کی صلاح کے ایسے اقدامات نہیں اٹھاتے
پھر امریکہ کے بڑے بڑے سرمایہ کار، جن میں معروف کاروباری شخصیت اور میڈیا ٹائیکون روپرٹ مرڈوخ، اوریکل کمپنی کی بانی لیری الیسن، وال مارٹ کمپنی کا مالک والٹن خاندان اور دیگر بڑے نام شامل ہیں کس طرح بغیر سوچے سمجھے اتنی خطیر رقوم تھیرانوس پر لگا بیٹھے؟
اس کی وجوہات پر روشنی ڈالتے ہوئے شاکر حسین کہتے ہیں کہ تھیرانوس کمپنی جو وعدہ کر رہی تھی وہ گویا بائیو ٹیکنالوجی کی فیلڈ میں انقلابی قدم تھا۔ کوئی بڑا نام اس سے محروم نہیں رہنا چاہتا۔ تھیرانوس ایک ایسا مقناطیس بن گیا تھا جس سے جڑنے والا ہر سرمایہ کار دوسرے کے لیے کشش کے باعث بنتا رہا
شاکر کے مطابق اس کے پس پردہ غالباً یہی خیال ہو گا کہ جب ایک اتنے بڑے نام نے کمپنی میں سرمایہ کاری کر رکھی ہے تو اپنے طور تحقیق کر ہی لی ہو گی اس لیے ہمیں ضرورت نہیں
یہی نہیں تھیرانوس کا بورڈ آف ڈائریکٹرز بھی معتبر ناموں سے جھلملا رہا تھا۔ بورڈ ممبرز میں دو سابق وزرائے خارجہ جارج شولٹز اور ہنری کسنجر، سابق سینیٹر سیم نن، ریٹائرڈ نیوی ایڈمرل گیری رفیڈ، سابق جنرل جیمز میٹس، جو بعد میں ٹرمپ حکومت میں وزیرِ دفاع بنے، جیسے بڑے بڑے نام شامل رہے
شاکر حسین کے مطابق تھیرانوس کے کیس میں ایسا ہی ہوا کہ سرمایہ کار ہوں یا بورڈ ممبران سب ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی کمپنی سے جڑتے رہے۔ ان کے نزدیک تھیرانوس ایک ایسا یادگار اور انقلابی پراجیکٹ تھا جس سے جڑنا شاید ان کے قد میں مزید اضافہ کر دے گا
شاکر حسین کہتے ہیں کہ پہلا بڑا نام شاید ذاتی تعلقات کی وجہ سے آیا ہو، دوسرا نام پہلے کو دیکھ کر آگیا اور پھر یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہا
تھیرانوس صرف سرمایہ کاروں کو ہی اپنی جانب نہیں کھینچ رہی تھی بلکہ ملک کے سربراہان کہ توجہ حاصل کرنے میں بھی کامیاب ہو گئی تھی۔ 2015 میں اس وقت کے نائب صدر جو بائیڈن نے تھیرانوس کمپنی کے ہیڈ کوارٹرز کے دورے میں الزبتھ ہومز کی شخصیت کو متاثر کن قرار دیا
تھیرانوس کی لیب دیکھنے کے بعد جو بائیڈن کا کہنا تھا کہ یہ "مستقبل کی لیب” ہے۔ بعد میں پتا لگا تھا کہ یہ جعلی لیب خاص طور پر نائب صدر کے دورے کے لیے تیار کی گئی تھی
سال 2015 میں ہی صدر براک اوباما نے وائٹ ہاؤس کی ایک تقریب میں الزبتھ ہومز کو دنیا بھر میں کاروبار کے فروغ کے لیے صدارتی سفیر بھی نامزد کیا
ایک عوامی تقریب میں سابق صدر بل کلنٹن الزبتھ ہومز سے مائیک پر یہ کہتے ہوئے پائے گئے کہ آپ نے 12 سال پہلے اس کمپنی کی بنیاد رکھی، ذرا حاضرین کو بتایئے کہ آپ کی عمر اس وقت کیا تھی؟ الزبتھ مسکراتے ہوئے کہتی ہیں، انیس سال
مختصراً الزبتھ ہومز کم عمری میں میڈیکل سائنس کی فیلڈ میں جدت لانے والی ایک ایسی سلیبریٹی بن گئی تھیں، جن سے ہر شخص متاثر تھا، ہر شخص ملنا چاہتا تھا ما سوائے ان کی اپنی کمپنی کے ملازمین کے
انجام
جعلی ڈیوائس کیس میں عدالت نے تقریباً چار ہفتے قبل کمپنی تھیرانوس کی سی ای او الزبتھ ہومز کو ساڑھے گیارہ سال قید کی سزا سنائی تھی
جعلی ڈیوائس اسکینڈل کے دوسرے کردار رمیش بلوانی چھ برس تک تھیرا نوس کمپنی کے چیف آپریٹنگ افسر کے عہدے پر کام کرتے رہے ہیں، لیکن 2016ع میں رمیش اور الزبتھ کا تعلق ختم ہو گیا تھا
مقدمے میں گواہی دیتے ہوئے الزبتھ ہومز نے ستاون سالہ رمیش بلوانی پر برسوں سے جذباتی اور جنسی استحصال کرنے کا الزام بھی لگایا، تاہم رمیش کے وکیل نے ان الزامات کی تردید کی
عدالتی دستاویزات میں رمیش بلوانی کے وکلا نے انہیں ایک محنتی تارکِ وطن کے طور پر پیش کیا، جو 1980ع کی دہائی کے دوران بھارت سے امریکہ منتقل ہو کر کالج میں داخلہ لینے والے اپنے خاندان کے پہلے فرد بنے تھے
خبر رساں ادارے ‘ایسوسی ایٹڈ پریس’ کے مطابق جعلی ڈیوائس کیس کے دونوں کرداروں کے خلاف مقدموں کے نتائج کچھ مختلف تھے
رمیش کو تمام بارہ سنگین جرائم میں سزا سنائی گئی تھی اور ان کے وکلا نے صرف چار سے دس ماہ قید کی سزا کا مطالبہ کیا تھا۔ لیکن محکمۂ انصاف کے استغاثہ نے پندرہ سال کی سزا کی استدعا کی تھی، جبکہ ایک پروبیشن رپورٹ نے نو سال قید تجویز کی تھی
وفاقی وکیل استغاثہ یہ بھی چاہتے تھے کہ جج، رمیش کو دھوکہ دہی کے شکار سرمایہ کاروں کو آٹھ سو چار ملین ڈالر ادا کرنے کا حکم دیں
رمیش کے خلاف فیصلے کے برعکس، ہومز کو دھوکہ دہی اور سازش کے کئی الزامات سے بری کر دیا گیا تھا اور ان کے مقدمے میں جیوری بھی تین الزامات پر تعطل کا شکار رہی۔