’آدمی اتنا مہنگا تھوڑی ہوتا ہے‘

محمد جمیل اختر کی دو مختصر کہانیاں

بے چہرگی کا دُکھ

وہ مئی کے مہینے کی ایک گرم دوپہر تھی۔ وہ نوجوان دریا میں نہا رہا تھا اور کوئی بھی اس کی جانب متوجہ نہیں تھا۔ تبھی اس کے پاؤں کسی نرم سی شے سے ٹکرائے۔ اس نے جُھک کر ہاتھ کی مدد سے زیرِ آب اس جگہ کو ٹٹولا۔ ہاتھوں کی مدد سے اس نے مٹی کو ہٹایا اور باہر نکال کر دیکھا تو وہ ایک گول آئینہ تھا۔ اس نے آئینے میں اپنی شکل دیکھنے کی کوشش کی مگر کچھ نظر نہیں آیا۔ اس نے دریا کے پانی سے آئینے کو اچھی طرح دھویا یہاں تک کہ وہ چمکنے لگا۔ اس نے پھر آئینے کو اپنے آگے کرکے دیکھا مگر وہاں کچھ بھی نہیں تھا۔

‘عجیب بات ہے، ایسا تو کبھی نہیں ہوا کہ میں نے آئینے میں شکل دیکھی ہو اور وہاں کچھ بھی دکھائی نہ دیا ہو۔ ممکن ہے یہ کوئی جادو والا خاص آئینہ ہو’، اس نے سوچا اور اِدھر اُدھر دیکھ کر احتیاط سے آئینے کو شلوار میں ڈال لیا۔

دریا سے باہر نکل کر اس نے فوراً قیمیض پہنی اور گھر کی جانب روانہ ہوا۔ راستے میں اسے کسی نے نہ دیکھا، وہ ہر ایک کی نظروں میں جھانک کر دیکھتا کہ شاید کوئی سوال کرے مگر لوگ تو یوں گزر رہے تھے جیسے وہ وہاں موجود ہی نہ ہو۔

وہ گھر میں موجود اسٹور روم میں جا گھسا، جہاں پرانا متروک شدہ سامان رکھا تھا۔ وہ جب صحن سے گزر رہا تھا تو اس نے دیکھا کہ اس کا باپ سامنے بیٹھا چرس بھرا سگریٹ پی رہا تھا، نوجوان ایک لمحے کو رُکا کہ کہیں اس کا باپ اس سے کچھ پوچھ نہ لے مگر ایسا نہیں ہوا۔

اس کے باپ نے ہمیشہ کی طرح اسے یکسر نظرانداز کردیا ہو جیسے وہ وہاں تھا ہی نہیں۔ آخری بار اس کے باپ نے اسے چھ ماہ پہلے یہ پوچھنے کے لیے بلایا تھا کہ تمہارا نام کیا ہے، دراصل باہر ایک حکومتی ٹیم گھروں کے کوائف اکٹھے کر رہی تھی۔ اسٹور روم میں اس نے احتیاط کے ساتھ آئینہ نکالا، کمرے کی بتی جلائی اور آئینے پر جھک گیا، مگر وہاں اب بھی کچھ نہیں تھا۔

‘یہ تو عجب بھید ہے۔ میرا چہرہ دکھائی کیوں نہیں دیتا؟ حالانکہ آئینے پر کوئی گرد بھی نہیں، یہ دھندلا بھی نہیں۔ ایسا صاف آئینہ تو میں نے زندگی میں کبھی نہیں دیکھا.. پھر یہ میری شکل کیوں نہیں دکھاتا؟’ ، اس نے سوچا مگر کچھ سمجھ نہیں آیا۔

وہ اگلے تین دن تک آئینے کو چھپائے اِدھر اُدھر پھرتا رہا۔

‘آخر میں یہ راز کس کو بتاؤں؟ اس آئینے کو ضرور کسی جوہری کو دکھانا چاہیے۔’

اس شہر میں ایک پرانے سامان کا تاجر تھا، جس کے بارے میں مشہور تھا کہ اس نے کبھی گھاٹے کا سودا نہیں کیا۔ وہ نوجوان اس کے پاس گیا اور بہت احتیاط سے آئینہ اس کے سامنے رکھ کر کہنے لگا ‘یہ آئینہ بیچنا تھا، کیا دام دیں گے؟’

تاجر نے آئینہ ہاتھوں میں اٹھایا اور اسے الٹ پلٹ کر دیکھنے لگا۔

‘یہ کون خریدتا ہے بھئی۔ یہ کوئی ایسا خاص آئینہ نہیں۔ میں پُرانا سامان ضرور خریدتا ہوں مگر بہت خاص چیزیں، یہ تو بالکل عام سا ہے’، تاجر نے یہ کہا اور آئینے میں دیکھ کر اپنے بال درست کرنے لگا۔

‘مگر یہ آئینہ تو بہت خاص ہے’، نوجوان نے کہا۔

‘کیا خاص بات ہے اس میں؟’

‘اس میں… اس میں چہرہ دکھائی نہیں دیتا’، نوجوان نے ہکلاتے ہوئے کہا۔ ‘مجھے تو اپنا چہرہ دکھائی دے رہا ہے’، تاجر نے ہنستے ہوئے کہا۔

‘لیکن میں تین روز سے دیکھ رہا ہوں، مجھے اپنا چہرہ دکھائی نہیں دیتا’، نوجوان نے کہا۔

‘تمہارا چہرہ؟ تمہارا چہرہ تو مجھے بھی دکھائی نہیں دے رہا۔ بس آواز آرہی ہے۔ بہت مِٹا مِٹا سا چہرہ ہے’۔

‘کیا مطلب؟ آپ میرا چہرہ نہیں دیکھ پا رہے؟’، نوجوان نے گھبرا کر کہا۔

‘کچھ دھندلا سا ہے.. تاہم صاف نظر نہیں آرہا’، تاجر نے جواب دیا۔

نوجوان آئینہ وہیں چھوڑ کر گھر بھاگ آیا اور فوراً اسٹور روم میں جاکر چھپ گیا، جہاں وہ بچپن سے چھپتا آیا تھا۔ اس کی مضبوط پناہ گاہ۔

آدمی برائے فروخت

‘بھئی خرید لو! اس سے بڑھ کر سستا آدمی آپ کو کہیں نہیں ملے گا’۔

‘دو ماہ کا گھر کا کرایہ، بجلی، گیس کا بل اور گھر کا راشن مہیا کیجیے اور پورا آدمی خرید لیجیے۔’

‘مکمل آدمی؟’، ہجوم میں سے کسی نے پوچھا۔

‘جی بالکل مکمل آدمی… مکمل غلام’۔

لوگ تصویریں بناتے ہوئے آگے بڑھنے لگے، اسٹیٹس اپڈیٹ ہوتے رہے مگر آدمی کو کسی نے نہیں خریدا۔

آدمی کی آواز اونچی ہوگئی۔

‘جناب! آپ کا خادم، آپ کا غلام ابھی بھی موجود ہے، خرید لیجیے۔ اب تو قیمت اور کم ہوگئی ہے، صرف گھر کا کرایہ اور بچوں کا راشن دیجیے’۔

”بہت زیادہ قیمت ہے بھئی ہم نہیں خریدتے’، ہجوم میں اکثر لوگوں نے کہا۔

قیمت اور کم ہوگئی ہے۔

’صرف کھانے کو دیجیے اور خرید لیجیے۔’

‘نہیں بھئی، ہم نہیں خریدتے۔ آدمی اتنا مہنگا تھوڑی ہوتا ہے۔’

بشکریہ : ڈان نیوز

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close