جنگی جرائم کے شکار بچے، جنہیں بھلا دیا گیا!

ویب ڈیسک

اس وقت دنیا بھر میں 452 ملین سے زائد بچے جنگ زدہ ممالک و خطوں ميں رہتے ہيں۔ ان کے زخموں اور اموات کی بہت کم تحقیقات کی جاتی ہیں اور ان کے خلاف جرائم کی سزا شاذ و نادر ہی دی جاتی ہے

یہ المناک کہانی یوکرینی شہر ونیتسیا کی رہائشی بدقسمت لیزا کی ہے، ان کی عمر محض چار سال تھی

لیزا اپنی والدہ کے ساتھ اسپیچ تھراپی کے لیے جا رہی تھی کہ ان کے شہر پر روسی راکٹ گرے۔ اس حملے کے فوری بعد ایک وڈیو وائرل ہو گئی، جس میں وہ خالی سٹرولر دکھایا گیا تھا، جس میں حملے کے وقت لیزا بیٹھی ہوئی تھی۔ لیزا اور اس کا ٹیڈی بیئر اس خالی سٹرولرکے ساتھ زمین پر پڑے تھے۔ وہ اس حملے میں ماری جا چکی تھی

جولائی میں کیے گئے اس روسی حملے میں تین بچون سمیت تیئیس افراد لقمہ اجل بن گئے تھے۔ لیزا مرنے والے بچوں میں سے ایک تھی

بچوں کے تحفظ کی بین الاقوامی تنظیم ’سیو دا چلڈرن‘ کی ایڈووکیسی آفیسر اوریلی لامازیرے کہتی پیں ”یوکرین میں جنگ اس بات کی افسوسناک یاد دہانی ہے کہ بچے بار بار سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ یہ جنگی جرائم کے وہ شکار ہیں، جنہیں اکثر فراموش کر دیا جاتا ہے‘‘

واضح رہے کہ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق یوکرین جنگ میں سرکاری طور پر 5827 شہری ہلاک ہوئے ہیں، جن میں 375 بچے بھی شامل ہیں

اگرچہ یوکرین اور اس کے مغربی شراکت داروں نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ وہ روسی فوجیوں کے کسی بھی جرم کے لیے روس کا احتساب کریں گے، لیکن امکان ہے کہ یہ ایک طویل اور مشکل عمل ہوگا، جس کا غیر یقینی نتیجہ نکلے گا

لامازیرے کا کہنا ہے کہ قانونی طور پر بچوں کو اکثر فراموش کر دیا جاتا ہے۔ نابالغ بچوں کے خلاف جنگی جرائم کو شاذ و نادر ہی دستاویزی شکل دی جاتی ہے، تفتیش کی جاتی ہے یا سزا دی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر یورپی مرکز برائے آئین اور انسانی حقوق کے تحت آفاقی دائرہِ اختیار کا اصول ’بین الاقوامی قوانین کے خلاف جرائم پر کسی بھی ریاست کو یہ اختیار دیتا ہے کہ وہ ایکشن لے، بے شک متاثرہ شخص یا مجرم اس ریاست کے شہری نہ بھی ہوں۔ یہ اصول تیسرے ممالک کی قومی عدالتوں کو بیرون ملک ہونے والے بین الاقوامی جرائم سے نمٹنے، مجرموں کو مجرمانہ طور پر ذمہ دار ٹھہرانے اور سزا سے بچنے کی روک تھام کی اجازت دیتا ہے

اس کا مطلب یہ ہے کہ جرمن عدالت یوکرین میں ہونے والے جنگی جرائم کا مقدمہ چلا سکتی ہے، جن میں بے شک غیر جرمن افراد ہی ملوث ہوں گے۔ جرمن وفاقی فوجداری پولیس کا دفتر (بی کے اے) یوکرین میں ممکنہ روسی جنگی جرائم کے شواہد اکٹھا کر رہا ہے

بی کے اے کے صدر ہولگر منچ نے حال ہی میں اخبار ’ویلٹ ام زونٹاگ‘ کو بتایا کہ اس ضمن میں اب تک تین سو سے زائد شواہد اکٹھے کیے جا چکے ہیں

یہ واضح نہیں ہے کہ کیا ’بی کے اے‘ ان مقدمات کی پیروی کر رہا ہے، جس میں بچوں کے خلاف جرائم شامل ہیں۔ سیوو دا چلڈرن کی لامازیرے نے کہا کہ انہیں امید ہے کہ نوجوان متاثرین کو اس بار انصاف ملے گا

این جی اوز کے مطابق یوکرین میں یہ بچے تقریباً تیس ممالک یا جنگ زدہ علاقوں میں رہنے والے 452 ملین نابالغ بچوں میں شامل ہیں۔ یہ تعداد بیس سال قبل جنگ سے متاثرہ بچوں کی تعداد کے مقابلے میں دگنی ہے

لامازیرے کا کہنا ہے کہ یوکرین میں جنگ حالات کو بہتر بنانے کا موقع ثابت ہو سکتی ہے کیونکہ اس نے اس مسئلے پر عالمی توجہ دلائی ہے۔ انہوں نے کہا، ”یوکرین بچوں کے خلاف جنگی جرائم کا ٹیسٹ کیس ہو سکتا ہے۔‘‘

جنگی جرائم اور مغرب کا دہرا معیار

جارحیت کہیں بھی اور کسی کے بھی خلاف ہو اور جارحیت کرنے والا چاہے کوئی بھی ہو، وہ جارحیت ہی کہلاتی ہے۔ لیکن بدقسمتی سے اسرائیل کی جانب سے فلسطینی بچوں کے خلاف جنگی جرائم، امریکہ کی جانب سے عراق اور افغانستان یا شام میں بشار الاسد کی افواج کے جنگی جرائم سے چشم پوشی دنیا کے دوہرے معیار کی عکاسی کرتی ہے

دوسری جانب عالمی عدالت انصاف (آئی سی سی) کو یہ اختیار ہے کہ وہ ریاستوں اور اُن خِطّوں کی سرزمین پر نسل کُشی، انسانیت کے خلاف جرائم اور جنگی جرائم کے مرتکب افراد کے خلاف معاہدہِ روم کے مطابق کارروائی کرے، جنہیں اقوام متحدہ تسلیم کرتا ہے۔عالمی عدالت کی تشکیل کی بنیاد معاہدہِ روم ہے لیکن اسرائیل نے کبھی بھی معاہدہِ روم کی توثیق نہیں کی اور دہائیوں سے فلسطین میں جنگی جرائم کا مرتکب ہو رہا ہے لیکن دنیا خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے، یہی صورت حال عراق اور افغانستان میں امریکی اور خود یورپ کے اتحادی افواج کے جنگی جرائم کے حوالے سے دیکھی جا سکتی ہے

سوال یہ ہے کہ کیا یورپ اسرائیلی، امریکی اور خود یورپی افواج کے جنگی جرائم کے حوالے سے بھی اس طرح کا رویہ اپنائے گا، اگر ایسا نہیں ہے تو یوکرین میں روسی جنگی جرائم کے خلاف اقدامات دراصل یورپ کے سیاسی مفادات کے تحفظ کے سوا کچھ نہیں ۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close