فرانز فینون: جائزہ اور افادہ، وفات کے ساٹھ برس بعد (2)

ڈاکٹر اختر علی سید

اکتوبر 1960ء کے آغاز ہی میں وہ دوبارہ بیمار ہو گیا۔ یہ وہ وقت تھا، جب وہ اپنی کتاب افتادگان خاک مکمل کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ روسی ڈاکٹروں کے رویہ سے دلبرداشتہ فینون نے مرض کے عود کرآنے پر بھی اپنے معالجین سے رابطہ نہیں کیا۔ امریکہ جانے پر وہ ذہنی طور آمادہ نہ تھا۔ لیکن اپنے علاج کے لیے اس وقت اس کے پاس کوئی اور راستہ نہ بچا تھا۔ اس کو سڑک کے راستے روم پہنچایا گیا۔ فرانسیسی فلسفی ژاں پال سا اتر اس کے ہمراہ تھا۔ روم سے فلائٹ لے کر پہلے نیویارک اور تین اکتوبر کو وہ واشنگٹن پہنچا۔ میسی کے بقول وہ امریکہ میں اپنے استقبال سے سخت مایوس ہوا۔ کئی دن اسے ہسپتال کے بجائے ایک ہوٹل میں ٹھہرنا پڑا

فینون کے سفر امریکہ کے بارے میں آج تک بہت سی مختلف باتیں کہی جاتی ہیں۔ کولمبیا یونیورسٹی میں شعبہ تاریخ کے استاد ٹامس مینی ( Thomas Meaney ) نے ”امریکن ہسٹاریکل ریویو“ میں سی آئی اے کے تعاون سے فینون کے امریکہ میں ہونے والے علاج کا پورا احوال لکھا ہے۔ (Meaney، 2019 ) فینون کی سوانح عمری میں میسی نے اس بات کو واضح کیا ہے کہ روس میں ہونے والے علاج کی ناکامی کے بعد اس نے امریکہ کی جانب سے آنے والی علاج کی پیشکش کو طوعاً و کرہاً قبول کیا تھا۔ فینون ساری زندگی امریکہ کو مارپیٹ کرنے والوں کا ملک قرار دیتا رہا تھا۔ یہ عقدہ شاید کبھی مستقبل میں کھلے گا کہ امریکہ نے فینون کو علاج کی پیشکش کیوں کی تھی۔ تاہم امریکی صحافی جوزف ایلسوپ ( Joseph Alsop) کے مطابق امریکی پیشکش کا مقصد نیو لیفٹ کے ایک سیاہ فام فلسفی کو مدد فراہم کر کے یہ بتانا تھا کہ فینون نے آخری سانسیں سی آئی اے کی بانھوں میں لی تھیں (Meaney، 2019 ) ۔ سی آئی اے کا وہ کارندہ جو فینون کی امریکہ میں آمد اور قیام کی نگرانی پر مامور تھا اس کا نام مینی نے ( Oliver Iselin) بتایا ہے۔ مینی کے سوالات کے جواب میں آئسلن نے اپنے خط میں فنون کی امریکہ آمد کے بارے میں اسے بتایا:

”فینون شدید مایوسی اور بیماری کی حالت میں امریکہ پہنچا تھا۔ روس میں ہونے والا اس کا علاج ناکام ہو گیا تھا اور علاج کے بارے میں ہماری پیشکش اس کی آخری امید تھی۔ اس کو ہماری نیت پر شروع ہی سے شک تھا جو اس کے میری جانب رکھے گئے جانے والے رویے سے ظاہر ہوتا تھا۔ لیکن وہ میری ان کوششوں سے خوش تھا جو میں نے اس کی اور اس کے خاندان کی مدد کے لئے کی تھیں۔“ (Meaney، p۔ 984 )

آئسلن کے مطابق ایف ایل این کے امریکہ میں موجود نمائندے محمد یزید نے سی آئی اے سے فینون کے بارے میں رابطہ کیا تھا۔ یزید نے اس کے روس میں ہونے والے علاج اور روا رکھے جانے والے نامناسب رویہ کے بارے میں بھی بتایا تھا۔ سی آئی اے نے 1961ء کے موسم گرما میں فینون کو امریکہ آنے کی دعوت دی اور انتظامات مکمل کر لیے تاہم فینون نے تاخیر سے کام لیا۔ آئسلن نے نیویارک میں فینون کا استقبال کیا۔ وہاں سے وہ اس کو واشنگٹن لے کر آیا جہاں وہ ایک ہفتہ یا دس دن ایک ہوٹل میں بغیر کسی علاج کے قیام پذیر رہا۔ ہوٹل کے بعد اسے میری لینڈ کے نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ میں منتقل کیا گیا۔ اس تاخیر نے فینون کو بے حد مایوس کیا۔ اس تاخیر نے بہت سے لوگوں (مثلاً (Elain Mokhtefi، 2018 ) امریکہ میں مقیم الجیریا کی جنگ آزادی کی ہمدرد ایک خاتون جس نے فینون اور اس کے بیٹے کی امریکہ میں علاج کے دوران خوب دیکھ بھال کی) کے ذہنوں میں سی آئی اے کے مقاصد پر شکوک و شبہات کو جنم دیا، تاہم ایک مشہور سوانح نگار اہل حسین عبد الہی بلحان نے ان تمام شکوک و شبہات کو بلا جواز قرار دیا ہے۔ (Bulhan، 1985۔ p۔ 43)

فینون کی صحت، روس میں ہونے والے علاج کی ناکامی، روسی حکام کے ناروا رویے، علاج کے لیے میسر دیگر ذرائع کی عدم دستیابی اور الجیریا کی جنگ آزادی سے اس کی وابستگی کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ امریکی مقاصد خواہ کچھ بھی رہے ہوں فینون نے امریکہ جانے کا فیصلہ صرف اور صرف اپنے علاج کی غرض سے کیا تھا تاکہ وہ واپس لوٹ کر دوبارہ اپنے کاموں کو پوری تندہی سے جاری رکھ سکے۔ ڈیوڈ میسی ایلسوپ کے مضمون کو کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اس تاثر کی پرزور نفی کرتا ہے کہ فینون کا سفر امریکی سی آئی اے کے ساتھ اس کے کسی پوشیدہ تعلق کے نتیجے میں وقوع پذیر ہوا۔ (Macey، 2012)

امریکہ میں فینون کا قیام مختصر ثابت ہوا۔ 6 دسمبر1961ء فینون کی زندگی کا آخری دن ثابت ہوا۔ فینون کی موت ایک عام آدمی کی موت نہیں تھی۔ اس کے اپنے وطن مارٹینیک کے علاوہ فرانس، اٹلی، تیونس اور الجیریا میں اس کی موت کی خبر نے بہت سوں کو دکھی کر دیا۔ فینون کے جسد خاکی کو امریکہ سے تیونس منتقل کیا گیا۔ لیکن اس کی تدفین اس کی وصیت کے مطابق الجیریا کے قصبے عین کرنا کے شہدا کے قبرستان میں کی گئی۔ یہ قصبہ فینون کی یہاں تدفین سے کچھ عرصہ قبل ہی فرانسیسی تسلط سے آزاد ہوا تھا۔ فینون کے کتبہ قبر پر اس کا نام ابراہیم فرانز فینون درج ہے۔ بستر مرگ سے لکھے گئے خط کی یہ عبارت فینون کے بارے میں بہت کچھ بتاتی ہے۔

”میں صرف یہ بتانا چاہتا ہوں کہ موت کے بارے میں اہم بات یہ نہیں ہے کہ ہم اس سے بچ سکتے ہیں یا نہیں بلکہ اہم یہ ہے کہ اس سے پہلے کیا ہم ان نظریات کو سچ ثابت ہوتے دیکھ پاتے ہیں یا نہیں جو ہم نے اپنے لیے خود تشکیل دیے تھے۔ اپنے بستر میں اپنی طاقت اور خون کو کھونا میرے لیے زیادہ تکلیف دہ نہیں ہے بلکہ زیادہ تکلیف دہ یہ بات ہے کہ یہ سب کچھ واشنگٹن میں ہو رہا ہے۔ تین مہینہ قبل میں دشمن کا سامنا کرتے ہوئے بھی جان دے سکتا تھا (Bulhan، 1985 p۔ 46)۔“

فینون مرنے سے پہلے دو خواہشات کی تکمیل چاہتا تھا۔ ایک افتادگان خاک کی تکمیل اور اشاعت اور دوسرے الجیریا کی آزادی۔ افتادگان خاک تو اس کی زندگی میں شائع ہو گئی مگر وہ الجیریا کی آزادی سے صرف تین ماہ قبل 6دسمبر1961ء کو صرف36 سال کی عمر میں دنیا چھوڑ گیا۔ صرف 36 سال کی قلیل عمر میں وہ اپنے پیچھے استعمار، استعماریت اور محکومین کے بارے میں جو بنیادی حقائق بیان کر گیا ہے وہ آج تک مختلف حوالوں اور مختلف خطوں میں زیر بحث ہیں

فینون عام طور پر اپنی دو تصانیف ”افتادگان خاک“ اور ”سیاہ جلد، سفید نقاب“ کے حوالے سے جانا جاتا ہے۔ 1959ء میں شائع ہونے والی کتاب ”قریب المرگ استعماریت A Dying Colonialism“ اور اس کے مضامین کا مجموعہ ”افریقی انقلاب کی جانب Towards African Revolution“ جو اس کی وفات کے بعد 1964ء میں شایع ہوا، اس کی نسبتاً کم معروف کتابیں ہیں

اس کی معروف ترین کتاب افتادگان خاک اس کی وفات سے صرف تین مہینے پہلے شائع ہوئی۔ فرانس میں اس پر ملا جلا ردعمل دیکھنے میں آیا لیکن 1960ء کی دہائی کے آخر میں یہ کتاب امریکہ میں بہت مشہور ہوئی۔ 1970ءتک اس کتاب کے آٹھ زبانوں میں ترجمہ سامنے آچکے تھے (Celarrent، 2011 ) ۔ ”افتادگان خاک“ الجیریا کے انقلاب کے لیے جدوجہد کرتے ہوئے فینون کے تجربات کا نچوڑ ہی نہیں ہے بلکہ آنے والے وقت کی پیش گوئی بھی ہے۔ جب کہ ”سیاہ جلد، سفید نقاب“ فرانسیسی نسل پرستی پر فینون کا ردعمل ہے۔ ”قریب المرگ استعماریت“ الجیریا کی جنگ آزادی کی جدوجہد کے کامیاب خاتمے کی نوید ہے۔ ”افریقی انقلاب کی جانب“ فینون کے ان سیاسی مضامین کا مجموعہ ہے جو ایف ایل این کے رسالے ”المجاہد“ میں شائع ہوئے تھے۔ یہ کتاب فینون کی وفات کے بعد 1964ء میں شائع ہوئی۔ فینون کے مضامین اور دیگر تحریروں کا ایک اور مجموعہ ”بیگانگی اور آزادی“ (Alienation and Freedom) جین خلفہ، رابرٹ ینگ، اور سٹیون کورکرن نے 2015ء میں شائع کیا ان تحریروں کے بارے میں گمان یہ تھا کہ یا تو یہ دستیاب نہیں ہے یا ضائع ہو چکی ہیں

زیرِ نظر تحریر فینون کی ان تین کتابوں کے جائزے تک محدود ہے، جو اس کی زندگی میں شائع ہوئی تھیں۔ ”سیاہ جلد، سفید نقاب“ Black Skin، White Mask پہلی مرتبہ1952ءمیں شائع ہونے والی فرانز فینون کی یہ پہلی کتاب اس کی اہم ترین اور تاحال بر محل تحریروں میں سے ایک ہے۔ اس کتاب کا تعارف اور آٹھ ابواب ستائیس سالہ فینون کی علمی استعداد اور حاصل کردہ علم کو حالات کی تفہیم کے لیے استعمال کرنے کی اس صلاحیت کا پتہ دیتے ہیں جو اس نے اپنی جوانی ہی میں حاصل کرلی تھی۔ اس کتاب کا سرسری مطالعہ بھی فلسفہ، نفسیات، ادب اور سیاسی معاملات پر اس کی گہری گرفت کا اندازہ لگانے کے لیے کافی ہے

ہمارے پیش نظر اس کتاب کا وہ انگریزی ترجمہ ہے جسے چارلس مارکمین (Charles Markman) نے فرانسیسی سے کیاہے۔ یہ کتاب اور بھی قیمتی ہو گئی ہے کیونکہ استعماریت پر کام کرنے والے دو نامی گرامی مصنفین ضیاءالدین سردار اور ہومی بھابھا نے اس کتاب کے پیش لفظ لکھے ہیں۔ بھابھا نے 1986ءمیں جبکہ ضیاء الدین سردار نے اپنا پیش لفظ2008ء میں لکھا ہے۔ ان دو اضافوں نے موجودہ صورت حال میں اس کتاب کی افادیت پر اس طرح روشنی ڈالی ہے کہ کتاب کے وہ حصے بھی واضح ہو گئے ہیں جو بتدریج پڑھنے والوں کی نظر اور توجہ سے اوجھل ہوتے جا رہے تھے۔

مالک بن نبی نے استعماریت کا شکار ہونے والے معاشروں کی ان خصوصیات کو اجاگر کیا تھا جن کی وجہ سے معاشرے استعمار کا نشانہ بنتے ہیں جبکہ فینون نے اپنی اس کتاب میں ان سیاسی سماجی اور نفسیاتی اثرات کا جائزہ لیا ہے جو استعماریت پیدا کرتی ہے۔ اوکٹیو مینونی (Octave Manning) کی کتاب Prospero and Caliban: The Study of the Psychology of Colonisation ”استعماریت کی نفسیات کا مطالعہ“ 1950ءمیں شائع ہو چکی تھی۔ اس لیے یہ کہنا درست نہیں ہو گا کہ استعماریت کے نفسیاتی اثرات کا مطالعہ پہلی مرتبہ فینون نے کیا تھا۔ فینون ابھی اپنی پہلی کتاب لکھ ہی رہا تھا کہ مینونی کے کی کتاب کے کچھ اقتباسات Esprit نامی جریدے کے اپریل1950ءکے شمارے میں شائع ہوئے تھے۔ (فینون کے مطابق اس نے مینونی کے مضامین Espritکی بجائے ایک دوسرے جریدے Psyché میں پڑھتے تھے ) ۔ بعد ازاں پوری کتاب شائع ہونے پر فینون نے ”سیاہ جلد، سفید نقاب“ کے چوتھے باب میں اس پر ایک مفصل مگر تنقیدی مضمون بھی لکھا جس پر ہم آگے چل کر بات کریں گے لیکن اس مضمون میں فینون نے دو باتوں کا اعتراف کیا ہے۔ ایک تو استعمار گرد اور محکوم کے تعلق کا نفسیاتی مطالعہ اور اس کا طریقہ کار پہلی مرتبہ مینونی نے متعارف کرایا تھا۔ مینونی نے فرائیڈ اور ژاک لاکان کے طریقہ کار کو انتہائی مہارت سے استعمال کرتے ہوئے اس تعلق کی نفسیاتی پیچیدگی کو اس طرح واضح کیا تھا کہ اب وہ استعماریت کے مطالعے کا ایک لازمی حصہ بن گیا ہے۔ دوسری اہم ترین بات فینون جس کا کریڈٹ مینونی کو دیتا ہے وہ یہ کہ استعماریت کا مطالعہ اب صرف واقعات کی تاریخ کا مطالعہ نہیں رہا بلکہ اب اس کے ساتھ ساتھ یہ ایک طرح کے واقعات کی جانب انسانی رویوں کا مطالعہ بھی بن گیا ہے

اس مقام پر مینونی کے ذکر کا ایک مقصد اس کے کام کی اہمیت کو اجاگر کرنا بھی تھا کیونکہ استعماریت کے جدید مطالعے میں اس کا ذکر بتدریج کم ہوتا چلا جا رہا ہے۔ اس مصنف کی رائے میں استعماریت کے نفسیاتی اثرات کے مطالعے کا موجد مینونی ہے۔ اگر یہ دعویٰ درست نہیں بھی ہے تب بھی ایک بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ اس نے یہ مطالعہ فینون سے پہلے کیا تھا۔ یہ عین ممکن ہے کہ فینون نے مینونی کا اتباع نہ کیا ہو، تاہم یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ یہ مطالعہ کرتے ہوئے مینونی کے سامنے فرائیڈ اور لاکان کے نظریات کے علاوہ اور کوئی رہنمائی موجود نہیں تھی۔ لیکن فینون کے سامنے مینونی کا کام موجود تھا۔ مینونی کی استعماریت پر لکھی جانے والی کتاب میں فینون کے کسی کام، نظریے، یا تحریر کا کوئی بھی حوالہ موجود نہیں ہے

فینون نے اپنی اس کتاب کے تعارف ہی میں استعماریت کے نفسیاتی اثرات کے مطالعے کا ایک بالکل ہی نیا طریقہ متعارف کرا دیا تھا۔ اور یہ تھا نسل پرستی کا مظہریت پسند (Phenomenology of racism) مطالعاتی طریقہ کار۔ 1940ء کے عشرے میں فرانس میں قیام کے دوران فینون نے تین اہم مفکرین کا مطالعہ کیا۔ ان میں ژاں پال سارتر (Jean Paul Sartre) اور مارلیو پونٹی (Merleau۔ Ponty) خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ جنگ عظیم دوم کے بعد 1947ء میں مارلیو پونٹی کے لیکچر سننے کے بعد فینون نے سیمون دی بواغ ( Simone de Beauvoir) کو کہا تھا کہ اس نے ان لیکچرز میں پونٹی کو اپنے سے بہت دور محسوس کیا اور پھر کبھی اس سے ملنے کی کوشش نہیں کی۔ (Macey، p۔ 124 ) ۔ تاہم سارتر کے ساتھ فینون کی دوستی بہت گہری تھی۔ نہ صرف ذاتی طور پر سارترفینون کو بہت پسند کرتا تھا بلکہ نظریاتی طور پر بھی دونوں ایک دوسرے کے بہت قریب تھے۔ فینون پر کام کرنے والے ماہرین نے اس پر سارتر کے اثرات کو کئی حوالوں سے گنوایا ہے۔ ”سیاہ جلد، سفید نقاب“ کا بنیادی سوال حقیقت میں ایک مظہریت پسند (phenomenological) سوال ہے ”ایک سیاہ فام کیا چاہتا ہے؟“ فینون کا اصرار ہے کہ ایک سیاہ فام جب ایک سفید فام کے ساتھ رابطے میں آئے تو وہ ایک سیاہ فام ہی رہے اور سفید فام بننے کی کوشش نہ کرے۔ اس کتاب کے پانچویں باب ”سیاہ فامی کی حقیقت“ میں اس نے اپنے ہم وطن شاعر سیزارے (Aimé Cesairé، 1913۔ 2008 ) کی ایک اصطلاح ”سیاہ فامی کا تفاخر ( Negritude)“ استعمال کی ہے سیزارے ایک معروف شاعر، ”استعماریت کا ڈسکورس“ نامی معروف کتاب کا مصنف اور فینون کا استاد تھا۔ ”سیاہ فامی کا تفاخر“ کی اصطلاح سیزارے سے پہلے ہیٹی میں ہونے والی بغاوت کے پس منظر میں استعمال ہوئی تھی۔ ضرب المثل کا درجہ حاصل کرنے والی نظم سیزارے کی کتاب ”آبائی وطن واپسی کی نوٹ بک“ Notebook of a return to my native land صفحہ 42 اور 42 پر موجود ہے

اس نظم میں سیزارے محکوموں کی مادی تنزلی کے موجودہ احوال کو بیان کرتا ہے لیکن اسی کتاب سے سیزارے کی چند اور سطور ”سیاہ فامی کے تفاخر“ کی وضاحت کرتی ہیں۔ اس کے مطابق اس کی سیاہ فامی کا منبع خس و خاشاک میں نہیں بلکہ اس کی جڑیں اس کی روح، اور جسم میں ہیں۔ سیاہ فامی کا تعلق عمارتوں سے نہیں انسانوں سے ہے۔ یعنی سیاہ فامی ایک انسانی مسئلہ ہے جسے مادی ترقی سے الگ کر کے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ (1)

فینون کے سوانح نگار بلحان کے مطابق سیاہ فامی کے تفاخر کی جانب فینون کا رجحان شروع ہی سے ہچکچاہٹ کا شکار تھا۔ رد عمل پر مبنی یہ رجحان بہت ہی عارضی ثابت ہوا۔ بعد ازاں سارتر نے سینغور ( Senghor) کی کتاب پر مقدمہ لکھتے ہوئے سیاہ فامی کے تفاخر کو ایک ایسا تصور قرار دیا جس کی بنیاد میں ہی اس کی بربادی درج تھی (Bulhan، p۔ 37 ) ۔ فینون نے اس کتاب کے پانچویں باب میں اپنی چوک کا اعتراف کیا ہے۔ ”نسلی تعصب نفرت پر مبنی ایک غیر عقلی رویہ کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے جو ایک نسل دوسری کی جانب روا رکھتی ہے“ (Fanon، 1967۔ p۔ 92 ) ۔ سیاہ فامی کے تفاخر سے فینون کے رجوع کے بعد دوبارہ اس سوال کو دیکھیے جو اس نے کتاب کے تعارف میں اٹھایا تھا۔ ”ایک سیاہ فام کیا چاہتا ہے“ اس کتاب میں اس سوال کا جواب ڈھونڈ تے ہوئے ذہن میں شاید یہ رکھنا ضروری ہو گا کہ فینون اس سوال کا جواب سفید فام استعماریت کے شکار الجیریا اور دنیا کے دیگر سیاہ فام افراد کی زندگیوں اور تجربات سے کشید کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ یہ سیاہ فام افراد کا وہ فلسفیانہ سوال نہیں ہے جس میں ایک انسان خود سے پوچھتا ہے ”میں کون ہوں“ اور ”کیا چاہتا ہوں“ یہ ایک محکوم کا سوال ہے جو استعماریت کی پیدا کردہ دنیا میں اٹھایا جا رہا ہے۔

ہم مالک بن نبی کے حوالے سے مختصراً یہ بات کرچکے ہیں کہ اس کے خیال میں محکوم معاشرہ استعمار کا نشانہ بننے کے خواص کا حامل ہوتا ہے۔ اگر محکوم معاشرے میں وہ خواص موجود نہ ہوتے تو یہ معاشرے کبھی بھی استعماریت کا شکار نہ ہوتے۔ فینون اس سے مختلف نکتہ اٹھاتا ہے۔ وہ ان خواص کو گنواتا ہے جو استعماریت اپنے شکار افراد میں پیدا کرتی ہے۔ اس کتاب میں فینون کے اولین مخاطب استعماریت کے شکار سیاہ فام افراد ہیں جبکہ زیر نظر تحریر مختلف معاشروں میں استعماریت کے شکار محکومین کے حوالے سے فینون کے نظریات کا اس کی وفات کے ساٹھ سال بعد جائزہ لینے کی ایک کوشش ہے۔ اس لیے عمومی طور پر ہم سیاہ فام افراد پر فینون کے نظریات کا اطلاق مختلف معاشروں کے محکومین پر کرنے کی کوشش کریں گے تاکہ یہ دیکھا جا سکے کہ اس کے نظریات کے کون سے حصے دیگر معاشروں کو سمجھنے کے لیے آج بھی کارآمد اور مفید ہیں

گو اس وقت ہم فینون کی پہلی ”کتاب سیاہ جلد، سفید نقاب“ پر بات کر رہے ہیں لیکن شاید یہ مفید ہو کہ اگر ہم یہاں اس کی آخری کتاب ”افتادگان خاک“ کی ایک عبارت درج کریں۔ (جاری ہے)

بشکریہ: ہم سب
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)


  1. فرانز فینون: جائزہ اور افادہ، وفات کے ساٹھ برس بعد (1)


Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close