بیس ایڈیٹنگ: ایسا طریقہِ علاج، جس سے تیرہ سالہ لڑکی کے لاعلاج کینسر کا خاتمہ ہوا

ویب ڈیسک

دنیائے طب میں ایک انقلابی پیش رفت سامنے آئی ہے، جس میں ایک تیرہ سالہ بچی کے لاعلاج کینسر کو اس کے جسم سے ایک نئی انقلابی دوا کے پہلے استعمال سے ہی ختم کر دیا گیا ہے

جس بچی کے جینیاتی کوڈ میں تبدیلی کی گئی، وہ بچی کیموتھراپی اور بون میورو کے ٹرانسپلانٹ کے باوجود صحتیاب نہیں ہو پائی تھی، جس کے بعد سائنسدانوں نے آخری امید کے طور پر ان کے ڈی این اے کے چار کوڈز کو تبدیل کیا

ایلیسا کے لوکیمیا (خون کے کینسر) کی بیماری کے لیے جب دیگر تمام علاج ناکام ہو چکے تو برطانیہ کے گریٹ اورمونڈ اسٹریٹ ہسپتال کے ڈاکٹروں نے بائیولیوجیکل انجینیئرنگ کا استعمال کرتے ہوئے ’بیس ایڈیٹنگ‘ کی نئی دوا تیار کی، جو ایلیسا کی ایک نئی زندگی کا ذریعہ بن گئی

اچھی بات یہ ہے کہ علاج کو چھ ماہ گزر چکے ہیں اور ایلیسا میں کینسر کی نشاندہی نہیں ہوئی، تاہم ایلیسا کو اب بھی زیر نگرانی رکھا گیا ہے تاکہ یہ جانچ کی جا سکے کہ کہیں کینسر دوبارہ نہ ہو جائے

لیسٹر سے تعلق رکھنے والی تیرہ سالہ ایلیسا میں گذشتہ برس مئی میں ’ٹی سیلز ایکیوٹ لمفوبلاسٹک لیوکیمیا‘ کی تشخیص ہوئی تھی

ٹی سیلز کو ’جسم کا محافظ‘ سمجھا جاتا ہے، کیونکہ وہ جسم میں مختلف بیماریوں کے خطرات کو تلاش کر کے ختم کرتے ہیں، لیکن ایلیسا کے لیے وہ ایک خطرہ بن گئے تھے، کیونکہ ان کے جسم میں ٹی سیلز کی تعداد حد سے تجاوز کر گئی تھی

کیموتھراپی اور بون میرو ٹرانسپلانٹ کے بعد بھی ان کے جسم سے اس مرض کا خاتمہ نہیں ہوا تھا

تجرباتی دوا کے بغیر، صرف ایک ہی صورت باقی رہ گئی تھی کہ ایلیسا کی باقی ماندہ زندگی کو مرض کے ساتھ ہر ممکن حد تک آرام دہ بنایا جائے

ایلیسا کی والدہ کیونا بتاتی ہیں ”گذشتہ برس وہ کرسمس سے یہ سوچ کر خوفزدہ تھیں کہ یہ اس کا ہمارے ساتھ آخری کرسمس ہے“ اور پھر جنوری میں وہ اپنی بیٹی کی تیرہویں سالگرہ کے موقع پر ’ روئی‘ تھیں۔۔ ایلیسا کا کہنا تھا ”بالآخر میں مر جاتی۔“

مگر اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ صرف چند سال پہلے ناقابل تصور تھا اور یہ جینیات میں ناقابل یقین ترقی کی وجہ سے ممکن ہوا

گریٹ اورمنڈ اسٹریٹ ہپستال میں ڈاکٹروں کی ٹیم نے ’بیس ایڈیٹنگ‘ نامی ٹیکنالوجی کا استعمال کیا، جو صرف چھ سال پہلے ایجاد ہوئی تھی

بیسز زندگی کی زبان جیسی ہیں۔ ہمارے جسم میں موجود چار بنیادی قسم کی بیس جن میں ایڈنائن (اے)، سائٹوسین (سی)، گوانائن (جی) اور تھائمین (ٹی) ہمارے جینیاتی کوڈ کے بنیادی بلاکس ہیں۔ جس طرح حروف تہجی میں حروف معنی رکھتے ہیں، اسی طرح ہمارے ڈی این اے میں موجود اربوں بیسز ہمارے جسم کی ساخت کے ہدایات نامہ کے طور پر کام کرتے ہیں

بیس ایڈیٹنگ سائنسدانوں کو جینیاتی کوڈ کے خاص حصے کو زوم کرنے اور پھر صرف ایک بیس کی سالماتی ساخت کو تبدیل کرنے، اسے دوسرے میں تبدیل کرنے اور جینیاتی ہدایات کو تبدیل کرنے کی صلاحیت دیتی ہے

ڈاکٹروں اور سائنسدانوں کی بڑی ٹیم نے اس طریقے کا استعمال ایک نئی قسم کے ٹی سیل کو انجینئر کرنے کے لیے کیا، جو ایلیسا کے کینسر والے ٹی سیلز کا شکار کرنے اور اسے مارنے کی صلاحیت رکھتا تھا

انہوں نے اس طریقہ علاج کے لیے صحتمند ٹی سیلز کے ساتھ ابتدا کی، جو عطیہ کیے گئے تھے اور ان میں ترمیم کی

پہلے بیس ترمیم نے ٹی سیلز کو نشانہ بنانے کی صلاحیت کو غیر فعال کر دیا تاکہ وہ ایلیسا کے جسم پر حملہ نہ کریں۔ اور دوسری ترمیم میں ٹی سیلز پر موجود ایک کیمیائی جز کو ہٹایا گیا، جسے سی ڈی سیون کہا جاتا ہے جو ٹی سیلز پر موجود ہوتے ہیں

تیسری ترمیم میں ٹی سیلز پر ایک تہہ چڑھائی گئی تھی، جس نے کیموتھراپی کی دوائی سے خلیات کو ختم ہونے سے روکا تھا

جینیاتی تبدیلی کے آخری مرحلے میں ٹی سیلز کو ہدایت دی گئی کی کہ وہ جسم میں موجود ہر اس ٹی سیلز کو ختم کریں، جس پر ڈی سیون موجود ہو، تاکہ یہ ایلیسا کے جسم میں موجود ہر ٹی سیلز کو تباہ کر دے۔ صحت مند ٹی سیلز پر سی ڈی سیون کے کیمائی جز کو اس لیے ہٹایا گیا تھا کہ کہیں یہ خود کو ہی تباہ نہ کر دے

ڈاکٹروں کا خیال تھا کہ اگر یہ طریقہِ علاج کامیاب رہا تو ایلیسا کے قوت مدافعت کے نظام اور ٹی سیلز کو ایک اور بون میرو ٹرانسپلانٹ کے ذریعے بنایا جائے گا

جب رواں برس ڈاکٹروں نے اس تجرباتی طریقہِ علاج کے متعلق ایلیسا کے اہلِ خانہ کو بتایا تو ان کی والدہ سوچ میں پڑ گئیں۔ ان کا سوال تھا ”کیا آپ ایسا کر سکتے ہیں؟“ یہ فیصلہ ایلیسا نے کرنا تھا کہ کیا وہ اس تجرباتی طریقہ علاج کا حصہ بن سکتی ہیں، جہاں ان کے جسم کے لاکھوں خلیوں میں ترمیم کی جانی تھی

گریٹ اورمنڈ اسٹریٹ کے پروفیسر وسیم قاسم کا کہنا تھا ”وہ پہلی مریضہ تھی، جس کا اس نئی ٹیکنالوجی سے علاج کیا جانا تھا“

ڈاکٹر وسیم قاسم کا کہنا ہے کہ انسانی جینیات میں ترمیم میں بہت زیادہ کام ہو رہا ہے اور اس میں مختلف قسم کی بیماریوں کے خلاف علاج ڈھونڈنے کے بہت مواقع اور امکانات ہیں

تاہم اس طریقہ علاج کے دوران ایلیسا کے جسم میں انفیکشن کا خطرہ لاحق ہو گیا تھا کیونکہ ترمیم شدہ سیلز نے اس کے جسم میں کینسر والے ٹی سیلز اور ان پر حملہ کیا، جو اسے بیماری سے تحفط فراہم کرتے تھے

ایک مہینے کے بعد، ایلیسا کی صحت دن با دن گرتی جا رہی تھی اور اس کا قوتِ مدافعتی نظام دوبارہ بڑھانے کے لیے اس کا دوسرا بون میرو ٹرانسپلانٹ کیا گیا

ایلیسا نے سولہ ہفتے ہسپتال میں گزارے اور اس دوران اس کی اپنے اسکول جانے والے بھائی سے ملاقات نہیں ہوئی کہ کہیں وہ وہاں سے کوئی جراثیم نہ لے آئے

ایلیسا کے تین ماہ بعد ہونے والے طبی معائنے میں دوبارہ کینسر کی علامات ظاہر ہونے پر تشویش تھی لیکن اس کی دو حالیہ جانچوں میں ایسی کوئی علامات ظاہر نہیں ہوئیں

ایلیسیا کا کہنا تھا ”آپ ہر چھوٹی چیز پر شکر کرنا سیکھ جاتے ہیں، میں بہت شکرگزار ہوں کہ میں آج یہاں ہوں۔۔ یہ حیران کن ہے! یہ حیرت انگیز ہے کہ میں یہ موقع حاصل کرنے میں کامیاب رہی ہوں، میں اس کے لیے بہت شکر گزار ہوں اور یہ مستقبل میں دوسرے بچوں کی بھی مدد کرنے والا ہے“

ایلیسا اب وہ کرسمس کی تیاری کر رہی ہیں، انہیں اپنی خالہ کی شادی، دوبارہ اپنی سائیکل چلانے، اسکول جانے اور عام لوگوں کی طرح زندگی جینے کا انتظار ہے

ان کے خاندان کو امید ہے کہ اب انہیں دوبارہ کینسر نہیں ہوگا، لیکن وہ ایلیسا کی زندگی کو اتنی مہلت ملنے پر بھی شکرگزار ہیں

ان کی والدہ کہتی ہیں ”ایلیسا کی زندگی کا ایک اضافی سال ملنا اور گذشتہ تین ماہ سے ایلیسا کا گھر پر ہونا ہی ہمارے لیے ایک تحفہ ہے“

ایلیسا کے والد جیمز کا کہنا ہے ”میں بتا نہیں سکتا کہ ہم کتنے خوش ہیں، جب آپ یاد کرتے ہیں کہ وہ کن حالات سے گزری ہے اور جب آپ اس کو زندگی کی طرف آتا دیکھتے ہیں تو یہ سب ناقابلِ بیان ہے“

لوکیمیا میں مبتلا زیادہ تر بچے عام طریقے سے علاج کرواتے ہیں لیکن یہ خیال کیا جا رہا ہے کہ سال میں ایک درجن تک بچے اس تھراپی سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں

ایلیسا ان دس لوگوں میں سے پہلی ہیں، جنہیں تجرباتی بنیادوں پر یہ پر دوا دی گئی

گریٹ اورمنڈ اسٹریٹ ہسپتال کے بون میرو ٹرانسپلانٹ ڈپارٹمنٹ کے ڈاکٹر رابرٹ چیسا کہتے ہیں ”یہ انتہائی خوش آئند ہے۔ ظاہر ہے، یہ طب میں ایک نیا شعبہ ہے اور یہ دلچسپ ہے کہ ہم مدافعتی نظام کو کینسر سے لڑنے کے لیے ہدایات دے سکتے ہیں“

یہ طریقہ علاج ابھی صرف بنیادی ہے اور بیس ایڈیٹنگ سے اس کے مقابلے میں بہت کچھ زیادہ کیا جا سکتا ہے

براڈ انسٹیٹیوٹ میں بیس ایڈیٹنگ کے موجدوں میں سے ایک ڈاکٹر ڈیوڈ لیو نے بتایا ”یہ تھوڑا سا غیر معمولی تھا کہ ٹیکنالوجی کی ایجاد کے صرف چھ سال بعد لوگوں کا علاج کیا جا رہا تھا“

ایلیسا کے طریقہِ علاج میں ان کے خلیوں کی ساخت کی ہر ایک بنیادی ترمیم میں جینیاتی کوڈ کے ایک حصے کو توڑنا شامل تھا لیکن اس سے بھی زیادہ اہم طریقہِ علاج ہے، جہاں آپ ہدایات کو بند کرنے کے بجائے کسی خرابی کو ٹھیک کر سکتے ہیں

مثال کے طور پر اسکیل سیل انیمیا کی بیماری خلیے میں صرف ایک بیس کی تبدیلی کی وجہ سے ہوتی ہے، جسے ٹھیک کیا جا سکتا ہے

ڈاکٹر لیو کہتے ہیں ”بیس ایڈیٹنگ کا طریقہ ِ علاج ابھی شروع ہو رہا ہے اور انسانی جین ایڈیٹنگ کے اس دور کا حصہ بننا اچھا تھا، کیونکہ سائنس اب ہمارے جینومز کو کنٹرول کرنے کی طرف کلیدی قدم اٹھا رہی ہے“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close